سید سجاد حسین بخاری
نئے بننے والے صوبے کا سرکاری نام فی الحال جنوبی پنجاب لکھا اور پکارا جاتا ہے مگر قوم پرست اس نام کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ سرائیکی صوبہ‘ سرائیکستان یا پھر صوبہ ملتان کے ناموں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ حدود کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ وہ جھنگ‘ سرگودھا‘ بھکر‘ میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کو بھی سرائیکی صوبے کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔ بہرحال یہ سب بعد کی باتیں ہیں‘ صوبے کا مطالبہ 1962-63ء سے کیا جارہا ہے۔
پہلی مرتبہ ڈھاکہ میں ہونے والے لیجلسٹو اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر مخدوم سجاد حسین قریشی اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں نواب غلام قاسم خان خاکوانی نے سرائیکی صوبے کی قراردادیں پیش کی تھیں جو منظور تو نہ ہوئیں‘ تاہم وہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردی گئیں۔ اسی طرح 12جولائی 1965ء کو باب القریش ملتان میں ملک بھر کے قوم پرست دانشوروں کا ایک بہت بڑا اجلاس ہوا جس میں سندھ سے آئے ہوئے پیر حسام الدین راشدی نے سرائیکی صوبے کی قرارداد پیش کی۔ اس کے حق میں امیر آف بہاولپور نواب محمد خان عباسی نے تقریر کی اور سید قسور گردیزی جو عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما تھے‘ نے اپنی جماعت کے منشور کا سرائیکی صوبے کو حصہ بنایا۔
یاد رہے کہ قوم پرست دانشوروں کے اجلاس میں پہلی مرتبہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ آج سے اس خطے میں تمام بولی جانے والی زبانوں کو سرائیکی کہا جائے گا جبکہ اس سے قبل ملتانی‘ ریاستی جھنگوی‘ بھکری‘ ڈیرہ جاتی زبانیں کہا جاتا تھا۔ اسی زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ”جشن فرید“ ہوا‘ وہاں پر بھی دانشوروں کا اجتماع ہوا جس میں چیئرمین سندھی ادبی بورڈ مولانا غلام مصطفی قاسمی نے صوبے کی قرارداد پیش کی اور مولانا مفتی محمود مرحوم نے اس قرارداد کی تائید کی‘ پھر بھٹو دور میں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے سرائیکی صوبے کی آواز کو بلند کیا اور ”خبریں“ میڈیا گروپ کے بانی وقائد ضیاشاہد مرحوم نے سرائیکی کا لفظ پہلی مرتبہ ”خبریں“ اخبار میں شائع کیا جس پر انہیں بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر ضیاشاہد بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ ودیگر سرائیکی قوم پرستوں کے ہمراہ ڈٹے رہے اور پھر ضیاشاہد مرحوم نے پرویز مشرف کے دور میں اس مسئلے کو دوبارہ اُجاگر کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ مطالبہ پی ٹی آئی نے اپنے منشور کا حصہ بنالیا۔
پہلے مخدوم سابق وزیراعظم واپوزیشن لیڈر سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے 17جنوری کو سینٹ میں صوبے کا مطالبہ پیش کردیا اور ساتھ ہی انہوں نے صوبہ سیکرٹریٹ کو لولی پاپ قرار دیکر مسترد کردیا جس پر دوسرے مخدوم شاہ محمود قریشی نے جواباً کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس چونکہ اسمبلی میں دوتہائی اکثریت نہیں تھی لہٰذا صوبہ تو ہم نہیں بناسکے مگر صوبہ سیکرٹریٹ کی بنیاد ہم نے رکھ دی ہے۔ اگلی اسمبلی میں صوبہ بن جائے گا۔ تیسرے مخدوم خسرو بختیار چونکہ صوبہ محاذ کے روحِ رواں تھے اس لئے انہوں نے بھی حکومتی مخدوم کی ہاں میں ہاں ملاکر سیکرٹریٹ کو صوبے کی پہلی سیڑھی قرار دے دیا۔
اب مخدوم تین صوبہ ایک ہے۔ پہلے مخدوم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکومت میں باقاعدہ ایک کمیشن تشکیل دیا اور اس کی سفارشات پر سینٹ سے بل پاس کرواکر قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ انہوں نے بھی اکثریت نہ ہونے کا رونا رویا جوکسی حد تک درست تھا مگر اب دوسرا اور تیسرا مخدوم اور ان کی حکومت فی الحال صوبہ خود نہیں بنانا چاہتی حالانکہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی نے صوبہ بنانے کی پیش کش گزشتہ سال کردی تھی اورپنجاب اسمبلی سے لے کر قومی اسمبلی اور سینٹ تک بل پاس ہوجاتا تو صوبہ بن جاتا مگر موجودہ پنجاب کے9 ڈویژنوں میں سے 6 ڈویژن پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنتی ہے۔تخت لاہور پرپھر شریف برادران کا جب قبضہ نظرآنے لگا تو دو مخدوم صاحبان صوبہ بنانے سے پیچھے ہٹ گئے۔
میرے اندازے کے مطابق عمران خان کی حکومت اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے دوماہ قبل پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کا ڈرامہ ضرور کرے گی اور پھر تمام جماعتوں کو تعاون کی درخواست بھی کرے گی مگر اس وقت مسلم لیگ (ن) خسارے میں رہے گی کیونکہ ان کے تعاون سے نیا صوبہ بن گیا تو پی ٹی آئی کو سرائیکی بیلٹ میں الیکشن جیتنے میں آسانی ہوجائے گی اس لئے مسلم لیگ (ن) گھاٹے کا سودا نہیں کرے گی ایک بات واضح کردوں کہ آئندہ الیکشن میں حکومتی مخدوموں کو ہرصورت ناکامی کامنہ دیکھنا پڑے گا۔
آج مخدوم شاہ محمود قریشی نے بلاول بھٹو اورشہباز شریف کو خط لکھ دیا اورارکان اسمبلی کو کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی قیادت سے بات کریں۔ جب دونوں جماعتوں نے گزشتہ سال تعاون کی پیشکش کی تھی تو حکومت نے خاموشی کیوں اختیار کی۔ اگر عمران حکومت صوبہ بنانے میں مخلص ہے تو فوری طور پر صوبے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرائے‘قوم کے سامنے تمام سیاسی جماعتیں عیاں ہوجائیں گی اور حکومت بھی سرخرو ہوگی مگر موجودہ حکومت فی الحال یہ قرارداد کسی صورت جمع نہیں کرائے گی کیونکہ انہیں لاہورپر (ن) لیگ کے قبضے کاخوف ہے لہٰذا سرکاری مخدوموں نے سرائیکی خطے کے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭