رانا زاہد اقبال
لینڈ مافیا کے ہاتھوں سرکاری وغیرسرکاری زمینوں پر قبضے اگرچہ پورے ملک کامسئلہ ہیں مگر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اس کی سنگینی زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ زر، زن اور زمین کو ہمیشہ فساد کی جڑکہا جاتا رہا ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی طلب اور تصرف و ملکیت کی خواہش صاحبانِ اختیار کی ایسی کمزوری ہے جس پر قابو پانا ہمارے جیسے جاگیرداری اور سرداری نظام پر مبنی معاشرے میں بہت مشکل نظر آتا ہے۔ قبضہ مافیا بہت عرصہ سے سرکاری اراضی پر قبضہ کئے ہوئے تھا۔ عوام ان بااثر افراد کے دباؤ میں آنکھیں بند کئے تھے اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قبضہ مافیا کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کا فیصلہ کیا اور اب یہ کاروائی پورے صوبے میں بڑی سرعت سے جاری ہے۔ ماضی میں کئے گئے اس نوع کے متعدد اعلانات، فیصلوں اور آپریشنوں کے نتائج وہی نکلے جو نیم دلی سے کئے گئے کسی بھی کام کے ہو سکتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ سرکاری زمینوں کو واگزار کرانے کے فیصلے جو لوگ کرتے رہے ہیں، انہی کی سرپرستی میں قبضے کرائے جانے کی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ زمینوں کا انتظام، حفاظت اوردیکھ بھال ایک جانب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے تو دوسری جانب یہ زمینیں صوبوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ اور مستقبل کی ضروریات کی ایک ٹھوس ضمانت بھی ہیں۔ اس لئے صوبوں کو اس بات کا قانونی اور انتظامی طورپر اہتمام کرنا ہو گا کہ سیٹلائٹ نقشوں کے موجودہ دور میں ماضی کی طرح ریونیو افسران کی ملی بھگت سے کھاتے تبدیل کر کے حکومت کو نقصان نہ پہنچایا جا سکے اور نہ ہی سرکاری دفاتر میں آگ لگا کر ریکارڈ ضائع کرنا ممکن ہو۔ زمینوں پر قبضے اس قدر سنگین صورت اختیار کر گئے ہیں کہ جب تک ان مقدمات میں سخت سزائیں نہیں دی جاتیں تب تک نتائج حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضے کے ذریعے انہیں برائے نام قیمت پر یا کسی قیمت کے بغیر قانونی طور پر اپنی ملکیت قرار دینے والوں کی روک تھام میں ناکامی ڈاکو کلچر کے فروغ کا ذریعہ بنی ہے۔ شہروں میں کچی آبادیوں کے قیام کی بھی کوئی ایسی تاریخ ضرور متعین ہونی چاہئے جس کے بعد کسی بھی زمین کو قدیم گاؤں کہنے اور کچی آبادی قرار دے کر ریگولرائز کرانے کی ضرورت نہ رہے۔
دیکھا گیا ہے کہ سرکاری زمینوں پر جھونپڑیاں ڈال کر اور کچے پکے مکانات بنا کر سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے لہرا دئیے جاتے ہیں اور اس کو نوگو ایریاز بنا دیا جاتا ہے۔ ان زمینوں پر قابض افراد کو لیز سمیت تمام ضروری سہولتیں فراہم کرنے کے مطالبات سیاسی سطح سے آنے لگتے رہے ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی بھی پی ٹی آئی حکومت کا کارنامہ ہے جس کا خاتمہ ایک افسوسناک سازش کا شاخسانہ تھا، ریلوے لائن اور متعلقہ تنصیبات پر تجاوزات قائم کرنے والے انہیں قدیم دیہات اور کچی آبادیاں قرار دیتے ہوئے انخلاء کے لئے آنے والے اہلکاروں پر حملوں سے بھی گریز نہیں کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومتی کوششوں اور خطیر اخراجات سے اس کو بازیاب کرا لیا گیا ہے اور کراچی سرکلر ریلوے کا باضابطہ افتتاح وزیراعظم پاکستان جناب عمران جان نے کر دیا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دوسرے دہشت گرد عناصر کی طرح قبضہ گروپوں نے بھی مذہب کی آڑ لیتے ہوئے سرکاری زمینوں پر کارخانے یا گودام بنا کر راستوں کے دائیں بائیں چھوٹی چھوٹی مساجد بنا دی ہیں تا کہ وا گزار کرانے کی کسی بھی کوشش کو مسجد کی بے حرمتی کا نام دیا جا سکے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی سربراہی میں ایسے تمام حربوں کا ادراک کر کے اسے واگزار کرانے کا کام بہت تیزی سے شروع کر دیا گیا ہے۔ یہی چیز ہے جو عثمان بزدار کو دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے ممتاز مقام دلاتی ہے۔ عمران خان کے وسیم اکرم پلس خاموشی سے عوامی بہبود اور مفادکے کاموں میں جتے ہوئے ہیں۔ ماضی میں ملکی وسائل کو بڑی بے دردی سے لوٹا گیا۔ عمران خان کے وژن کے مطابق انہوں نے بھی کرپٹ عناصر کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے ان کا عزم ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کا محاسبہ جاری رکھا جائے گا اور لوٹ مار کے کلچر کو دفن کر دیا گیا جائے گا۔ یہاں عوام کو بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہو گا تا کہ کوئی انہیں استعمال نہ کر سکے ویسے بھی یہ عوام کے مفاد میں ہے کہ ان املاک کو واگزار کرایا جائے۔ کیونکہ واگزار کرائی گئی سرکاری زمینوں کو عوام کے مفاد کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔ اس مہم کو ہر صورت کامیاب ہونا چاہئے یہ ملک کے مفاد میں ہے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭