ڈاکٹر محمد امجد
آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں ہر باشعور قوم اس طرح تیاری کر رہی ہے کہ وہ بھی بدلتی ہوئی دنیا کا ایک باوقار و باعزت حصہ بن جائے۔ وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کچھ واقعات نے وقوع پذیر ہو کر جاری حالات کا رخ بدل کر انہیں ایک نیا رنگ دے دیا ہے اور حالات کا نیا رنگ یہ ہے کہ آج کی دنیاوی سپر پاور صرف ایک ملک امریکہ ہے جبکہ ماضی میں روس بھی سپر پاور تھا یعنی ایک نہیں دو ملک سپر پاور تھے۔ جب دنیا کی دو سپر پاور تھیں تو حالات یہ تھے کہ دونوں ایک دوسرے کو ختم کرنے کیلئے کوشاں تھیں یعنی ہر سپر پاور کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ وہ کسی بھی طرح دوسری سپر پاور کے مقابلے میں خود کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنا لے اور یہ کام تین صورتوں میں ممکن تھا جن میں پہلی صورت یہ تھی کہ اپنی معاشی حالت ہر حال میں بہتر سے بہتر بنا لی جائے۔
دوسری صورت یہ تھی کہ مقابل کے مقابلے میں بہتر سے بہتر ٹیکنالوجی اپنا کر بہتر سے بہتر اسلحہ اور بہتر سے بہتر مشینری بنا لی جائے۔ تیسری صورت یہ تھی کہ ایک تو یہ کہ اقوام متحدہ میں اپنے حامی ممالک کی تعداد بڑھائی جائے دوئم یہ کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے تابعدار و ہمنوا بنا لیا جائے یوں!!! دونوں سپر پاور روس و امریکہ میں ایک مقابلہ ”ایک دوڑ“ ایک سرد جنگ جاری رہی۔ دونوں طاقتیں تینوں صورتوں میں ایک دوسرے کو پچھاڑ کر خود ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتی رہیں۔ ان کوششوں میں ہوا یہ کہ دونوں طاقتیں معیشت اور ٹیکنالوجی میں انیس بیس کے فرق کے ساتھ تقریباً برابر رہیں لیکن دوسرے ممالک کو اپنا تابعدار نما حامی بنانے کے مقابلے میں امریکہ آگے نکل گیا اور روس پیچھے رہ گیا ہوا یہ کہ امریکہ ویتنام میں گھسا اور روس افغانستان میں کود گیا۔ اس طرح امریکہ ویتنام اور روس افغانستان میں بری طرح پھنس گیا۔
20سال بعد ویتنام سے امریکہ کسی نہ کسی طرح نکل گیا لیکن افغانستان میں پھنسا روس نہ نکل سکا۔ ویتنام میں پھنستے ہی امریکہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نے ویتنام میں داخل ہو کر غلطی کی ہے ان حصول مقصد پر توجہ دینا خود کشی کے مترادف ہوگا لہٰذا آگے بڑھنے کے بجائے امریکہ نے پیچھے ہٹنا شروع کیا اس طرح کہ رسوائی سے بھی بچ جائے اور جان بھی بچ جائے لیکن اپنے حالات کے علاوہ روس کے حالات پر بھی امریکہ کی گہری نظر تھی اسے اندازہ تھا کہ جس طرح وہ ویتنام میں پھنسا ہے بالکل اسی طرح افغانستان میں روس پھنس چکا ہے لہٰذا اپنے ویتنام سے نکلنے پر جتنی توجہ امریکہ نے دی اس سے دگنی محنت اس پر کی کہ روس افغانستان سے نہ نکل سکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ”اسلام خطرے میں ہے“ کا بیانیہ دنیا بھر میں عام کرنے کے بعد یہ تاثر بھی عام کیا گیا کہ دنیا بھر سے مسلم مجاہدین افغانستان کی جانب چل پڑے ہیں، یہ دونوں بیانیے فرض تھے نہ اسلام کو کوئی خطرہ تھا، نا مجاہدین نے افغانستان کی طرف چلنا شروع کیا تھا۔ مجاہدین کے آنے کی افواہ دنیا بھر میں پھیلا دی گئی تھی۔
مغربی میڈیا نے باور کرا دیا تھا کہ مسلمانوں نے افغانستان کی طرف بڑھنا شروع کردیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہ تھا۔ افواہ کو حقیقت بنانے کیلئے سب سے پہلے پاکستان سے امید لگائی گئی کہ یہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں کو افغانستان میں داخل کر دے گا لیکن اتنی تعداد پاکستان سے نہ مل سکی جتنی امریکہ کو درکار تھی۔ پاکستان میں کوئی ایسی مذہبی قیادت بھی موجود نہ تھی جس کے کہنے پر دنیا بھر کے جوشیلے مسلم جوان افغانستان کی طرف دوڑ پڑتے، نہ نفری، نہ قیادت جب کچھ بھی پاکستان کو امریکہ سے نہ ملا تب امریکہ ایمن الظواہری کو افغانستان لایا، اس وقت ایمن الظواہری مصرمیں مقید تھے۔ ایمن الظواہری مسلم دنیا میں ایک مذہب پسند انقلابی کے طور پر شہرت پا چکے تھے چنانچہ انکے اعلان کرتے ہی جوشیلے مسلم جوانوں نے بذریعہ پاکستان افغانستان کا رخ کرنا شروع کردیا۔ ہوا یہ کہ جیسے جیسے افغانستان میں مجاہدین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ایسے ہی روس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور وہ افغانستان میں بری طرح پھنستا چلا گیا۔
روس افغانستان میں پھنسا تو سب سے پہلے اسکی معاشی حالت تباہ گی گئی جس طرح پاکستان کی معاشی حالت اب سامنے آرہی ہے (جو پاکستانیوں کے تعاون سے غیروں نے ایک طویل عرصے میں کی ہے)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ روس کئی حصوں میں تقسیم ہو کر اپنی سپر پاور والی حیثیت ختم کر بیٹھا اسکے بعد دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ بن گیا۔
یاد رہے جب دو سپر پاور موجود تھیں اس وقت پاکستان امریکہ کے ساتھ اور بھارت روس کے ساتھ تھا۔ روس کی ہار بھارت کی ہار تھی، امریکہ کی جیت پاکستان کی جیت تھی لیکن تبدیلی کے بعد یہ سابق دوستیاں قائم نہ رہ سکیں اس لیے کہ امریکہ کیلئے چین روس سے بھی بڑا خطرہ تھا لہٰذا اسے کمزور کرنے کے علاوہ اس طرح گھیر کے رکھنا تھا، یہ کبھی بھی سپر پاور کیلئے کوئی خطرہ نہ بن سکے جسکے لیے خطے میں کسی ایسے ملک کی امریکہ کو ضرورت تھی جسے وہ جس طرح چاہے چین کیخلاف استعمال کر سکے۔ اس طرح جب امریکہ کو چین کیخلاف بھارت کی ضرورت پڑی تو ظاہر ہے اس کے بدلے میں بھارت نے بھی ضرور کچھ نہ کچھ طلب کیا ہوگا، اس کے بعد یہ ہوا کہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر دنیا خاموش ہو گئی، یہ انعام تھا اس بات کا کہ بھارت چین کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا۔ مختصر یہ کہ جب افغانستان پوری طرح امریکہ کے قبضے میں چلا گیا تو افغانستان انڈیا کیلئے وہ مورچہ بن گیا جس میں بیٹھ کر بھارت جو چاہے پاکستان کے خلاف کر سکتا تھا اور ایک عرصہ تک اس نے پاکستان پر عرصہ حیات تنگ کیے رکھا! یوں افغانستان ایک ایسا مرکز بن گیا جسکا مقصد ہی یہی تھا کہ پہلے نمبر پر پاکستان کو ختم کرنا ہے جو بذریعہ سی پیک چین کو مزید ترقی کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔
دوسرے نمبر پر مختلف طریقوں سے چین کو نشانہ بنانا تھا۔ افغانستان وہ مورچہ تھا جس میں امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک اور انکی خفیہ ایجنسیاں موجود تھیں۔ اسرائیل پوری طاقت سے افغانستان میں تھا۔ ان سب کا مقصد پاکستان کو ختم کر کے یا تقسیم کر کے چین کو ایک مضبوط اتحادی سے محروم کر کے نشانہ بنانا تھا۔ اور کچھ ہوتا یا نہ ہوتا یہ تو ہونا ہی تھا۔
(سابق وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ہیں)
٭……٭……٭