اسلام آباد: (ویب ڈیسک) ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے قومی سطح پر کرپشن کے تاثر کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ ’’نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے‘‘ (این سی پی ایس) 2022ء جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس ملک کا کرپٹ ترین ادارہ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ کا شعبہ جبکہ تیسرے نمبر پر عدلیہ کرپٹ ترین ادارہ ہے جبکہ 2021ء کے مقابلے میں دیکھا جائے تو تعلیم کا شعبہ چوتھے نمبر پر کرپٹ ادارہ بتایا گیا ہے۔
این سی پی ایس 2022ء آج جمعہ کو علی الصباح ایک بجے جاری کی گئی۔ رپورٹ میں نیب سمیت انسداد کرپشن اداروں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔
قومی سطح پر، عوام کی اکثریت نے بتایا ہے کہ انسداد کرپشن کے اداروں کا کرپشن کی روک تھام میں کردار غیر موثر ہے۔
اس سروے رپورٹ کے اہم نکات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں: 1) پولیس بدستور کرپٹ ترین شعبہ ہے۔ ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ دوسرا اور عدلیہ تیسرا کرپٹ ترین ادارہ ہے جبکہ تعلیم کا شعبہ گزشتہ این سی پی ایس 2021ء کے اعداد و شمار کے لحاظ سے ترقی کرکے اب چوتھے نمبر پر آ چکا ہے۔
صوبائی لحاظ سے اعداد وشمار دیکھیں تو سندھ میں تعلیم کرپٹ ترین شعبہ ہے، پولیس دوسرے، ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ تیسرے نمبر پر ہے۔ پنجاب میں پولیس کرپٹ ترین شعبہ ہے، ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ دوسرے نمبر پر جبکہ عدلیہ تیسرے نمبر پر ہے۔
خیبرپختونخوا (کے پی) میں عدلیہ سب سے کرپٹ ترین شعبہ ہے، جبکہ ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ دوسرے اور پولیس تیسرے نمبر پر کرپٹ ترین ادارہ ہے۔
بلوچستان میں ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ پہلے نمبر پر کرپٹ ترین ادارہ ہے، جبکہ پولیس دوسرے اور عدلیہ تیسرے نمبر پر ہے۔ 2) قومی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستانیوں کی اکثریتی 45؍ فیصد تعداد کے مطابق اینٹی کرپشن اداروں کا کردار کرپشن کے خاتمے کے معاملے میں موثر نہیں ہے۔
سندھ میں 35؍ فیصد افراد کا کہنا ہے کہ نیب کا کردار موثر ہے۔ پنجاب میں 31؍ فیصد جبکہ کے پی میں 61؍ فیصد اور بلوچستان میں 58؍ فیصد افراد کا کنہا ہے کہ انسداد کرپشن کا کوئی ادارہ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے معاملے میں موثر نہیں ہے۔ 3) پاکستانیوں کا بدستور یہ ماننا ہے کہ خدمات کی فراہمی (سروس ڈلیوری) میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔
شہریوں کے مطابق، پبلک سروس کے تین سب سے کرپٹ ادارے، جن کیلئے عوام کو رشوتیں دینا پڑتی ہیں، روڈز (چالیس فیصد)، بجلی کی مسلسل فراہمی (28؍ فیصد) اور پینے کے صاف پانی تک رسائی (17؍ فیصد) ہے۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں عوام سمجھتے ہیں کہ سروس ڈلیوری کے شعبے میں سڑکوں کی مرمت کا شعبہ سب سے زیادہ کرپشن کا شکار ہے۔
خیبر پختونخوا میں عوام کی اکثریت (47؍ فیصد) سمجھتے ہیں کہ بجلی کی مسلسل فراہمی کے معاملے میں سروس ڈلیوری سب سے ز یادہ کرپشن کا شکار ہے۔ 4) این سی پی ایس 2022ء کے مطابق، کرپشن کی تین بڑی وجوہات یہ ہیں: کرپشن کے مقدمات کا تاخیر سے فیصلہ (31 فیصد)، حکومتوں کی جانب سے ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی فائدوں کیلئے استعمال کرنا (26 فیصد) اور حکومت کی نا اہلی (19؍ فیصد)۔ سندھ میں 43؍ فیصد جبکہ پنجاب میں 29؍ فیصد شہری سمجھتے ہیں کہ حکومتوں کی جانب سے ریاستی اداروں کو ذاتی فائدوں کیلئے استعمال کرنا ملک میں کرپشن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
جبکہ کے پی کے 43؍ فیصد اور بلوچستان کے 32؍ فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ کرپشن کےمقدمات کا تاخیر سے فیصلہ ملک میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے۔
جہاں تک کرپشن سے نمٹنے کی بات ہے تو قومی سطح پر 33؍ فیصد عوام کہتے ہیں کہ کرپشن پر عمر قید کی سزا دینا چاہئے، 28؍ فیصد پاکستانی کہتے ہیں کہ تمام سرکاری ملازمین، سیاست دانوں، فوجیوں، ججوں وغیرہ کو چاہئے کہ وہ اپنے اثاثہ جات عوام کے سامنے رکھیں جبکہ 25؍ فیصد عوام کا کہنا ہے کہ کرپشن کیسز کی سماعت نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کورٹس میں روزانہ بنیادوں پر ہونا چاہئے اور ان کا فیصلہ 6؍ ماہ میں سنا دینا چاہئے۔
پنجاب میں 32؍ فیصد عوام جبکہ کے پی میں 38؍ فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ کرپشن پر عمر قید کی سزا دینا چاہئے تاکہ کرپشن کی روک تھام ہو سکے۔ بلوچستان میں 33؍ فیصد عوام کا کہنا ہے کہ کرپشن کی روک تھام کیلئے حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر سرکاری ملازمین، سیاست دانوں، ملٹری افسران، ججوں وغیرہ کو پابند کرے کہ وہ اپنے اثاثے عوام کے سامنے پیش کریں۔ 6) سروے میں 2022ء کے تباہ کن سیلاب اور فنڈز کے استعمال اور سیلاب سے نمٹنے کی کوششوں میں شفافیت اور احتساب کے معاملے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
قومی سطح پر 62؍ فیصد عوام کا خیال ہے کہ حالیہ سیلاب کے دوران مقامی این جی اوز کا کردار موثر اور بہتر رہا۔ 7) پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ حالیہ سیلاب کے بعد فنڈز / امداد شفاف انداز سے تقسیم نہیں کی گئی۔ پاکستانیوں کی 60؍ فیصد تعداد سمجھتی ہے کہ سیلاب کے دوران ڈونیشن اور این جی اوز کے ریلیف آپریشنز سے جڑی سرگرمیاں شفاف ہونا چاہئیں۔
عوام کی ایک بہت بڑی تعداد 88؍ فیصد کی رائے تھی کہ ڈونیشن (امدادی رقوم) اور این جی اوز کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات کے حوالے سے تفصیلات عوام کیلئے ان کی ویب سائٹس پر موجود ہونا چاہئیں۔ 8) عوام کی ایک بڑی تعداد 77؍ فیصد سمجھتی ہے کہ سرکاری اداروں سے رائٹ ٹوُ انفارمیشن قانون کے تحت معلومات کا حصول مشکل ہے۔
صوبائی لحاظ سے دیکھیں تو سندھ میں 87؍ فیصد، پنجاب میں 83؍ فیصد کے پی میں 71؍ فیصد جبکہ بلوچستان میں 68؍ فیصد عوام کو سرکاری اداروں سے معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 9) عوام کی اکثریت 64؍ فیصد کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 12؍ مئی 2019ء کو آئی ایم ایف سے کیے معاہدے سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ 10) قومی سطح پر 54؍ فیصد عوام کا خیال ہے کہ نیوز چینلز پر ہونے والی صحافت متعصبانہ ہے۔