محبوب عالم محبوب
2021ء کی بات ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر پاکستانی اور ہندوستانی مسلم عورتوں کی تصاویر اور سیلفیاں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئیں تھیں۔ ہندوستان کے مرد (جن کی اکثریت ذہنی طور پر بیمار ہے۔) میدان میں آئے تھے۔ انہوں نے ان سیلفیوں اور تصاویر پر ایسے نازیبا الفاظ میں تبصرے کئے تھے جس سے ہندوستانی ہندو معاشرے کی ذہنی گراوٹ مزید واضح ہوئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ان تصاویر کو یو ٹیوب چینل پر نشر کیا گیا جہاں ایک مرتبہ پھر ان تصاویر پہ نازیبا تبصرے کئے گئے۔ حتی کہ اس وڈیو کو ہندو معاشرے سے دیکھنے والوں مردوں کی طرف سے ان کی بولیاں بھی لگائیں گئیں تھیں۔ جون 2021ء میں بات کچھ اور بڑھ گئی۔ ” سسلی ڈیلز ” نامی ایک ایپ انٹرنیٹ پر آپ لوڈ کی گئی۔
بی۔ بی۔ سی۔ کے مطابق یہ ایپ 14 جون 2021ء کو شروع ہوئی تھی۔ لفظ ” سسلی ” ایک توہین آمیز اصطلاح ہے جسے شدت پسند ہندو معاشرے میں مسلمان عورتوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ایپ پر تقریباً 90 سے زائد مسلم خواتین کی فروخت کا اشتہار دیا گیا۔ جن میں مسلم خواتین صحافیوں، کارکنوں، تجزیہ نگاروں، فن کاروں اور دیگر خواتین کو شامل کرکے نیلامی کیلئے پیش کیا گیا۔ ان خواتین کی تصاویر کے ساتھ ٹیوٹرز ہینڈلز دیے گئے تھے۔ اس ایپ پر موجود ” فائند یور سلی ڈیل ” پر کلک کرنے سے ہر مسلمان خاتون کا نام، تصویر اور ٹیوٹر ہینڈل کی تفصیلات سامنے آ جاتی تھیں۔ اگرچہ یہ کوئی حقیقی نیلامی نہیں تھی بلکہ مسلمان خواتین کی تضحیک کا ایک ظالمانہ طریقہ تھا۔ ایک سماجی کارکن شبیہ اسلم فہمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ” ایک طبقے کو یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ وہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی جرم کرتے ہیں تو بے فکر رہیں ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی “۔
اس وقت ایک مسلمان خاتون صحافی فاطمہ خان جو نیوز ویب سائٹ ” دی پرنٹ ” سے وابستہ تھیں، کی تصویر بھی ” سلی ڈیلز ” پر اپ لوڈ کی گئی تھی۔ ” سلی ڈیلز ” کے معاملے کو لے کر ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے بھرپور احتجاج کیا گیا اور ” گٹ ہب ” نے مذکورہ ایپ کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا تھا۔ اس دل خراش واقعے کے بعد بہت سی مسلم خواتین نے سوشل میڈیا کو خیر باد کہ دیا تھا۔ ایپ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی بازار میں مسلمان خواتین فروخت کیلئے پیش کی جا رہی ہوں۔ خطرناک حد تک حیرت کی بات ہے کہ جب بات ” سلی ڈیلز ” کے خلاف ایف۔ آئی آر تک گئی تھی تو ہندوستانی پولیس نے تحقیقات کا دعوی تو کیا مگر ایپ بنانے والے کی شناخت بتانے سے انکار کر دیا۔ اس معاملے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ایسا صرف تب ہی ممکن ہے جب حکومتی ارکان کی شہ حاصل ہو ورنہ مجرم کا سامنے لایا جانا لازمی تھا۔ اصل میں ہندوستان پولیس لازمی اور غیر لازمی کو نہیں دیکھتی بلکہ ہندو توا کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اور اب، جی ہاں اب ایک نئی ایپ ” بلی بائی ” کے نام سے لانچ ہوئی۔ یہ ایپ بھی مسلمان خواتین کی تضحیک کیلئے بنائی گئی اور اسے نئے سال کے موقع پر لانچ کیا گیا۔ اسے ” سلی ڈیلز ” کا نیو ورڑن کہا گیا۔
” بلی بائی ” میں بھی مسلمان خواتین کو نیلامی کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ اس نیلامی میں نوجوان مسلم خاتون صحافی، سیاسی اور سماجی کارکن بھی ہیں۔ پچاس برس سے زیادہ عمرکی ماں بھی موجود ہے۔ ان میں حیدرآباد کی خالدہ پروین جیسی بزرگ خاتون بھی شامل ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ” بلی بائی ” پر جس بھی ہندوستانی خاتون کی تصویر لگی ہے۔ ان سب نے کبھی نہ کبھی بی۔ جے۔ پی۔ کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اگر ان کی خواتین بھی بی جے پی کے خلاف آواز اٹھائیں گی تو ہم ان کو ایسا ذلیل کریں گے کہ وہ ہمارے ہمارے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہ کر سکیں۔ انڈین صحافی ” عصمت آراء نے کہا، ” یقینا میں اکیلی ہی نہیں جسے ” سلی ڈیلز ” کے نئے ورڑن ” بلی بائی ” میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
” حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ” سلی ڈیلز ” کے خلاف موثر کارروائی کی جاتی تو آج ایسا دوبارہ نہ ہوتا۔ خواتین کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کیلئے ٹیوٹر پر بنائے گئے اکاونٹ ” می ٹو انڈیا ” پر سوال کیا گیا ہے، ” ان کا کیا ہوا جنہوں نے سلی ڈیلز شروع کیا تھا؟ ” عالمی سطح پر ” بلی بائی ” کے معاملے پر ردعمل کے بعد ہندوستانی پولیس نے 3 ملزموں کو گرفتار تو کر لیا مگر اچانک اس معاملے میں ایک نئے موڑ نے معاملے کو اس طرح الجھا دیا ہے کہ اب شاید ہی ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکے۔ حال ہی میں ایک صارف نے ٹیوٹر کے ذریعے عوامی سطح پر پولیس کو چیلنج کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ وہ اس ایپ (بلی بائی) کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ ٹیوٹر صارف کا تعلق نیپال سے ہے۔ اس بار اس نے پولیس کو دھمکی دی ہے کہ وہ معصوم نوجوانوں کو ہراساں نہ کرے ورنہ ” بلی بائی 2۔0 لے آئے گا۔ اس نے کہا، ” آپ نے غلط شخص کو گرفتار کیا ہے۔
ممبئی پولیس! میں ” بلی بائی ” کا حقیقی خالق ہوں۔ آپ نے جن 3 لوگوں کو گرفتار کیا ہے وہ بے قصور ہیں اور ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں فوری طور پر رہا کرو۔ ” انتہائی خطرناک حیرت کی بات یہ ہے کہ ممبئی پولیس کمشنر ہمنیت نگرالے نے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ حقیقت واضح ہورہی ہے یا تو یہ سب کچھ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں اترا کھنڈ کے ضلع ہردوار میں 3 دنوں تک چلی دھرم سنسد میں ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ” Hate speeches ” میں ہندو مہا سبھا کی جنرل سیکریٹری سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکن پانڈے نے ہندوستانی مسلمانوں کو کھلے عام قتل کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” کوئی کیس نہیں ہوگا لیکن چند دنوں کیلئے بس ہلکی سی تکلیف ہوگی۔ ” اس معاملے میں نئی پیش رفت اس سے بھی بھیانک ہے۔
تازہ ترین یہ ہے کہ ” بلی بائی ” کیس میں گرفتار ملزم ” نیرج بشنوئی ” کے بارے میں دہلی پولیس کہ رہی ہے کہ ملزم جانچ میں تعاون نہیں کر رہا۔ اس نے پولیس تحویل میں دو مرتبہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کو ڈر ہے کہ کہیں یہ اپنے ساتھ کوئی واردات نہ کر لے، اس لئے 24 گھنٹے اس پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی اس کا میڈیکل چیک آپ بھی کرایا گیا ہے تاکہ اس کی ذہنی حالت کا پتہ چل سکے۔ بات صاف اور روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے کہ دہلی پولیس ایسا ماحول بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر ملزم نیرج بشنوئی ” تعاون ” نہیں کرتا تو ” خود کشی ” اور ” تعاون ” کرتا ہے تو ” پاگل “، جو بھی حالات کے مطابق ضروری ہوا، استعمال میں لایا جائے گا۔ سب سے عجیب اور دہشت ناک پہلو یہ ہے کہ بلی بائی سانحے پر مودی خاموش ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭