آسٹریلوی ماہرین نے ازخود چارج ہونے والی ایسی بیٹری ٹیکنالوجی کا تصور پیش کیا ہے جو ہوا میں موجود آبی بخارات سے بجلی جمع کرتی رہتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ سورج سے آنے والی توانائی کی آدھی مقدار سمندر اور دریاؤں میں پانی بھاپ بنانے میں ہی صرف ہوجاتی ہے اور نمی کی صورت ہر جگہ موجود رہتی ہے۔ آسٹریلوی کمپنی ’اسٹریٹجک ایلمنٹس‘ اور یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز نے ایک لچکدار ازخود چارج ہونے والی بیٹری تیار کی ہے جو کئی چھوٹے آلات کو بجلی کی مناسب مقدار فراہم کرسکتی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو ’توانائی کی روشنائی‘ یا انرجی انک کہا گیا ہے، جسے ماحول دوست اور محفوظ مٹیریئل سے بنایا گیا ہے۔ فی الحال اسے بدن پر پہنے جانے والے طبی آلات (ویئریبل) میں لگایا جاسکتا ہے جہاں جسمانی نمی سے بھی چارج جمع کیا جاسکتا ہے۔
بجلی بنانے والے تجرباتی سیل کے ایک جانب جب آبی بخارات یا نمی ہو تو H+ پروٹون خشک طرف منتقل ہوتے ہیں اور یوں چارج کی علیحدگی (سیپریشن) ہونے لگتی ہے۔
کاروباری راز کے تحت اس کی مزید تفصیل نہیں دی گئی ہے لیکن اتنا ضرور بتایا گیا ہے کہ اس میں گرافین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ اسے گرافین آکسائیڈ پر مبنی موئسچر الیکٹرک جنریٹر ( ایم ای جی ایس) کا نام دیا گیا ہے۔ اس تحقیق کی تفصیلات نینوانرجی نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
نمی سے چارج ہونے والی اس بیٹری کو تجربہ گاہ میں آزمایا گیا ہے اور اس سے کیلکیولیٹر اور چھوٹے آلات چلائے گئے ہیں۔ تفصیلات کے تحت برقیروں (الیکٹروڈ) پر ایف ٹی او طرز کا شیشہ اور چاندی کا ملغوبہ فرافین آکسائیڈ سے بنی ایک باریک پرت پر لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پرت ہی سب سے سرگرم ہوتی ہے جسے فنکشنل لیئر کہا گیا ہے۔
آلے کے دونوں اطراف میں سے ایک پر نمی جمع ہوتی ہے تو دوسری خشک ہوتی ہے۔ فنکشنل لیئر جب تک خشک رہے وہاں کے پروٹون بھی غیرسرگرم رہتے ہیں۔ جیسے ہی دونوں طرف نمی کا توازن بدلتا ہے۔ اس سے آئیونائزیشن کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور فنکشل گروپ میں کاربوکسلِک ایسڈ COOH بنتا ہے اور مثبت چارج خارج ہوکر ہائیڈروجن آئن یا ہائیڈرونز بنتے ہیں۔
اب ہائیڈرون خشکی والے حصے تک جانے لگتے ہیں اور چارج کے بعد وولٹیج بننے لگتے ہیں۔ اس طرح نمی کی وجہ سے چارج جمع ہونے لگتا ہے۔