سید سجاد حسین بخاری
سرد موسم میں سیاست بہت گرم ہے۔ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کیخلاف ایوان کے اندر اور باہر صف ِآراء ہوچکے ہیں۔ تحریک ِعدم اعتماد‘ لانگ مارچ‘ نوازشریف کی واپسی‘ برطانیہ کی حکومت سے معاہدہ‘ مائنس عمران‘ چاروں شریف مائنس‘ رانا شمیم کیس‘ شہبازشریف وحمزہ شہباز کو عنقریب سزا‘ فارن فنڈنگ کیس کا عنقریب فیصلہ‘ 27فروری اور 23مارچ کو لانگ مارچ‘ ٹریکٹر ٹرالی کسان مارچ‘ آرمی چیف کی مدت ِملازمت میں توسیع اور صدارتی نظام ان موضوعات نے خشک اور سرد موسم میں بھی ایوانوں کو گرمایا ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ یہ تو ملکی صورتحال ہے اور اگر ملکی سیاست کے ساتھ امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی یونین‘ بھارت‘ افغانستان‘ چین‘ روس‘ ترکی اور ایران کو جوڑا جائے تو پھر سیاست میں گرماہٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ 41سال سے سیاست کی راہداریوں میں بہت کچھ دیکھا ہے اور مرحوم جونیجو کی حکومت سے لیکر موجودہ حکومت تک ایوانوں‘ سیاستدانوں‘ اسٹیبلشمنٹ‘ خفیہ اداروں اور مقتدر قوتوں کو حکومتیں بنانے اور گرانے کے طور طریقوں کو بڑی اچھی طرح سے دیکھا ہے۔ کامیاب حکومتوں کو ناکام کرنے کیلئے پہلے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ مقصد عوام کا ٹمپریچر چیک کرنا ہوتا ہے۔ اگر ٹمپریچر نارمل ہے تو پھر خاموشی اور اگر نہیں تو پھر حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کے آنے کی چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پرویز مشرف سے پہلے چونکہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا (پرائیویٹ) نہیں تھا تو اس وقت کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ اسلام آباد میں کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ جرنیل کے گھر ڈنر کا انعقاد ہوتا تھا اور پھر اسلام آباد میں چند بڑے بڑے لوگوں کو بلاکر فلر چھوڑے جاتے۔ صبح ہوتے ہی وہ خبر اسلام آباد میں پھیلنا شروع ہوجاتی کیونکہ اسلام آباد کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں انسان کم اور وزیر‘ مشیر اور سفیر زیادہ ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بڑی محدود آبادی ہوتی تھی۔ سفارتخانوں میں ہونے والے استقبالیے اور اُن کے قومی دنوں کے تہواروں پر جو اسلام آباد کی کریم جمع ہوتی تھی وہاں سے خبریں“ بھی نکلتی تھیں‘ فلر بھی چھوڑے جاتے تھے اور چہ میگوئیاں بھی ہوتی تھیں اور پھر ملک بھر میں پھیلائی جاتی تھیں۔ جونیجو کی حکومت گرانے کی پہلی پھل جھڑی ایک بیوروکریٹ کے ڈنر پر چھوڑی گئی تھی۔ اسی طرح بینظیر اور نوازشریف کی دو‘ دو مرتبہ جو حکومتیں ختم کی گئی تھی ان کیلئے بھی پہلے شوشے چھوڑے جاتے‘ پھر چہ میگوئیاں شروع ہوجاتیں اور انجام وہی ہوتا جو مقتدر قوتیں چاہتی تھیں۔
آج سوشل میڈیا کا دور ہے جو الیکٹرانک میڈیا سے بھی پہلے خبر دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر سوشل میڈیا کی خبریں جھوٹی ہوتی ہیں۔ اب بھی وہی قوتیں صدارتی نظام کی بابت شوشے چھوڑ رہی ہیں۔ مقصد صرف عوام کا مؤقف جاننا ہے حالانکہ جمہوری حکومت کبھی بھی صدارتی نظام کے حق میں نہیں ہوتی۔ نوازشریف تین مرتبہ وزیراعظم رہے‘ ان کے دور میں امیرالمومنین تک بننے کا شوشہ چھوڑا جاتا تھا۔ اسی طرح بینظیر کے دور میں بھی یہ باتیں ہوئیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جمہوری دور میں صدارتی نظام اور ڈکٹیٹر کے دور میں ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کے شوشے ہمیشہ چھوڑے جاتے رہے ہیں۔ قائداعظمؒ نے پارلیمانی نظامِ حکومت کی بنیاد رکھ دی جبکہ صدار ایوب خان نے اپنی من پسند حکومت بنائی۔ بھٹو نے 1973ء کا متفقہ آئین دیا جو آج تک پارلیمانی نظام ِحکومت کی گواہی دیتا ہے جبکہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے آئین معطل کرکے لولی لنگڑی جمہوریت قائم رکھی اور دونوں جرنیلوں کے تقریباً 20سالہ دور میں محمد خان جونیجو‘ میر ظفر اللہ خان جمالی‘ چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز وغیرہ وزیراعظم بنتے رہے۔
صدارتی نظام دُنیا کے کچھ ملکوں میں ضرور چل رہا ہے اور یقینا ان ملکوں کیلئے فائدہ مند بھی ہوگا مگر پاکستان کیلئے یہ زہرقاتل ہے اور پھر 1973ء کے آئین کے ہوتے ہوئے صدارتی نظام کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کیلئے دوتہائی اکثریت درکار ہے جو موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے لہٰذا صدارتی نظام نہ اس ملک میں آسکتا ہے اور نہ ہی چل سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی ایوب خان‘ ضیاء الحق اور مشرف جیسا ڈکٹیٹر جمہوریت پر شب ِخون مارکر آگیا تو یہ اور بات ہے جس کا اب کوئی امکان نہیں ورنہ صدارتی نظام کا شوشہ ماضی کی طرح ایک بار پھر چھوڑ دیا گیا ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭