نیویارک: (ویب ڈیسک) پاکستان نے کہا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی القاعدہ پر پابندیوں سے متعلق کمیٹی 1267 کے کام کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے کمیٹی کی کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو بلیک لسٹ کرنے کی کوششوں کو روک دیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان مشن میں فرسٹ سیکرٹری جواد اجمل نے سلامتی کونسل کی 1267 کمیٹی اور پابندیوں کے اقدامات کی نگرانی کرنے والی 1988 کی پابندیوں کی کمیٹی کے مشترکہ اجلاس میں کہا کہ کمیٹی نے کئی مواقع پر رکن ممالک کی طرف سے اس حوالے سے فراہم کردہ مصدقہ معلومات کو مدنظر نہیں رکھا۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلامتی کونسل کے ایک غیر مستقل رکن ملک بھارت نے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی اور حمایت میں ملوث افراد کے خلاف تمام کوششوں کو روکنے کے لیے کونسل میں اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے پابندیوں کے اقدام کو سیاسی رنگ دیا ہے جو کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف کر رہی ہے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ بھارت نے سیاسی مقاصد کے لیے سفارشات کو بلاک کر دیا، جس میں دہشت گردی میں مدد کرنے اور اس میں ملوث افراد کی نامزدگی کے حوالے سے امتیازی نقطہ نظر اپنایا گیا ہے۔
پاکستانی مندوب نے 1267 پابندیوں کی کمیٹی سے سلامتی کونسل کی پابندیوں کے نظام کی شفافیت کو بڑھانے اور بعض موروثی قانونی خامیوں کو دور کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کمیٹی کو عالمی دہشت گردی میں نئے اور ابھرتے ہوئے خطرات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے نظام کے جامع جائزے کے ذریعے اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی مندوب نے 1988 کی پابندیوں کی کمیٹی کے حوالے سے کہا کہ اسے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایسے افراد اور اداروں کی فہرست بنانا شروع کریں جو کالعدم ٹی ٹی پی جیسے نامزد کردہ گروپوں سے منسلک ہیں جو افغانستان میں فعال طور پر قائم ہے اور خطے میں امن اور سلامتی کے لیے سنگین خطرے کا باعث ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ افغانستان میں بین الاقوامی برادری کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مستقل رابطے کی ضرورت ہے اور طالبان کو ڈی لسٹ (delisting the Taliban) کرنے کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں تعطل افغان حکومت کے ساتھ تعاون اور بات چیت کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ کا باعث بنے گا۔