ضیا شاہد آسمان صحافت پر چمکتا وہ آفتاب ہیں جن کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ارباب دانش کی طرف سے تادیر نا صرف بات ہوتی رہے گی بلکہ تشنگان علم ان کی فکر، سوچ اور فلسفہ پر ہماری جامعات میں تحقیق کر کے ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرتے رہیں گے ۔ یہ بات طے ہے کہ کم از کم پاکستان میں ضیا شاہد کا تذکرہ کئے بغیر صحافت کی بات مکمل نہیں ہو سکتی لیکن صحافت سے ہٹ کر بھی ان کی شخصیت اتنی ہمہ گیر ہے کہ اس کی گیرائی و گہرائی ماپنے کے لئے دفتر درکار ہیں ۔ سیلف میڈ ہونے کے باوجود ان کی کامیاب زندگی کی انتہائی دلچسپ کہانی (Success Story ) ہمارے نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ موٹیویٹرز اور موٹیویشنل سپیکرز کو بھی مہمیز دیتی اور متاثر (Inspire ) کرتی ہے ۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنا ہمیشہ پرکشش رہے گا کہ سندھ کے علاقے گڑھی یاسین میں پیدا ہوئے والے بچے نے طویل یتیمی کے باوجود صرف پاکستان ہی نہیں عالمی سطح پر صحافت میں ایک بڑا نام کیسے پیدا کیا؟ ۔ پاکستان میں جب صرف 2 میڈیا ہاوسز کا غلبہ تھا، ضیا شاہد نے اس سخت مقابلے میں اپنی نمایاں جگہ کیسے بنا لی؟ ان میڈیا ہاوسز کے پس منظر میں وسائل کی دستیابی تھی لیکن ضیا شاہد نے بغیر کسی بڑے سرمائے کے تیسرے شاندار میڈیا ہاوس کے قیام اور اس کے نمایاں مقام ایسا مشکل سنگ میل کیسے عبور کیا؟ سوال ہمیشہ سامنے آتا رہے گا کہ آخر وہ کون سے اوصاف تھے کہ جن کی بنا پر انہیں جدید صحافت کا بانی تسلیم کیا گیا۔
وہ آخر صحافت میں کیا جدت لائے؟ ضیا شاہد اخبار کو خواص سے عوام میں کیسے لائے؟ ضیا شاہد عوامی جذبات پر گہری نظر رکھنے والے قوم کے نباض کیسے بنے؟ ضیا شاہد کی کیا صحافتی زندگی ہی قابل بحث ہے؟ آخر وہ بطور شہری کیسے تھے؟ آخر وہ قائداعظم سے اتنی زیادہ محبت کیوں رکھتے تھے؟ ان کی کتاب “سچا اور کھرا لیڈر” کے پس منظر عوامل کیا تھے؟ ضیا شاہد کو مصور صوبہ جنوبی پنجاب کیوں کہا گیا؟ ضیا شاہد کو کیوں حکومتی عتاب کا سامنا کرنا پڑا؟ ضیا شاہد نے شاہی قلعہ جیسی قید کیوں کاٹی؟ کیا ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش آئی؟
اس جیسے دیگر درجنوں ہی نہیں بلکہ سینکڑوں سوالات ہیں جن پر شعبہ صحافت اردو، اور سوشل سائنسز کے طلباء اور طالبات ریسرچ کرتے رہیں گے۔قوم ضیا شاہد کو تا دیر یاد کرتی رہے گی۔
بقول ابن انشا:
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا
ضیا شاہد کا صحافت، خصوصا اپنے اخبار خبریں کو دیا گیا مقبول ترین سلوگن “جہاں ظلم، وہاں خبریں” ہے۔ اس نعرے کے پیچھے سماج کے صدیوں کے تجربے کا نچوڑ شامل ہے ۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہوا ۔ دو قومی نظریہ اس ملک کی اساس ہے ۔ لیکن اب پاکستان میں ایک بہت بڑی تعداد اقلیتوں کی بھی موجود ہے ۔ اب ضروری ہے کہ اس ملک کے باشندے پاکستانی بن کر رہیں ۔پاکستانیت کے فروغ کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک کی فکری تقسیم مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی یا نسلی بنیادوں پر نہ ہو بلکہ یہاں کوئی تقسیم ہو سکتی ہے تو وہ ظالم اور مظلوم کی ہو سکتی ہے ۔ سماج کی اسی گہری فکر اور فلسفے کی بنیاد پر ضیا شاہد نے “جہاں ظلم، وہاں خبریں” کا نعرہ پیش کیا اور اپنی نصف صدی سے زیادہ صحافتی زندگی میں انہوں نے اس نعرے کو حقیقت ثابت کر کے دکھایا ۔ یہی وجہ ہے کہ جس جس علاقے میں خبریں کو اچھی ٹیم میسر آئی وہاں مظلوموں کا رش تھانوں سے زیادہ خبریں دفاتر میں ہوتا رہا ہے ۔ راقم الحروف نے ضیا شاہد کی سرپرستی میں 18 سال سے زیادہ گزارے ۔اور آخری 10 سال ان سے تقریباً روزانہ براہ راست رابطہ ہوتا اور ہدایات حاصل کرتا رہا ۔ میں مکمل دیانت داری سے کہ سکتا ہوں کہ ان کا دل مظلوموں کے ساتھ دھڑکتا تھا ۔ان کا حکم ریا کہ خبریں کے صفحات مظلوموں کے لئے وقف ہیں ۔اور جس دن اخبار میں طلم کی داستان نہ ہوتی وہ اس دن کے اخبار کو نامکمل قرار دیتے ۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ صحافت کو غیر جانب دار ہونا چاہیے۔لیکن ضیا شاہد نے اپنی صحافت کو پہلے ہی دن سے جانبداری کی بنیاد پر استوار کیا۔ضیا شاہد نے اعلان کیا کہ میں معاشرے کے مظلوم طبقے کے ساتھ کھڑا ہوں،کھڑا رہوں گا۔ضیا شاہد نے ” جہاں ظلم، وہاں خبریں” کے نعرے سے درحقیقت نظریہ پاکستان پر اختلاف رکھنے والوں کو بھی دعوت فکر دی ہے کہ پاکستان میں کوئی مسلم،غیر مسلم نہیں بلکہ سارے پاکستانی ہیں۔البتہ معاشرتی تقسیم ایک ہی ہے اور وہ ظالم اور مظلوم کی ہے۔ اور میرے خیال میں ضیا شاہد کے دئیے گئے سماج کے اسی فلسفے میں پاکستان کی بقاء ہے ۔