تازہ تر ین

صوبہ جنوبی پنجاب اور قانون سازی

ڈاکٹر ممتاز حسین مونس
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سینٹ میں دھواں دھار تقریر کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو سنجیدگی سے باقاعدہ قانون سازی کی دعوت نے امید کی نئی کرن پیدا کر دی۔ گزشتہ انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبے کی باز گشت بڑی تیزی سے سنائی دی گئی اور جنوبی پنجاب کے عوام کی نبض پر تحریک انصاف نے بالکل صحیح انداز میں ہاتھ رکھا اور اس وقت کے پارلیمنٹرین کا ایک بڑا وسیب اتحاد گروپ وجود میں آیا جس نے مخدوم خسرو بختیار کی قیادت میں ناصرف تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی بلکہ ایک باقاعدہ معاہدہ کر کے عمران خان کے ساتھ سو دن کے اندر صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ موجودہ حکومت کے سو دن گزرنے کے بعد اس خطے کے عوام نے تقریباً ہر جگہ پر اپنی بھر پور آواز بلند کی۔ موجودہ حکومت جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ تو پورا نہ کر سکی لیکن ایک اچھا اقدام یہ کیا کہ باقاعدہ بہاول پور اور ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنا کر اس خطے کی عوام کے زخموں پر پٹی کرنے کی ضرور کوشش کی لیکن اس خطے کی عوام جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیتے ہیں اور اختیارات کا مرکز ومنبع تخت لاہور کو گردانتے ہیں۔
راقم کے نزدیک موجودہ حکومت جنوبی پنجاب کے لیے سب سے اچھا اقدام یہ ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے پنجاب اسمبلی میں بل پیش کرتے وقت ایک تو جنوبی پنجاب کے 33فیصد عوام کے لیے ترقیاتی کاموں کا 33فیصد علیحدہ سے مختص کیا بلکہ پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کا علیحدہ بجٹ کتابچہ پاس کیا، پہلے کی طرح نہیں کہ جنوبی پنجاب کے لیے مختص کیے گئے اربوں روپے کے فنڈز بجٹ میں تو پاس کروا لیے جاتے بعد میں اسے کسی اور شہر میں پُل بنانے اور اورنج ٹرین پر خرچ کر دیا جاتا۔ اب یہ ہوا کہ جنوبی پنجاب کا بجٹ جنوبی پنجاب میں ہی خرچ ہوگا۔
جنوبی پنجاب کے عوام کا اپنے علیحدہ صوبے کے لیے مطالبہ اس لیے بھی سو فیصد درست ہے کہ اس خطے کے عوام سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ اس خطے کے ساتھ آج تک آنے والی تمام حکومتوں نے ناصرف سوتیلی ماں کا سلوک کیا بلکہ تعلیم‘ صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا۔ عجب معاملہ ہے کہ آج تک آنے والی تمام حکومتیں الیکشن سے قبل اقرار کرتی رہیں کہ ہم یہ صوبہ بنائیں اور اس خطے کا احساس محرومی ختم کیا جائے گا۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ لاہور کے خشک دریائے راوی پر بارہ پْل ہیں اور جنوبی پنجاب میں دریائے سندھ پر ایک پْل بھی نہیں تھا وہ تو اللہ بھلا کرے سید یوسف رضا گیلانی کا کہ انہوں نے اپنے دور میں یہ پْل بنا دیا ورنہ پہلے گزشتہ تیس سالوں سے تمام وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ نے اس پْل کی تختیاں لگا کر یہاں کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ کالجز‘ یونیورسٹیاں، دیگر تعلیمی ادارے بنانے تو دور کی بات سب سے کم سکول اس خطے میں ہیں اور یہاں کے سکولوں کی حالت کسی بھی صورت میں اس قابل نہیں کہ وہاں سے پڑھنے والے بچے ملک کے معمار بن سکیں۔ اس خطے میں زیر زمین پانی کڑوا ہو چکا ہے جس سے بیماریاں پھیل رہی ہیں لیکن صرف جمع تفریق پر ہی گزارا ہے۔ بے روزگاری اور بھوک‘ افلاس چیخ رہی ہے۔ پنجاب کے33فیصد اس خطے کے عوام کو دس فیصد نوکریاں ملنا کسی بھی طور پر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ دنوں بحیثیت اپوزیشن لیڈر خطاب کے دوران کہا کہ ہم رعایا نہیں ہیں‘ ہمیں اپنا صوبہ‘ اپنا وزیراعلیٰ‘ اپنا گورنر‘ سینٹ کی نشستیں اور اپنا سیکرٹریٹ چاہیے جسے اس خطے کے عوام نے نا صرف زبردست انداز میں سراہا بلکہ اسے حق وسچ کی آواز قرار دیا جس پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے نا صرف ویلکم کیا بلکہ وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا اور اس صوبے کے لیے باقاعدہ افہام وتفہیم پیدا کیا جائے گا۔ مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں سے خصوصی ملاقات کر کے متفقہ لائحہ عمل طے کر قانون سازی کی جائے گی اور چند ہفتوں کے اندر اندر باقاعدہ جنوبی پنجاب صوبے کا اعلان کر دیا جائے گا۔
یہ خبر اس خطے کے عوام کے لیے کسی بھی انقلابی خبر سے کم نہیں۔ گزشتہ انتخابات میں وزیراعظم عمران خان نے سو دن میں صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا تو 46میں سے 32قومی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف جیتی اور آج جنوبی پنجاب کے ووٹوں کی وجہ سے ہی مرکز اور صوبے میں تحریک انصاف کو حکومت ملی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سی جماعت کس طرح اس صوبے کی حمایت کے لیے کیا عملی اقدامات کرتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ اس صوبے کی مخالفت کرنے والوں کو آئندہ انتخابات میں یہاں ووٹ تو دور کی بات امیدوار بھی نہیں ملیں گے۔ اس صوبے کے حوالے سے لسانیت کی بات کرنے والے کسی بھی صورت درست نہیں کیونکہ چار کروڑ کی آبادی میں آج تک سرائیکی‘ پنجابی یا کسی اور لسانی بنیاد پر ایک پتھر بھی کسی دوسرے کی طرف نہیں اچھالا گیا۔ اگر اس خطے کے عوام کو ان کا بنیادی حق صوبہ دے دیا جائے تو ناصرف پنجاب پر سب سے بڑا صوبہ ہونے کا بوجھ ختم ہو جائے گابلکہ انتظامی طور پر وہ بہتر کام کر سکیں گے اور یہاں کے عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain