جاوید کاہلوں
جب سے عمران خان نے ہوش سنبھالی ہے وہ ایک بھرپور پبلک لائف گزار رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا پہلا حصہ اور پبلک لائف کرکٹ کی دنیا کیا ایک ٹاپ انٹرنیشنل سٹار ہونے کے بل بوتے پر اسے ملی۔ دوسرا اور چھوٹا حصہ وہ تھا جب انہوں نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی اور اپنی مرحومہ والدہ کے نام پر ایک سٹیٹ آف آرٹ کینسر ہسپتال بنانے کیلئے اسے فنڈ ریزنگ کیلئے پاکستان کے علاوہ بھی دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ ان کی پبلک لائف کا موجودہ بھرپور عہد تب شروع ہوا جب انہوں نے سیاست میں آنے کا سوچا اوراس مقصد کیلئے چند دہائیاں قبل پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے نام سے شروع کی۔ سالوں کی محنت اور بھرپور پبلک لائف میں شمولیت کے بعد‘ ہم جانتے ہیں کہ وہ آج پاکستان کے وزیراعظم بن چکے ہیں اور اس طرح سے ایک بار پھر دنیائے سیاست‘ خواہ وہ پاکستان کی ہو یا بین الاقوامی۔ اس میں بھرپور اپناکردار ادا کررہے ہیں۔ اتنی طویل اور اس سطح کی پبلک سطح پر رونمائی دنیا میں خال خال لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے لہٰذا ظاہر ہے کہ جب آپ عوامی لیول پر جانے پہچانے جاتے ہیں اور بالخصوص آپ جب پاکستان کی طرز کے تیسری دنیا کے ممالک میں بے تکی اور بے رخی سیاست میں کود چکے ہوں تو آپ کی ذات کا دن رات ایک مسلسل ایکسرے نکلتا ہے جوکہ عوام کے ذہنوں اور نظروں تک پہنچایا جاتا ہے کوئی نصف صدی قبل ہی کی بات کریں تو الیکٹرانک میڈیا کا رواج ہی نہیں تھا عوام تک پیغام رسانی کیلئے دو ہی معروف طریقے تھے کہ یا تو جگہ جگہ عوامی جلسے اور جلوسوں کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا جائے یا پھر پرنٹ میڈیا کا سہارا لیا جائے یعنی کہ اخبارات‘ اشتہارات یاپمفلٹ وغیرہ چھاپے جائیں اور تقسیم کئے جائیں مگرآج کل پرنٹ کیا‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا‘ انفارمیشن کی دنیا میں ایک انقلاب بپا کرچکے ہیں۔ سو‘ عوامی زندگی گزارنے والوں کا‘ آج کل‘ لمحہ بہ لمحہ‘ خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ جائزہ جو ناجائز عوام تک بلا روک ٹوک پہنچ رہا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ جب اطلاعات رسانی یہاں تک ترقی کرچکی ہو تو پھر عوامی لوگوں کا پوسٹ مارٹم ایکسرے پر کس وناکس کو کیونکہ نہ پہنچے۔ لہٰذا ایک ایسی نام نہاد پارلیمانی جمہوریت جس میں کار ریاست چلانا کوئی سیدھا کام نہ ہوا اور اپوزیشن بھی اپنے معیارات میں ہر اخلاقی سطح اور حسن کردار سے گرچکی ہو وہاں پر کسی چیز کا چھپا رہنا یا پھر چھپایا جانا ممکن نہیں رہتا۔ سوعمران خان کی ذات کو بھی اس میں کوئی استثناء نہیں۔ آج عوام پاکستان بنی گالہ سے لے کر وزیراعظم ہاؤس تک اس کی ہر ادا کو جانتے ہیں جبکہ سیاست سے پہلے گزاری گئی اس کی زندگی کو بھی ہر کوئی خوب جانتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک کتاب کی صورت میں عمران خان نے چند سال قبل ایک کتاب بھی چھاپی تھی جو کہ خود ایک بڑا ذریعہ معلومات ہے اورمستند بھی ہے۔
ایک حسین اتفاق ہے کہ ان کے اپنے کیا‘ ان کے مخالفین بھی اس میں درجنوں عیب گنوا سکتے ہیں لیکن دو نقاط پر ہر کوئی متفق ہے۔ ایک یہ عمران خان ایماندار ہے۔ وہ قوم کے پیسے پیسے کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے اور ذاتی طور پر کوئی خورد برد نہیں کرتا۔ دوئم یہ کہ وہ کسی کا بندہ نہیں اور بالخصوص مودی کی تو اس سے جان جاتی ہے۔ یعنی کہ وہ وطن عزیز سے متعلق بالخصوص دنیائے اسلام سے متعلق بالعموم نہایت مخلص اور وفا شعار ہے۔ وہ سی آئی اے ہو یا ایم آئی فائیو یا سکس۔ کوئی اس کی بولی نہیں لگا سکتا۔ بھارتی را‘ سٹیل نائیکون یا پھر نریندر مودی تواس کے سائے سے بھی گھبراتے ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہ وہی بھارت ہے جو پچھلے ادوار میں دن رات پاکستان میں سرجیکل سٹرائیکس کا شوشہ چھوڑتا تھا کیونکہ بھارتی فکر کو پاکستان وزیراعظم کی سپورٹ حاصل ہوتی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ جب مشرقی پنجاب کے ایک ایئر فورس کے بیس پر جب حملہ ہوا تو پاکستان کی لمبی تاریخ میں میاں نوازشریف کے حکم پر پہلی مرتبہ پاکستان ضلع گوجرانوالہ کے تھانے میں اس کی ایک ایف آئی آر بھی درج ہوئی جوکہ ہمارے سیاسی دیوالیہ پن اور خارجہ پالیسی کیلئے ایک شرمناک روایت تھی۔ کون نہیں جانتا کہ پولیس تھانے کی ایف آئی آر ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جو کہ دھائیوں نہیں بلکہ صدیوں بھی ریکارڈ کا حصہ رہتی ہے۔ واپس عمران خان پر آئیں تو یہ بات طے ہے کہ اس کی دیانت‘ امانت‘ خلوص وصدق کسی بھی سوال سے بالاتر ہے۔ مگر اس کی بھی سیاسی دنیا میں الگ کوئی استثناء ہے تو وہ پھر لاہور کے شریفوں کا ہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاتون وراثت میں ملی سیاست کے احوال کو بھی بھول جاتی ہیں وہ بار بار اس سلسلے میں چینی‘ مالم جبہ‘ پشاور بس اور دوائیوں وغیرہ ہم جیسے سکینڈلز کا حوالہ دیتی ہیں حالانکہ ان ہی کی پارٹی سے بزرگ ان سکینڈلز میں عمران کی ذات کو ملوث نہیں کرتے بلکہ اسے بری حکمرانی یا وزیروں کی غلط کاریوں تک محدود رکھتے ہیں۔ ”چور مچائے شور“ جیسی ضرب المثال شائد ایسے ہی خواتین وحضرات کے لئے بنی تھی۔ ہر چور اس نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتا ہے اگر وہ اونچے سے اونچا شور مچائے گا تو شائد اس سے اصل چوری چھپ ہی جائے۔ بہرحال اسی سلسلے میں اپنی نیک نامی کے پرچار کیلئے وہ ملکی نظام انصاف اور عدالتوں سے جرم کے ثابت ہونے کو بھی اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طورپر بیان کرتے نہیں تھکتے۔ اس سلسلے میں محترم زردری صاحب بھی ان کے ہم پلہ ہوجاتے ہیں ایک موٹی سی مثال یہ ہے کہ کوئی گِن لے کہ پاکستان میں سال میں کتنے قتل ہوتے ہیں۔ دفعہ 302 میں تو قتل کی سزا موت ہے۔ کیا کوئی گن کر یہ بتاسکتا ہے کہ کتنے کیسز میں ہماری عدالتوں سے لوگ پھانسی پر جھولے۔ شاید کوئی تناسب ہی نہ ہو تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی قتل ہوتا ہی نہیں۔ عمران خان تو اس عدالتی کمی اور نا اہلی کا برملا اعتراف بھی کرچکا ہے اور وہ کیا کرے کہ قانون سازی کے لئے پارلیمانی نظام میں بہت سی بلیک میلر قوتیں موجود ہوتی ہیں جو اندرون خانہ وبیرون خانہ اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔ ان میں اپنے بھی ہوتے ہیں اور پرائے بھی۔ اب بڑی امیدیں فی الحال تو اسی جیتے جاگتے اور ہر آن متحرک میڈیا سے ہیں جو کہ یقینا کھرے کو کھوٹے سے علیحدہ کرکے ہی رکھے گا۔ شاید کہ باری تعالیٰ ایسے ہی پاکستان کا بھلا کر دے۔
(کرنل ریٹائرڈ اور ضلع نارووال کے سابق ناظم ہیں)
٭……٭……٭