خضر کلاسرا
کہانی گھوم پھر کے وہیں آگئی جہاں سے چلی تھی، مطلب جنوبی پنجاب صوبہ کے حق میں ایک طرف سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی آگئے ہیں، صورتحال تو واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کررہی ہے۔ فیصلہ اب ملتان کے ہاتھ میں آگیا ہے کہ وہ اپنے لیے جنوبی پنجاب کا صوبہ کتنا جلدی حاصل کرتا ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ تخت لاہور بھی ملتان سمیت اس سے جڑے علاقوں سے کب کا ہاتھ یوں اٹھا چکا ہے کہ پچھلے دور میں جب نواز لیگ پنجاب کی حکمران تھی، ادھر سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں پیپلزپارٹی اسلام آباد میں حکمران تھی تو پیپلزپارٹی نے نوازلیگی قیادت کا امتحان لینے اور اس کو جنوبی پنجاب کی سیاست میں دیوار کے ساتھ لگانے کیلئے سرائیکی صوبہ کا نعرہ لگایا جوکہ ایک بڑا سیاسی نعرہ تھا، جس کا توڑ کرنا یقینا نوازشریف کو تیسری بار وزیراعظم بننے کیلئے ازحد ضروری تھا وگرنہ پیپلزپارٹی سرائیکی علاقوں میں نوازلیگ کو الیکشن میں مات دے کر وفاق میں حکومت کی اگلی باری لے سکتی تھی۔
یوں نوازشریف نے پنجاب جیسے صوبہ کی سیاست میں ایک بڑے اپ سیٹ کا فیصلہ یوں کیا کہ پیپلزپارٹی کیساتھ ملکر پنجاب اسمبلی سے پنجاب کی تقسیم کا بڑا فیصلہ لیا، پیپلز پارٹی بالخصوص سید یوسف رضا گیلانی کیلئے یہ خوشی کا لمحہ یوں تھا کہ اس کی وزیراعظم شپ میں سرائیکی صوبہ کے قیام کو پنجاب اسمبلی تسلیم کررہی تھی لیکن جب نوازلیگی قیادت نے پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ سے مذاکرات کیے تو نوازشریف کی طرف سے دومطالبات پنجاب کو تقسیم کرنے کے حوالے سے آئے، ایک تو یہ تھا کہ مجوزہ صوبہ کا نام سرائیکی صوبہ نہیں ہوگا بلکہ جنوبی پنجاب ہوگا، دوسرا پنجاب اسمبلی سے جب جنوبی پنجاب صوبہ کی قرارداد منظور ہوگی تو ساتھ بہاول پور صوبہ بحالی کی قرارداد بھی منظور ہوگی، یوں پنجاب دو صوبوں میں تقسیم نہیں ہوگا بلکہ اس کے تین ٹکڑے ہونگے، ایک وسطی پنجاب صوبہ، دوسرا جنوبی پنجاب صوبہ اور تیسرا صوبہ بہاول پور صوبہ ہوگا، پیپلزپارٹی نواز لیگی قیادت کی طرف سے اس مطالبے پر پہلے تو پیچھے ہٹی کہ نوازشریف ان کو ایک مشکل سے یوں دوچار کررہے ہیں کہ وہ بہاول پور صوبہ بحالی کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت نے بعد میں اس بات کو تسلیم کرلیا کہ ایک تو وہ سرائیکی صوبہ کے نام سے پیچھے ہٹتے ہیں، دوسرا وہ بہاول پور صوبہ بحالی کی قرارداد کی مخالفت کی بجائے حمایت کریں گے۔ یوں پنجاب کے صوبہ کی تقیسم کی قرارداد جس کو کبھی ناممکن سمجھا جاتا تھا، وہ نوازشریف کی قیادت میں نوازلیگی ارکان اسمبلی تخت لاہور کے بڑے ایوان میں منظور کروانے جارہے تھے۔ پھر جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاول پور صوبہ بحالی کی قراردادیں پنجاب اسمبلی سے منظور کی گئیں، اور حیرت انگیز طور پر لاہور سمیت کسی نے پنجاب کی صوبوں میں تقسیم پر کوئی احتجاج نہیں کیا، مطلب ایک گملا تک نہیں ٹوٹا، کسی پنجابی قوم پرست نے نوازلیگی قیادت بالخصوص نوازشریف سے نہیں پوچھا کہ جناب آپ ہمارے پنجاب کے ٹوٹے ہم سے پوچھے بغیر کیوں کرنے جارہے ہیں؟ ہاں اتناضرور ہوا کہ قصور کے رکن صوبائی اسمبلی شیخ صلاح الدین اس وقت پنجاب اسمبلی سے احتجاجاً واک آوٹ کرگئے، جب پنجاب کو جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاول پور صوبہ میں تقسیم کرنے کے حق میں ان کی پارٹی نواز لیگ ڈیسک بجا کر ہاتھ لال کررہی تھی۔ پھر پنجاب اسمبلی کی ان قراردادوں میں کہا گیا کہ پنجاب کے ایوان نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ہے کیوں کہ پنجاب اب اس قابل نہیں رہا کہ وہ اپنی حکمرانی 13 کروڑ کے پنجاب پر برقرار رکھ سکے۔
بعدازاں وفاق نے پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے کمیشن بنایااور سیاست ہوتی رہی، پھر پارٹیاں سمجھ گئیں کہ انہوں نے جنوبی پنجاب اور بہاول پور صوبہ کے حامیوں کو آئندہ الیکشن کیلئے اپنے اپنے حق میں پکا کرلیا ہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کو کراچی سے مہاجر صوبہ کی آوازیں آنے لگیں، سندھ کی پیپلزپارٹی کی قیادت نے زردراری صاحب کو سمجھایا گیا کہ آپ پنجاب تقسیم کرواتے کرواتے سندھ کو بھی بلی چڑھا بیٹھیں گے، اس دوران گیلانی صاحب کو سپریم کورٹ نے سزادیدی۔ اس فیصلہ سے پیپلزپارٹی کا یہ بھلا ہوا کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ کی سیاست سے دور ہوتے گئے”
آخر ایک دن صدر پاکستان آصف علی زرداری گیلانی ہاوس ملتان پہنچے، وہاں گیلانی صاحب کی موجودگی میں اس بات کا انکشاف کیا کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کو ممکن نہیں بناسکتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے لیکن اپنے اس دور میں سرائیکی بنک بنائینگے۔ ملتانی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے لیکن زرداری مسکراتے نکل آئے، وہ دن اور آج کا دن ملتانی ایک دوسرے سے سرائیکی بنک جوکہ پیپلزپارٹی نے بنانا تھا اس کا پتہ پوچھتے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں، حد تو یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کوبھی معلوم نہیں ہے؟ اگلی کہانی جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے جنوبی پنجاب میں صوبہ کے قیام کے حوالے سے وہاں کے نامور سیاستدانوں کی جانب سے ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا تاکہ الیکشن سے قبل جو کردار نوازشریف کیساتھ تھے، ان کو ایک نیا محاذ دیا جائے، جہاں ان پر لوٹا لوٹا کی آوازیں نہ کسی جائیں،جہاں ایک بار صوبہ کی سیاست پر عوام کے جذبات سے کھیل کر ووٹ بٹورا جائے۔
پھر وہی ہوا کہ خسرو بختار سمیت کئی اور جنوب کے سیاست کے کرداروں کا صوبہ محاذ کے نام پر ایک اکٹھ اسلام آباد میں ہوا،جس میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو مدعو کیا گیا، ان کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا گیا، سب نے منہ پکے کیے ہوئے تھے تاکہ کوئی شک نہ کرے کہ صوبہ کے نام پر ایک اور واردات ہورہی ہے۔ سو دن کا کہا گیا اور لکھا گیا کہ جنوبی پنجاب صوبہ تحریک انصاف بنائے گی، نتیجہ عمران خان اقتدار میں آگئے لیکن دو سو دن گزرگئے،پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ جنوب کے لوگوں نے شور کیا،پھر ایک کہانی تحریک انصاف نے شروع کی کہ وہ پہلے مرحلہ میں ملتان میں سیکرٹریٹ بنائیں گے،بہاولپور والے کھڑے ہوگئے کہ ہمارا صوبہ بحال کرو،بحث مباحثہ کے بعد طے ہوا کہ ایک سیکرٹریٹ ملتان ہوگا اور ایک سیکرٹریٹ بہاولپور میں ہوگا۔مطلب آئی جی بہاول پور میں بیٹھے گا اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری ملتان میں بیٹھے گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن صوبہ جنوبی پنجاب دلی دور است کی طرح فی الحال نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت ہچکولے کھاتی خیر سے چوتھے سال کا اقتدار پورا کررہی ہے، جنوب کا مطالبہ جنوبی پنجاب صوبہ کا برقرار ہے۔
سید یوسف رضا گیلانی ایوان بالا میں بولے کہ اب دور بدل چکا ہے۔ ہمیں سیکرٹریٹ نہیں، جنوبی صوبہ چاہیے، گورنر چاہے، سینیٹ میں نمائندگی چاہیے،وغیرہ وغیرہ۔ ادھر سے ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی جوکہ حکمران جماعت کے لیڈر و وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بولے کہ ہم تیار ہیں۔ آپ ہمارا ساتھ دیں،مل کر بناتے ہیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔، اس صورتحال میں ملتان کی اس سے زیادہ کیا خوشی نصیبی ہوگی کہ جنوب کا صوبہ اب دو ملتانیوں کے درمیان ہے مطلب سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی فیصلہ کن کردار اپنی جماعتوں کی طرف سے رکھتے ہیں۔ اب دیر کس بات کی۔ گیلانی اور قریشی جنوبی پنجاب کا تحفہ جنوب کی عوام کو دیں تاکہ اس بات کی نفی ہو جوکہ گورنر پنجاب چودھری سرور نے کہی تھی کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام میں وہاں کے جاگیردار،پیر،گیلانی اور قریشی رکاوٹ ہیں کیوں کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ جنوب کے عوام کا صوبہ بنے۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭