ملک منظور احمد
کروناکی پانچویں لہردنیاکے بہت سارے ممالک کوعدم تحفظ، معاشی مشکلات‘ لاک ڈاؤن جیسی پابندیوں میں بے بس کرتی نہ صرف پاکستان میں داخل ہوچکی ہے بلکہ مختصرعرصے میں بے لگام ہوکر ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد، قرنطینہ کی سہولتوں اور بعض دوسرے حوالوں سے چیلنج محسوس ہورہی ہے۔ اگر پاکستانی قوم نے عزم وہمت کے ساتھ کرونا سے بچاؤ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بیرونی سرگرمیاں انتہائی ضروری مصروفیات، حکومتی سطح، فلاحی تنظیموں اور مخیر افراد کی سطح پر بیروزگاری سمیت مشکلات کے شکار خاندانوں کی اعانت کا سلسلہ منظم انداز میں جاری رکھا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس لہر پر بھی کم سے کم وقت میں قابو پایا جاسکتا ہے۔
افریقہ سے سامنے آنے والی تیزرفتار پھیلاؤ کی حامل اس لہر کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے بہت سارے اندازے سامنے آئے تھے مگر بعد میں واضح ہوا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ویکسینیشن سے لوگوں کی قوت مدافعت بڑھنے کے باعث اس کی ہلاکت خیزی کادرست اندازہ شاید نہیں ہوسکا۔ قوت مدافعت مزید بڑھانے کیلئے پاکستان سمیت دنیابھرمیں “بوسٹرویکسین” لگانے کاسلسلہ جاری ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں پچھلے دنوں کروناپربڑی حدتک قابو پالیا گیا تھا مگر افریقی قسم “اومیکرون” کی آمدکے بعد صورتحال ماضی کی طرح مزید بگڑتی نظرآرہی ہے۔ جوآنے والے دنوں میں حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
اقتصادی، معاشی بحران نقطہئ عروج پر ہے۔کرونا کی وجہ سے ریونیو ٹارگٹ حاصل کرنا بھی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔کرونا کے تعلیم پربھی بہت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ دنیا میں لاکھوں طالب علموں کا مستقبل بھی خطرے میں پڑا ہوا ہے۔ اسلام آباد کے 12 تعلیمی اداروں میں 50 سے زایدکیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔
کرونا مثبت کیسز والے تعلیمی اداروں کو فوری بند کیا جارہا ہے۔ ایک ہفتے کے دوران اسلام آباد کے 35 تعلیمی اداروں میں کرونا کے ایک سو سے زائد کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اگر پاکستان کے ہیلتھ مینجمنٹ سسٹم کی بات کی جائے تو ہیلتھ سسٹم کوفعال بنانے کی ضرورت ہے اور ہمارے پاکستان میں ہیلتھ کا شعبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا اومیکرون دیگر اقسام کے وائرس کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے اور کیا یہ مزید سنگین وبائی صورتحال اور امراض کی پیچیدگیوں کا سبب بنے گا یا نہیں۔ اس سے قبل ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ اومیکرون شدید انفیکشن کا خطرہ پیدا کرسکتا ہے لیکن معلومات محدود ہیں۔ موجودہ صورتحال میں دنیا اومیکرون کے بارے میں قدرے فکرمند ہے اور مختلف ممالک کی جانب سے متعدد افریقی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے سمیت انسدادِ وباء کے دیگر اقدامات میں تیزی لائی گئی ہے۔ پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس وائرس کے خلاف ویکسین کتنی مؤثر ہے اور ماہرین ابھی تک واضح نہیں ہیں کہ آیا موجودہ اینٹی باڈیز اومیکرون پر مؤثر ردعمل ظاہر کر پائیں گی۔ یہ بھی تشویش کن امر ہے کہ مختلف ممالک میں نئے وائرس سے متاثرہ کئی کیسز سامنے آچکے ہیں اور ممالک کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔
اومیکرون کی شناخت سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ سے کئی ممالک نے پروازیں معطل کردی ہیں جبکہ دوسرے جنوبی افریقی ممالک پر بھی متعدد ممالک کی جانب سے سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ نئی قسم ڈیلٹا کی مختلف اقسام سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلے گی اور متاثرہ افراد میں سنگین علامات کا سبب بنے گی۔ اومیکرون سے وبائی صورتحال کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ کئی یورپی ممالک میں حالیہ دنوں میں پہلے ہی نئے مصدقہ کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا تھا، ایسے میں یہ نیا وائرس ایک نیا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭