ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
آج کے دور میں انسان بہت مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اندرونی اور بیرونی بے چینی نے اس کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ بے چینی سے اضطراب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اضطراب بڑھتا ہے تو انسان کوحسد کی بیماری لگ جاتی ہے۔ اس بیماری کی جڑیں آہستہ آہستہ پورے جسم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور انسان کو ناکارہ کر دیتی ہیں۔ ناکارہ چیزوں کو اٹھا کر کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہمارے آج کے معاشرے میں زیادہ تر لوگ حسد زدہ ہیں، اس لئے ناکارہ ہیں اور معاشرے میں غلاظت کا باعث بن رہے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ حسد کی بیماری ہے کیا؟ یہ انسان کو لگتی کیسے ہے؟ اس کا ڈاکٹر کون ہے جس سے اس کا علاج کروایا جا سکے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن سے مخاطب ہونے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے غلاظت کے ڈھیر صاف کئے جا سکیں اور پیار و محبت کے پھولوں کی پنیری لگائی جا سکے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی خوشبو سے اپنے آپ کو تروتازہ رکھ سکیں۔ حسد دو طرح کا ہوتا ہے۔ اول یہ کہ کسی کے پاس کوئی چیز ہو اور میرے پاس نہ ہو تو میں اس انسان سے اس لئے جلن رکھوں کہ یہ چیز اس کے پاس ہے اور میرے پاس کیوں نہیں؟ دوم، ایک انسان کسی دوسرے انسان کے قریب ہو تو میں اس سے جلن رکھوں کہ یہ اس کے قریب ہے میں کیوں نہیں؟ انسانوں کے اندر یہ دو طرح کا حسد پایا جاتا ہے۔ اب اس کی وجوہات دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے حسد انسان کے اندر جنم لیتا ہے اور پھر آگے کئی بچوں کو جنم دیتا ہے۔ سب سے پہلے انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ضرورت اور خواہش میں فرق کرنا سیکھے۔ جب وہ ان دونوں میں فرق نہیں کر پاتا تو پھر حسد کی بیماری اسے گھیر لیتی ہے۔ خدا انسان کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ اکثر ہم نے سنا ہے کہ خدا رزق دینے والا ہے۔ انسان کو خدا رزق دیتا ہے۔ رزق سے مراد انسان کی ضروریات ہیں۔ خدا انسان کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ہم سب لوگوں کی زندگیوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ ہمیں ایک وقت میں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ خدا ایسے سبب پیدا کر دیتا ہے کہ ہماری وہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور ہم خدا کا شکر بجا لاتے ہیں۔
دوسری اہم چیز خواہش ہے۔ انسان نے اپنے سینے میں خواہشات کا انبار لگا رکھا ہے۔ ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے انسان دن رات ایک بھی کرتا ہے، خدا سے دعا بھی کرتا ہے کہ اس کی خواہشات پوری بھی ہوں لیکن خدا نے ضروریات پوری کرنے کا وعدہ کیا ہے خواہشات کا نہیں۔ وہ اگر ہماری بات مان لے تو اس کا کرم اور اگر نہ بھی مانے تو پھر بھی اس کا شکر۔ لیکن خواہشات نے انسان کے دل کو اتنا گھیر رکھا ہے کہ اس میں وہ کسی اور چیز کو داخل ہی نہیں ہونے دیتے۔ دل خدا کا گھر بننے کے بجائے خواہشات کا گھر بن چکا ہے۔ خدا دل میں نہیں ہے۔ عبادات ہیں لیکن خدا دل میں نہیں ہے۔ اس لئے خواہشات ان کو ظاہری طور بھی اور روحانی طور پر بھی اندھا کر دیتی ہیں۔ خدا جن کو عطا کرتا ہے انسان ان سے بھی حسد کرنے لگتا ہے کہ یہ چیز میرے پاس کیوں نہیں۔ خدا جب کسی کو عطا کرتا ہے تو یہ اس کی اس بندے پر عنایت ہوتی ہے۔ اب جب کوئی دوسرا انسان اس لئے جلن محسوس کرے کہ خدا نے اسے عنایت کیوں نہیں کیا۔ تو یہ جلن انسانوں کی انسانوں سے نہیں ہوتی بلکہ انسان کی خدا سے ہوتی ہے۔ یہ حسد انسان کا انسان سے نہیں ہوتا بلکہ خدا سے ہوتا ہے۔ خدا سے حسد رکھنا یا خدا کی عنایت کو چیلنج کرنا انسانوں کو ایمان سے فارغ کر دیتا ہے۔ پھر لاکھ نمازیں پڑھیں، روزے رکھیں لیکن خدا آپ کو جنت عطا نہیں کرئے گا کیونکہ آپ خدا کی عطا پر حسد کرتے ہیں اور جس سے آپ حسد کریں وہ آپ کو کیسے اپنے قریب کر سکتا ہے۔ اس لئے آنحضورؐ نے تکبر اور حسد کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ تکبر نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ کھا جاتی ہے۔
خدا کی عطا پر نہ تو تکبر کرنا چاہیے اور نہ ہی حسد۔ شیطان نے اپنی عبادت پر تکبر کیا تو خدا نے اس کی ساری عبادتوں پر پانی پھیر دیا۔ اس لئے خدا جس کو عزت دیتا ہے اس کی عزت کرنی چاہیے نہ کہ اس سے حسد۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان خواہشات کو قابو کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ اس بیماری کا علاج کہاں سے ہو گا؟ اس کا ڈاکٹر کون ہے اور اس کی دوائی کیا ہے؟ اس کے علاج کیلئے مرشدکامل کی ضرورت ہے جو خواہشات کو قابو میں کرنے کے طریقے بتائے اور انہیں کمزور کرکے خدا کی رضا کے تابع کردے۔ صوفی کا تعلق ہوتا ہی انسان کے دل سے ہے۔ وہ کلمہ اور درود شریف کے ورد سے خواہشات کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کلمہ اور درود شریف وہ ہتھیار ہیں جو خواہشات سے جنگ لڑتے ہیں۔ خواہشات کو ایک ایک کر کے مارتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ مرتی ہیں ویسے ویسے انسان کے دل میں خدا کا گھر تعمیر ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ دل میں صرف خدا رہ جاتا ہے خواہشات کا صفایا ہو جاتا ہے۔ پھر محبت ہوتی ہے، عشق ہوتا ہے، جذب ومستی ہوتی ہے۔ انسان محبت کا سفیر بن جاتا ہے۔ حسد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہو جاتا ہے۔ اس عشق ومستی کا عملی مظاہرہ مولانا روم کی شاعری میں ملتا ہے۔ چند اشعار بمعہ ترجمہ ملاحظہ ہو:
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
میں کْوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔
خدایا رحم کْن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اْفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اس کے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اس کا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کْن تو مولانائے رْومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں ہے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭