تازہ تر ین

بڑے لیڈر عوامی رابطوں سے بنتے ہیں، عمران خان کو بھی یہی کرنا چاہیے۔رپورٹ: ستار خان

وزیراعظم عمران خان کبھی کبھار قوم سے خطاب کرتے ہیں۔ قوم سے خطاب چاہے ٹی وی کے ذریعے ہو یا ذرائع ابلاغ کے مختلف ذرائع سے ہو۔ لیکن قوم سے خطاب مو¿ثر ہونا چاہئے پوری دنیا میں حکومتوں کے سربراہ اپنی اپنی قوم سے مختلف ذرائع سے مخاطب ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ کس طرح سے اس طرح سے جس سے حکومتوں کے سربراہوں کو سیاسی طور پر فائدہ بھی ہو۔ عمران خان صاحب قوم سے خطاب اس انداز میں کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ کرکٹ کھیل کا ایک اوور کرارہے ہیں اور ہر بال پر امپائر سے آﺅٹ کی اپیل کرتے ہیں چاہے گیند بیٹسمین کے پیڈ پر لگی ہے کہ نہیں چاہے گیند بیٹسمین کے بلے کو چھوتے ہوئے وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں گئی ہے کہ نہیں یعنی کہ LBW اور SNIKE ہوئی ہے یا نہیں۔ اس طرح سے قوم سے خطاب کا فائدہ ہونے کا امکان کم ہے۔ پوری دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جن سربراہوں کو قوم سے خطاب کا طریقہ آتا تھا انہیں اس کا فائدہ ہوا اور جن ک نہیں آتا تھا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ عمران خان صاحب کے پاس اب بھی موقع ہے اگلے الیکشن کو ڈیڑھ سال رہ گیا ہے عمران خان صاحب قوم سے رابطے میں مسلسل رہیں لیکن اس انداز میں جس کا عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کو فائدہ ہو اور آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف کامیاب ہوسکے۔ ابراہم لنکن اپنی تقاریر کی وجہ سے پیدائشی مقرر مشہور ہوا۔ امریکہ کے خانہ جنگی کے دوران لنکن نے وائٹ ہاﺅس کے قریب واقع وارڈ ڈیپارٹمنٹ میں ٹیلی گراف دفتر قائم کردیا تھا۔ لنکن خانہ جنگی کے دوران ٹیلی گراف بھیجتا رہتا تھا۔ تاکہ خانہ جنگی سے فتح یاب ہوکر نکلا جائے۔اس دوران لنکن کئی مرتبہ ٹیلی گراف آفس میں ہی سویا وہ اپنی نیند کے لئے وائٹ ہاﺅس بھی نہیں گیا۔ 1896ءمیں امریکہ کے صدر WILLIAM MEKMLEY نے پہلی مرتبہ مووینگ پکچرز کے ذریعے اور امریکی لوگوں سے رابطے میں رہے۔ TROOSEUELT کے بارے میں مشہور تھا کہ calely slofans اور COLORFUL QUIPS اتنے جاندار تھے کہ ان کو اس وقت کے مشہور کالم نسٹ اور کارٹونسٹ اپنے اپنے اخبارات میں استعمال کرتے تھے۔ امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن سے لے کر آخری صدر ڈونلڈٹرمپ اچھی طرح جانتے تھے کہ لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا کتنا ضروری ہے۔ آج سے دوسو سال پہلے جب نہ ریڈیو تھا‘ ٹی وی تھا‘ فیس بک تھا‘ TWETER تھا نہ ہی سوشل میڈیا تھا اس وقت بھی امریکی صدور اس بات کا خصوصی خیال رکھتے تھے کہ عوام ‘ لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنا ہے۔ جارج واشنگٹن 1790ءمیں لوگوں کے سامنے امریکہ کی نیشنل کرنسی پوسفٹ آفس‘ ناپ تول‘ قومی قرضے اور امیگریشن کے بارے میں اعتماد میں لیا تھا اور کامیاب ہوگئے تھے۔ امریکی صدر ROOSVELT اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ اپنی قدرتی کرشمہ کو لوگوں کے دلوں میں کیسے اتار سکتے ہیں۔ روز ویلٹ کی کہی گئی باتیں FERESIDE CHATS کے نام سے مشہور ہوگئی تھیں جن کا امریکی لوگوں کو انتظار رہتا تھا۔ روز ویلٹ بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی FRESUDE CHATS تیار کرتا تھا بولنے سے پہلے ریہرسل کرتا تھا۔ 12 سالوں میں روز ویلٹ نے اس طرح کے 30 FRESUDE CHATS تیار کی تھیں جو روز ویلٹ کو امریکہ کے چوتھے صدارتی انتخابات میں کامیابی دلوا سکتی تھی۔ روز ویلٹ کی FRESUDE CHATS اس طرح کی ہوتی تھیں کہ مزدور سمجھتا تھا کہ صدر اس سے ذاتی طور پر مخاطب ہے سکول ‘ ٹیچرز یہ سمجھتا تھا کہ صدر اس سے ذاتی طور پر مخاطب ہے اور دکان دار یہ سمجھتا تھا کہ صدر اس کے ساتھ ذاتی طور پر مخاطب ہے۔ ٹی وی کے ذریعے لوگوں سے خطاب کرنے کا فن امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو مانا جاتا تھا۔ 1960ءمیں جان ایف کینیڈی اور رچرڈ نکسن کے درمیان صدارتی انتخابات کے لئے ٹی وی پر ہونے والی پہلی DEBATE جان ایف کینیڈی کے امریکی صدر ہونے کی تصدیق کرگئی تھی۔ کینیڈی کے بعد امریکی صدر رونلڈ ڈریگن کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی عوام کا ٹی وی خطاب کے ذریعے دل جیت لیا کرتے ہیں رونلڈ ریگن کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اگر امریکی قوانین نے کسی امریکی صدر پر تیسری مرتبہ امریکی انتخابات لڑنے پر پابندی نہ لگائی ہوتی تو ریگن تیسری مرتبہ بھی امریکی صدر منتخب ہوجاتے اور اس کی بنیادی وجہ ریگن کا ٹی وی پر لوگوں کو مخاطب ہونے کا انداز تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں TWITTERنے اپنی جگہ بنا لی تھی ویسے تو اوباما نے بھی لوگوں سے رابطے میں رہنے کیلئے ٹوئٹ کا استعمال کیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ تو ایسا لگا جسے وہ صدر صرف TWEET کرنے کے لئے بنے ہیں۔ ٹرمپ نے 2018 ءسے 2020 ءکے تین سالوں کے دوران 25 ہزار TWEET کئے۔ 1998 ءمیں جب بی جے پی کے ایک ورکر تھے مودی ہماچل پردیش سردیوں میں کسی جگہ سے گزر رہے تھے تو سڑک کنارے ایک چائے کے ہوٹل پر رکے چائے پینے کے لئے سڑک کنارے چائے ہوٹل میں صرف ایک ہی بندہ جو چائے بنا رہا تھا اور چائے سرو کررہا تھا مودی کو چائے پیش کرنے سے پہلے ہوٹل والے نے مودی کو ایک لڈو پیش کیا۔ مودی صاحب نے حیران ہوکر چائے والے سے پوچھا کہ وہ اسے لڈو کس خوشی میں کھلا رہا ہے کیا کسی کی شادی ہے کوئی خوشی کا موقع ہے تو اس چائے والے سے جوش اور خوشی میں مودی صاحب کو بتایا کہ انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کردیا ہے اور انڈیا ایٹمی طاقت بن گیا ہے۔ مودی نے بڑا حیران ہوکر کہا کہ اس سڑک پر تمہارا ہی چائے کا ہوٹل ہے اور تمہارے علاوہ اور کوئی ہوٹل نہیں ہے اور تم بھی اپنے ہوٹل میں اکیلے ہی ہو۔ تو اس ہوٹل والے نے مودی سے کہا کہ جناب میں نے ریڈیو سے یہ خبر سنی ہے۔ اس وقت تک مودی کو بھی نہیں پتا تھا کہ انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کردیا ہے اور اسی وقت انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ریڈیو کے ذریعے انڈین کو یہ خوشخبری سنا رہے تھے تو مودی نے اندازہ لگایا کہ ہماچل پردیش کے پہاڑی علاقے ایک سڑک پر صرف ایک چائے کا ہوٹل ہے اور اسے اس بات سے ریڈیو کے ذریعے پتا چلتا ہے اور وہ خوش بھی ہے ڈانس بھی کررہا ہے مٹھائی بھی بانٹ رہا ہے تو مودی کے مطابق انہیں من کی بات کا آئیڈیا اصل میں ہماچل پردیش کے سڑک کنارے ہوٹل والے کی وجہ سے آیا اور انہوںنے طے کرلیا کہ جب کبھی بھی موقع ملا وہ دور دراز رہنے والے لوگوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے ریڈیو کا استعمال کریں گے۔ مودی ریڈیو میں من کی بات کے ذریعے اپنے لوگوں کو تبدیلی کا ایجنٹ بننے کی ترغیب دیتا ہے۔ نوجوانوں سے کہتا ہے کہ اپنے ہیروز کے سٹیٹس کو صاف رکھا کرو۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain