شفقت اللہ مشتاق
پنجاب بنیادی طور پر تین بڑے علاقوں پر مشتمل ہے۔ وسطی پنجاب،شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب۔ وسطی حصے میں پنجابی،شمالی حصے میں پوٹھوہاری اور جنوبی حصے میں سرائیکی زبانیں عام طور پربولی جاتی ہیں۔ معاشرت، ثقافت اور طرز زندگی میں بھی بڑا فرق ہے۔ ان ساری چیزوں کی ایک تاریخ ہے اور تاریخ راتوں رات قلمبند نہیں ہوجاتی۔ ارتقائی لحاظ سے اگر مذکورہ عوامل کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی غیر عقلی یا غیر فطری بات نظر نہیں آتی۔ جنوبی پنجاب کا مرکز ہمیشہ سے ہی ملتان رہا ہے اور 712ء میں محمد بن قاسم نے اس کو فتح کیا اور یوں عرب کلچر اور ثقافت نے یہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا۔ آج بھی اس علاقہ میں جمعرات کو خمیس کہا جاتا ہے۔ شورکوٹ سے کراچی تک آپ کو کھجوروں کے پودے بکثرت نظر آتے ہیں۔ دستار پہننا یہاں کی روایت ہے۔ خوشی اور غم کی رسومات بڑے ذوق شوق سے ادا کی جاتی ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی کا رجحان مذہب کی طرف ہے۔ زبان بھی پنجابی،عربی اور مقامی زبانوں سے مل کر سرائیکی بنتی ہے اور اس کی ایک اپنی مٹھاس ہے۔ بڑے آدمی کو سائیں کہنا یہاں کا کلچر ہے۔ بڑی بڑی درگاہیں مرجع خلائق ہیں۔ سجادہ نشینوں اور جاگیر داروں میں انیس بیس کا فرق ہے۔ وضعداری یہاں کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ بلا کے مہمان نواز ہیں.اول تو بات کو دل میں رکھتے ہیں اور اگر بات کرنا بہت ہی ضروری ہو تو بڑے ہی سلیقے اور طریقے سے کرتے ہیں اور بات کو پہلے مٹھاس اور شیرینی کے آٹے سے گوندھتے ہیں اور پھر حکمت کی آگ پر پکاتے ہیں اور پھر شائستگی اور نفاست کے برتن میں پیش کر دیتے ہیں۔ یوں جذباتیت اور حساسیت کے دھوئیں اٹھنے کا امکان بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے۔ حفظ مراتب کے سارے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ عربوں کے بعد سرائیکی علاقہ پر تغلق خاندان نے پوری توجہ دی اور یوں قلعہ پر خواجہ بہاؤالدین زکریا ملتانی اور شاہ رکن عالم کے مزارات اس وقت کے جدیدفن تعمیر کا شاہکار بنے۔ دھرتی انتہائی زرخیز تھی۔ کپاس سب سے اہم فصل ہے اور آموں کے باغ جنوبی پنجاب کی پہچان ٹھہرے۔جنہیں بدقسمتی سے سنا جارہاہے کہ تلف کرکے بڑی بڑی ہاؤسنگ کالونیاں تعمیر کی جائیں گی اوریوں معیشت میں استحکام لانے کاایک ذریعہ ختم کردیا جائے گا۔ اس علاقہ کی سرحدیں ڈیرہ غازی خان کی وساطت سے سارے صوبوں سے ملتی ہیں۔ اسی طرح بہاولپور اور وہاں کے نوابوں کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ خواجہ غلام فرید کی شاعر اور پردرد آواز روہی کی پہچان بن گئی۔ نوابوں نے بڑی بڑی علمی درسگاہیں بنا کر لوگوں کے دلوں میں مستقل گھر بنا لئے ہیں یہ علیحدہ بات ہے ان کے اپنے گھر گھر نہیں رہے۔ مذکورہ عوامل کے باوجود شاید ہم میں کوئی کمی تھی کہ اتنے سارے وسائل کے باوجود ترقی کا پہیہ اس رفتار سے نہ گھمایا جا سکا جس کی جنوبی پنجاب کی تعمیر و ترقی کے لئے ضرورت تھی۔ بادی النّظر میں مغلوں کا لاہور پر فوکس ہونا اور دوسرا یہ کہ لاہور پنجاب کا دار الحکومت تھا۔ وسطی پنجاب میں انگریزوں کے دور میں آباد کاری نے بھی صنعت سازی کے شعبے کو فروغ دیا۔ خام مال کو انڈسٹری کی آگ سے نکال دیا جائے تو پیسہ ڈالر کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں صنعت سازی کو بالکل نظر انداز کیا گیا۔ جاگیر داری کلچر نے سوچ کے سارے دروازے بند کر دیئے۔ ہاں البتہ یہاں بھی آبادکاروں کے آنے سے عملی طور پر کچھ کام شروع ہوا ہے۔
یہ ایک تقابلی جائزہ دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ چند دن پہلے وسیب کے ایک نوجوان سیاستدان رانافراز نون اورچندسرائیکی دوستوں سے ملاقات ہوئی تو خیالات کے تبادلے کے نتیجے میں مذکورہ حقائق کھل کھلا کر سامنے آئے۔ دوران گفتگو خواجہ شعیب نے اپنے مخصوص انداز میں خواجہ غلام فرید کی قافیاں کو سنایا جس سے روحانی ماحول تو ضرور پیدا ہوا لیکن ہیر اور سسی کے ذکر پر ہمارے ایک دوست جن کا تعلق لاہور سے ہے ان کی غیرت نے انہیں دولتیاں مارنی شروع کردیں اور آگے سے انہوں نے وارث شاہ کے سارے کئے کرتے پر پانی پھیر کر کیدو کی خدمات کو کھل کھلا کر خراج تحسین پیش کردیا۔ غیرت اور محبت دو حصوں میں بٹ گئی اور پھر ہم نے دونوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا اور ملتان میں سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم کے دور میں بننے والے پلوں کی دل کھول کر تعریف کی۔ یوں بات عشق معشوقی سے نکل کر سیاست کے میدان میں آگئی اور سیاسی میدان میں جنوبی پنجاب کے بے شمار خاندانوں نے بڑا نام کمایا ہے۔ 1985 میں مخدوم زادہ حسن محمود کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر میاں محمد نواز شریف کو اس میدان میں ایک کھلے مینڈیٹ کے ساتھ اتارا گیا اور پھر انہوں نے تو سب کچھ کمایا ہے۔ ہر شخص کی کامیابی کا کوئی نہ کوئی تو راز ہوتا ہی ہے۔ نون خاندان کا پاکستان اور پنجاب کی سیاست میں ایک نام رہا ہے۔ محترم رانا فراز خان نون کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ اب وہ جنوبی پنجاب کی آواز بن کر ایک ہی کام کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے جنوبی پنجاب کے صوبے کا قیام۔
مبارک ہو ان کو کہ ملتان اور بہاولپور میں سیکریٹیریٹ کے دفاتر کے قیام سے صوبے کی بنیاد موجودہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب نے رکھ دی ہے اور مبارک ہو وہاں کے علاقے کی عوام کو کہ ان کے روشن مستقبل کے بارے میں ان کے بڑوں نے زور شور سے سوچنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جوش اور ہوش کے سوچنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سوچ کو بیدار کرنا لیڈرشپ کا کام ہے۔ بہرحال سوچ کے گل کھلنے سے ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ موٹر وے نے فاصلے ختم کردیئے ہیں۔ اب ہم سب کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقعہ مل گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہی ہے کہ ہر شخص ایک دفعہ موٹر وے پر سفرضرورکرے اور پھر سارے صوبوں سے گھومتا گھماتا ہوا واپس آکر سوچے کہ ہم سب کو مل کر کیا کرنا چاہئے۔ یقینا ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ دلوں کی کدورتیں اور نفرتیں ختم کرنا ہوں گی۔ سب کو کام کرنے کے برابر مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہم سب کے لئے اشد ضروری ہے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو نعروں کی دنیا سے نکل کرحقیقت کی دنیا میں آنا ہوگا۔ عوام الناس کو اپنے حقوق کی آگاہی اور ان کے حصول کے طریقوں سے روشناس کرنا ہوگا۔ موروثی سیاست کو جمہوریت کی اصلی روح کا ٹیکہ لگا کر مارنا ہوگا اور جمہوریت اور تجارت میں فرق کو واضح کرنا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ اگر یہ سارا کچھ ہو گیا تو پھر واقعی کچھ ہو گا بصورت دیگر نعروں سے ہم سب بہلائے جائیں گے اور رب جانے کب بہار کے دن آئیں گے۔
(کالم نگار سیکرٹری ٹیکسز ریونیو بورڈ پنجاب ہیں)
٭……٭……٭