معروف گلوکار علی ظفر کے خلاف ایک خاتون نے 50 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا ہے۔
خاتون لینا غنی نے سندھ ہائی کورٹ میں علی ظفر کے خلاف دعویٰ دائر کیا ہے، عدالت نے سیشن جج لاہور کے ذریعے معروف گلوکار کو 25 جنوری کے لیے نوٹس جاری کردیے ہیں۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ علی ظفر نے مجھے پہلی مرتبہ 2014ء میں لندن میں پاکستانی فیشن کے دوران ہراساں کیا اور اُسی برس علی ظفر نے مجھ سے دو مرتبہ پھر نازیبا گفتگو کی۔
خاتون لینا غنی نے اپنی درخواست موقف اختیار کیا کہ 19 مارچ 2018ء کو معروف سنگر میشا شفیع اور ایکٹریس صبا قمر نے بھی علی ظفر پر ہراساں کیے جانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ میں نے علی ظفر کی طرف سے ہراساں کیے جانے سے متعلق اپنی بہن اور دوستوں کو بھی آگاہ کیا۔
لینا غنی نے مزید کہا کہ علی ظفر کا 20 دسمبر 2020 کا ری ٹوئٹ اور 22 دسمبر کا ٹوئٹ جھوٹ پر مبنی ہے جبکہ معروف گلوکار کے یہ ٹوئٹس بدنیتی پر مبنی ہیں۔
خاتون درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ علی ظفر کی ان دونوں ٹوئٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گلوکار کے خلاف مہم میں لینا غنی کا ہاتھ ہے، اس طرح کے الزامات میری ساکھ کو نقصان پہنچانے کےلیے لگائے جارہے ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ درخواست گزار کے 19 اپریل 2018 کو سچ پر مبنی قرار دیا جائے، علی ظفر کو سوشل میڈیا سمیت آن لائن، ٹی وی چینلز پرمواد اور خبریں چھپوانے سے روکا جائے۔
خاتون درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ایسے مواد اورخبروں سے مجھے نیچے دکھانے کی کوشش کی جائے گی، میرا میشا شفیع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لینا غنی نے اپنی درخواست میں استدعا کی کہ علی ظفر کے اقدامات سے مجھے ذہنی اذیت پہنچی ہے اس لیے مجھے 50 کروڑ روپے معاوضہ بطور ہرجانہ دلوایا جائے۔
پاکستان کے سابق فاسٹ بالر شعیب اختر نے دعویٰ کیا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کوان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور نئے ہیڈ کوچ اینڈی فلاور پاکستان سپر لیگ کے چھٹے سیزن کے بعد قومی ٹیم کو جوائن کریں گے۔
راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور شعیب اختر نے یہ انکشاف بدھ کو اپنے یوٹیوب چینل پر کیا۔
یاد رہے کہ کرکٹ کمیٹی نے کرکٹ بورڈ کو سفارش کی ہے کہ موجودہ کوچنگ اسٹاف کو برقرار رکھا جائے لیکن شعیب اختر کا کہنا ہے کہ کرکٹ کمیٹی کے الفاظ کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور یہ کہ مصباح کو ہٹانے اور اینڈی فلاور کو کوچ بنانے کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔
اینڈی فلاور
شعیب اختر کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ صرف پی سی بی کی پالیسی کو آگے بڑھاتےہیں اور پی سی بی تنقید سے بچنے کے لیے اپنے اوپر سے الزام اتار کر کمیٹی پر ڈال دیتا کہ کمیٹی نے کہا تھا تو ہم یہ فیصلہ کیا ہے، مصباح کو چانس دیا، کوئی چانس نہیں دنیا۔۔ انہوں نے مصباح کو نکال دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ’مصباح کو ہٹانے کا فیصلہ ہو گیا ہے اور وہ [پی سی بی] اینڈی فلاور کو لے آئے ہیں۔اینڈ فلاور اس لیے ابھی یہ قبول نہیں کر رہے کیونکہ وہ ملتان سلطان کے کوچ ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ اینڈ فلاور چاہتے ہیں کہ ان کے اس سال کے پی ایس ایل کے پیسے بن جائیں تو وہ ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
شعیب اختر نے کہا کہ وقار یونس اس وقت اپنی ملازمت بچانے کے لیے بھاگ دوڈ کر رہے ہیں۔’کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین بالر مصباح کے انڈر کام کر رہے ہیں ، یار کچھ تو خوف کریں وکی بھائی۔آپ کہتے ہیں کہ مصباح بات نہیں سنتا۔۔۔ وہ کیسے سنے گا جب وہ آپ کا ہیڈ کوچ ہے اور آپ اس کے نیچے کام کرتے ہیں۔’
شعیب نے وقار یونس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کو اپنی ملازمت کے ‘لالے’ پڑ جانے ہیں، اب ہونا ہی ایسا ہے کیونکہ اینڈی فلاور اپنی ٹیم لے کر آ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اینڈ فلاور یہ ان چھ سات لڑکوں کو نہیں بخشے گا جو کوچ کے منظور نظر ہوتے تھے۔
شعیب نے مزید کہا کہ ‘اینڈی فلاور اپنا میڈیکل پینل لائے گا اور یہ جو موجودہ ڈاکٹر رکھے ہوئے ہیں سہیل سلیم جن کا اپنا وزن 302 کلو ہے ، اس نے کیا فٹ کرنا ہے کسی کو، خود فٹ ہے نہیں۔’
انہوں نے کہا کہ پی سی بی کا میڈیکل پینل دنیا کا برا ترین میڈیکل پینل ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ براڈشیٹ کے انکشافات نے ایک مرتبہ پھر ہماری حکمران اشرافیہ کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کو بےنقاب کردیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ پہلے پاناما پیپرز نے ہماری حکمران اشرافیہ کی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کو بے نقاب کیا اور اب براڈشیٹ کے انکشافات نے ایک مرتبہ پھر ہماری حکمران اشرافیہ کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کو عیاں کردیا۔
انہوں نے لکھا کہ یہ اشرافیہ ان بین الاقوامی انکشافات پر ’انتقامی‘ کارڈ کے پیچھے نہیں چھپ سکتی۔
وزیراعظم نے اپنی ٹوئٹس میں لکھا کہ یہ انکشافات بار بار کیا بیان کر رہے ہیں؟ پہلا یہ کہ جو میں 24 سال سے کرپشن کے خلاف لڑتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ کرپشن پاکستان کی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، دوسرا یہ کہ یہ اشرافیہ اقتدار میں آکر ملک کو لوٹتی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ تیسرا یہ کہ یہ ناجائز طریقوں سے جمع کی گئی دولت کو ملکی اداروں کی گرفت سے بچانے کیلئےمنی لانڈرنگ کےذریعے بیرون ملک منتقل کرتے ہیں، مزید یہ کہ اس کے بعد وہ این آر او حاصل کرنے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہیں۔
عمران خان نے لکھا کہ اس طرح یہ لوگ لوٹ مار سے جمع کی گئی اپنی دولت کو محفوظ بناتے ہیں اور سب سے بڑا نقصان عوام کو پہنچتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اشرافیہ کی جانب سے نہ صرف قوم کی دولت لوٹی جاتی ہے بلکہ اس رقم کی وصولی کے لیے ادا کی جانے والی ٹیکس دہندگان کی رقم بھی این آر اوز کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے۔
اپنے بیان میں وزیراعظم نے لکھا کہ یہ انکشافات تو محض ایک جھلک ہے، ہم براڈشیٹ سے اپنی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ اور تحقیقات رکوانے والوں کے معاملے پر مکمل شفافیت چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان نے برطانوی کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی کے کاوے موسوی کے انکشافات کے ان کی اثاثہ جات ریکوری کمپنی سابق وزیراعظم نواز شریف اور دیگر کے زیر اثر تھی اور ان کے پاس کچھ دیگر پاکستانیوں کی منی لانڈرنگ کے ثبوت بھی تھے، کے تناظر میں معاملے کا پتا لگانے کے لیے ایک بین الوزرائی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے مذکورہ معاملے پر تبادلہ خیال کابینہ اجلاس کے ایجنڈے پر بات چیت مکمل ہونے کے بعد صرف کابینہ اراکین کی موجود میں ’زیرو آور‘ کے درمیان کیا تھا۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا تھا کہ ’کابینہ نے ایک بین الوزائی کمیٹی تشکیل دی ہے جو براڈشیٹ اسکینڈل میں سامنے آنے والے ہر فرد کی تفصیلات عیاں کریں گے‘۔
براڈشیٹ کا معاملہ
واضح رہے کہ براڈشیٹ ایل ایل سی ایک برطانوی کمپنی ہے جو پرویز مشرف کے دور میں آئل آف مین میں رجسٹرڈ تھی اور اس نے پاکستانیوں کی جانب سے مبینہ طور پر غیرقانونی دولت کے ذریعے بیرون ملک خریدے گئے اثاثوں کا پتا لگانے کے لیے اس وقت کی حکومت اور نئے بننے والے قومی احتساب بیورو (نیب) کی مدد کی تھی۔
براڈ شیٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ 20 جون 2000 میں اثاثہ برآمدگی کے سمجھوتے کی غرض سے قائم کی گئی تھی، جس نے ریاست، اداروں اور بدعنوانی کے ذریعے بیرونِ ملک لے جائی جانے والے رقم کے لیے اس وقت کے صدر اور نیب کے ساتھ مل کر کام کیا۔
اسی براڈ شیٹ کے مطابق یہ کمپنی خصوصی طور پر اثاثہ اور فنڈ برآمدگی کے لیے بنائی گئی تھی اور اسی لیے یہ ایسی چیزوں کی معلومات حاصل کرنے اور ریاست کو واپس کرنے سے منسلک تھی۔
مذکورہ کمپنی سے وابستہ رہنے والے ایک وکیل نے ڈان کو بتایا تھا کہ شریف خاندان براڈ شیٹ کی تحقیقات کا ’اعلیٰ ترین ہدف‘ تھا۔ تاہم 2003 میں نیب کی جانب سے اس معاہدے کو ختم کردیا گیا تھا۔
رواں ہفتے کے آغاز میں تنازع اس وقت کھڑا ہوا اس کمپنی کے مالک کاوے موسوی نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص نے ان سے 2012 میں رابطہ کیا اور ان کے خلاف تحقیقات کو روکنے کے لیے رقم کی پیش کش کی۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے کاوے موسوی نے ان الزامات کو دہرایا، ان کا کہنا تھا کہ انجم ڈار نامی ایک شریف آدمی نے خود کو نواز شریف کا بھانجا/بھتیجا بتاتے ہوئے 2012 میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، میں ان سے دو بار ملا، ایک بار کینٹربری اور پھر لندن میں، انہوں نے کہا کہ مذکورہ فرد نے انہیں ڈھائی کروڑ ڈالر کی پیش کش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘انہوں نے مجھے ایک تصویر دکھائی جس میں گھر میں نواز شریف نے انہیں گلے لگایا ہوا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے ایک ٹیپ ریکارڈنگ بھی تیار کی، یہ اردو میں تھی لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا انہوں نے اس پیش کش پر غور کیا تو کاوے موسوی نے کہا کہ جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ وہ بنیادی طور پر ہمیں پیچھے ہٹنے کے لیے رقم کی پیش کش کررہا ہے تو میرا جواب تھا کہ جو بھی رقم پیش کی جارہی ہے وہ ثالثی میں وکیلوں کے ذریعے آنی چاہیے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے برطانیہ کے حکام یا عدالت کے ذریعے مقرر کردہ ثالث کو پیشرفت کی اطلاع کیوں نہیں دی تو انہوں نے کہا کہ میں نے یقینی طور پر اس کے بارے میں وکلا سے تبادلہ خیال کیا لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کو حکام کے سامنے نہ اٹھائیں، انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی کہ کیوں ایسا کیا گیا لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ شریف خاندان کا فرد کون ہے تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں شریف فیملی سے پوچھ لیں۔
اس سوال پر کہ 2003 میں حکومت سے اثاثے کی وصولی کا معاہدہ ختم ہونے کے کئی سال بعد شریف خاندان یا ان کے نمائندے انہیں 2012 میں رشوت کی پیش کش کیوں کریں گے، تو کاوے موسوی نے کہا کہ ہم ثالثی میں تھے اور ثالث کو اس کی تحقیقات کرنی پڑتیں، وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ سارا معاملہ سامنے آئے۔
اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے ڈان کو بتایا تھا کہ یہ قطعی سچ نہیں ہے، انجم ڈار نامی ہمارا کوئی رشتے دار نہیں ہے، اگر کوئی فرد اس طرح کا دعویٰ کرنے والا ان (موسوی) کے پاس آیا تھا تو کیا یہ ان کی تفتیشی کمپنی کے لیے یہ مشکل کام تھا کہ وہ اس طرح کا الزام لگانے سے پہلے جان لیں کہ وہ کون ہے؟
انہوں نے مزید کہا تھا کہ نواز شریف کے دو بھائی اور ایک بہن ہیں اور ان کے تمام بچوں کے نام عوامی ڈومین میں ہیں، کیا کاوے موسوی اتنے برے تفتیش کار ہیں کہ وہ نو سال بعد بھی اس آسان حقیقت کا تعین نہیں کرسکے؟
اسلام آباد(ویب ڈیسک) مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے جلسوں میں اپنے خطاب پر غیر اعلانیہ پابندی لگانے پر خاموش احتجاج کیا ہے تاہم مصلحتاً وہ سرعام اس حوالے سے بات نہیں کرہے البتہ مریم نواز کے بنوں اور مالاکنڈ کے جلسوں میں نہ جانے کی بڑی وجہ بھی میاں نواز شریف کے خطاب پر پابندی ہے کیونکہ اسے مریم نواز نے بھی پسند نہیں لیکن پی ڈی ایم کا اتحاد برقرر رکھنے کے لیے مسلم لیگ ن کی قیادت اس کو معاملے کو اتنا نہیں اچھال رہی۔ ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم قیادت نے نواز شریف کے خطاب پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی اس لئے نواز شریف کی خواہش کے باوجود مالاکنڈ اور بنوں جلسوں سے خطاب نہ کرسکے۔ غیر اعلانیہ پابندی نوازشریف کے اعلی فوجی افسران کے نام نہ لینے کی شرط نہ ماننے پر لگائی ۔ نواز شریف نے اس پابندی کے خلاف مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری سے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ جس پر آصف زرداری نے نوازشریف کو مشورہ دیا تھا کہ آپ بھی ہماری طرح سلیکٹرز اسٹیبلشمنٹ کے الفاظ استعمال کیاکریں۔
عوام کو ریلیف دینے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے، کسی کو صوبے کے عوام کا استحصال نہیں کرنے دوں گا۔ بروقت فیصلوں سے آٹے کی قیمتوں میں استحکام آیا، پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں 20 کلو کا تھیلا مقررہ نرخ پر دستیاب ہے۔
تفصیل کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور، گندم، آٹے کے سٹاک و قیمتوں اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
عبدالعلیم خان نے وزیراعلیٰ کو گندم، آٹے کے سٹاک، نرخوں اور اپنے محکمے کی کارکردگی سے آگاہ کیا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں 20 کلو آٹے کا تھیلا مقرر کردہ نرخوں پر دستیاب ہے۔ حکومت کے بروقت فیصلوں سے آٹے کی قیمتوں میں استحکام آیا ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ عوام کو ریلیف دینا ہماری مشترکہ ذمہ داری اور فرض بھی ہے۔ اپوزیشن صرف ذاتی مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم مسترد شدہ اور مایوس عناصر کا غیر فطری اتحاد ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے قومی مفادات کو یکسر فراموش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم کا پیسہ لوٹنے والے عوام کو گمراہ نہیں کر سکتے۔ عوام باشعور ہیں اور نااہل وکرپٹ چہروں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اپوزیشن کا منفی کردار افسوسناک ہے اور اپوزیشن جان لے کہ بیان بازی سے عوام کی خدمت نہیں ہو سکتی۔
سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اقدامات سے صوبے میں آٹے کی قیمت مستحکم ہوئی ہے۔ محکمہ خوراک آٹے کی مناسب سپلائی کو ہر قیمت پر یقینی بنا رہا ہے اور تسلسل کے ساتھ قیمتوں کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی منفی سیاست دفن ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کے پاس کوئی ایجنڈا ہے نہ پروگرام۔ اس ٹولے کو انتشار کی سیاست سے توبہ کر لینی چاہیے۔
اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا فیصلہ دیتے ہوئے ڈاکٹر ندیم ڈائریکٹر این آئی بی ٹی سی کو میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جعلی بینک اکاونٹس کیسز میں آصف زرداری کی آٹھ ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشن میں آصف علی زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ پر مشتمل جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔
سابق صدر کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک جبکہ نیب سے سردار مظفر عباسی عدالت میں پیش ہوئے، آصف علی زرداری کی جانب سے آج حاضری سے استثنی مانگ لیا، فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ گزشتہ روز سینے میں درد کی وجہ سے ضیاء الدین اسپتال گیا جہاں داخل کر لیا گیا۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہم نے میڈیکل گروانڈ پر درخواست دائر کر رکھی ہے، اسی عدالت نے سابق صدر کو میڈیکل گراؤنڈ پر دو کیسسز میں ضمانت دی ہوئی ہے ، عدالتی احکامات پر پہلے بھی میڈیکل بورڈ بنا تھا، اس وقت بھی سابق صدر آصف علی زرداری بیمار ہیں اور اسپتال میں داخل ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا مناسب ہوگا کہ اس کیس میں بھی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سابق صدر آصف علی کو فی الحال دل، سینہ، شوگر سمیت دیگر بیماریاں لاحق ہیں، اس وقت نجی اسپتال میں آصف زرداری زہر علاج ہے۔
آصف زرداری کے نئے میڈکل رپورٹس بھی عدالت میں جمع کرائی ، جسٹس عامر فاروق نے کہا بورڈ کی رائے آنے دے پھر ہی کوئی فیصلہ کریں گے، نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کراچی کے کسی سرکاری ہسپتال سے بورڈ بنائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا عورتوں کا ڈاکٹر دل کی بیماری نہیں دیکھ سکتا، بیماری سے متعلق ایکسپرٹس کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل کا فیصلہ دیتے ڈاکٹر ندیم ڈائریکٹر این آئی بی ٹی سی کو میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دیا۔
ضیاء الدین ہسپتال کے ایم ایس کو بورڈ میں رکھنے اور دو ہفتوں میں میڈیکل بورڈ کو رپورٹس جمع کرنے کی ہدایت کردی، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 28 جنوری تک کے لئے ملتوی کردی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومنتخب جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری تک دارالحکومت میں ایمرجنسی نافذ کردی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 24 جنوری کو نومنتخب جوبائیڈن کی حلف برداری اور انتخابی مراحل کی تکمیل تک دارالحکومت واشنگٹن میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دارالحکومت میں ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس نے پیر کی شام وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایک ملاقات میں کیا۔
امریکی خفیہ ایجنسیوں اور ایف بی آئی نے جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کے موقع پر مسلح حملوں کا خدشہ ظاہر کیا تھا جب کہ واشنگٹن سمیت کئی ریاستوں میں پُرتشدد مظاہروں کا امکان بھی ہے۔
ادھر امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر سمیت کئی ارکان نے صدر ٹرمپ کی معزولی کے لیے قرار داد جمع کرادی ہے اور اگر نائب صدر مائیک پینس اس قرار داد پر کارروائی نہیں کرتے تو صدر ٹرمپ کا مواخذہ کیا جائے گا۔
امریکا میں اقتدار کی منتقلی میں پہلے بار کشیدگی کا سامنا ہے، صدر ٹرمپ کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے دعوؤں پر اُن کے حامی مشتعل ہوگئے اور کانگریس کی عمارت پر حملہ کردیا تھا اس بلوے میں 5 افراد مارے گئے تھے۔
صدر ٹرمپ کے حامیوں کو اندازہ نہیں تھا حملے کے کتنے مضر اثرات سامنے آسکتے ہیں جس کے باعث صدر ٹرمپ نہ صرف اپنی شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ ان کے سر پر مواخذے کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے وزراء کو مستعفی ہوجانے کا کھلا پیغام دے دیا۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ملکی سیاسی و معاشی صورتحال پر غور کیا گیا اور اہم فیصلے کیے گئے۔
وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کی اندرونی کہانی بھی سامنے آئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے وزراء کو مستعفی ہونے کا کھلا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وزراء حکومتی فیصلوں کو اونر شپ دیں، فیصلوں کی مخالفت کرنی ہے تو مستعفی ہو جائیں، یہی روش برقرار رکھی تو خود فیصلہ کروں گا کہ کابینہ میں رکھنا ہے یا نہیں۔
وزیراعظم اداروں میں اصلاحات لانے میں تاخیر پرنالاں تھے اور کہا کہ دو سال گزرنے کے باوجود اداروں میں اصلاحات نہیں آ سکیں۔
وزیراعظم نے عدلیہ میں اصلاحات کیلئے وزارت قانون کی کارکردگی پررپورٹ طلب کی۔
گورننس میں اصلاحات کے معاملے پر کابینہ اراکین بھی بول پڑے، مشیر ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایا کہ اس وقت تک 100 وفاقی ادارے ختم کیے گئے ہیں، اس پر وزیراعظم نے عوام کو سمجھانے کیلئے مختصر اور جامع رپورٹ دینے کی ہدایت کر دی۔
وزیراعظم نے آڈیٹر جنرل سے کرپشن سے متعلق رپورٹ مانگ لی، وزیراعظم نے کہا کہ پتا چلا کہ اس ادارے پر 200 ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔
وزیراعظم نے وزیر خزانہ حفیظ شیخ، وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو اے جی پی میں نیا ڈیجیٹل سسٹم لانے کا ٹاسک سونپ دیا۔
کابینہ نے گمشدہ افراد کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گمشدگیوں کے خاتمے کیلئے قوانین بنانے کی ہدایت کر دی۔
کی اندرونی کہانی
وزیراعظم نے اپنے وزیروں کو وارننگ دے دی کہا پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے وزرا گھرجائیں، فیصلوں کی مخالفت کرنی ہے تو بے شک مستعفی ہو جائیں، اگر روش برقرار رکھی تو خود فیصلہ کروں گا کہ کابینہ میں رکھنا ہے یا نہیں،،، وفاقی کابینہ اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ،،،، وزیراعظم دو سال گزرنے کے باوجود اداروں اور گورننس میں اصلاحات نہ لانے پرنالاں، کہا ، تمام وزراکواپنی کارکردگی بہتربنانی ہوگی ۔۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کی اندرونی کہانی
اداروں میں اصلاحات سے متعلق مشیر عشرت حسین کی کابینہ کو بریفنگ دی جبکہ وزیراعظم عمران خان اداروں میں اصلاحات لانے میں تاخیر پرنالاں تھے