پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں 1990 اور 2017 کا پاکستان نہیں چاہیئے بلکہ ہمیں 2023 کے مطابق جدید تقاضوں پر پاکستان کو چلانا ہوگا، جس کے لیے ہمیں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے نہ میرا، نہ تیرا بلکہ ہم سب کا پاکستان کے تحت چلانا ہوگا، جب تک آپس میں لڑتے رہیں گے، ملک ترقی نہیں کر سکتا، آئین توڑنے اور ملکی اداروں پر حملہ کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیئے۔
کراچی میں پیپلزپارٹی کا سانحہ کار ساز کے شہداء کی یاد میں تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا، کارساز تعزیتی جلسہ فلسطین کے نام سے منسوب کردیا گیا۔
سانحہ کارساز سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آج شہداء کو یاد کرنے کا دن ہے، آج کا دن فلسطین سے یکجہتی کے طور پر بھی منارہے ہیں، فلسطینیوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج کا دن محترمہ کی واپسی کا تاریخی دن تھا، سانحہ کار ساز کو 16 سال گزر چکے ہیں، سانحہ کار ساز کے شہداء کو یاد کرنے کے لیے آج ہم سب یہاں جمع ہیں، بے نظیر بھٹو اپنے عوام کو آزادی دلانے آئی تھیں، عوام نے بی بی کا پرجوش استقبال کرکے دہشت گردی کو مسترد کردیا تھا، بزدل دہشت گردوں نے رات کے اندھیرے میں حملہ کیا، بزدل دہشت گردوں کے حملے سے 200 جیالے شہید ہوئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی کے جیالوں نے نظریے اور منشور کی خاطر شہادت قبول کی، پیپلزپارٹی جیسے بہادر جیالے کسی اور جماعت میں نہیں ہیں، آج فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بھی ہم باہر نکلے ہیں، فلسطینی بہن بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں پاکستان کے عوام ساتھ کھڑے ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام آج بھی اکیلے نہیں اور کل بھی اکیلے نہیں ہوں گے، جب تک پاکستان کے عوام ہیں فلسطینی عوام کبھی اکیلے نہیں ہوں گے، نگراں وزیراعظم صرف ہمارے نہیں فسلطین کے بھی نمائندے ہیں، نگراں وزیراعظم کو فلسطین کے عوام کے لیے آواز اٹھانی پڑے گی، یاسرعرفات نے ضیاءالحق سے وعدہ لیا تھا کہ قائد عوام کو پھانسی نہیں دیں گے، ضیاء الحق وعدے سے مکر گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ آج ہمارے ملک کو قومی اتحاد کی ضرورت ہے، نفرت، تقسیم اور گالی کی سیاست کو چھوڑنا ہوگا، پرانی سیاست اور روایات کو چھوڑنا پڑے گا، آج کے پاکستان کو نئی سوچ اور نئی قیادت کی ضرورت ہے، ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ماضی میں نہ پھنسی ہوئی ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں 1990 اور 2017 کا پاکستان نہیں چاہیئے بلکہ ہمیں 2023 کے جدید تقاضوں کے مطابق پاکستان کو چلانا ہوگا، جس کے لیے ہمیں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے نہ میرا، نہ تیرا بلکہ ہم سب کا پاکستان کے تحت چلانا ہوگا۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے، مشعیت تاریخی بحران سے گزر رہی ہے، سلیکشن نے ہمارے ملک کی جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے، ماضی میں قصور جس کا بھی ہو، آج مسائل کا حل نکالنا پڑے گا، ماضی میں قصور جس کا بھی ہو، ہمیں الیکشن کرانے پڑیں گے، مسائل حل ہوسکتے ہیں، جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم بحال ہوسکتی ہے۔
بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ جمہوری سیاست کو بحال اور انا کی سیاست کو دفن کرنا پڑے گا، عوام پر بھروسہ کرنا پڑے گا، عوام اس ملک کے وارث ہیں، صرف عوام کو حق حاصل ہے کہ مستقبل کے فیصلے کریں، تقسیم اور مخالف کی سیاست کو ختم کرنا پڑے گا، جمہوریت اور مفاہمت کی سیاست سے استحکام پیدا ہوگا، سیاسی استحکام کے ساتھ معیشت کو عوام کے لیے چلانا پڑے گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں ہمیشہ غریب عوام کو فائدہ ہوا ہے، غریب عوام کو فائدہ پہنچنے سے معیشت مضبوط ہوتی ہے، بے نظیر بھٹو کا پاکستان جاگیرداروں کا نہیں مزدوروں کا پاکستان ہے، آج بھی کسانوں کو پاکستان پیپلزپارٹی سے امید ہے، آج بھی نوجوانوں کی امید پاکستان پیپلزپارٹی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نوجوانوں کوامید ہے کہ روزگار پیپلزپارٹی دلائے گی، ثابت کیا غریبوں کی جماعت آج بھی پیپلزپارٹی ہے اور کل بھی پیپلزپارٹی ہوگی،آج بھی عوامی خدمت میں سب سے آگے پیپلزپارٹی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے مخالفین کے تمام جھوٹوں کو منہ توڑ جواب دیا، سندھ میں جدید اسپتال بنائے اور تھر کے نوجوانوں کو روزگار دیا، ایسے منصوبے بنائے جس سے تھر کے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کوئی ایک منصوبہ بتائیں جو تھرکول کا مقابلہ کرے، ہم تھر میں ایسے کارنامے کرسکتے ہیں تو ملک کے کونےکونے میں بھی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے ملک میں سی پیک کی بنیاد رکھی تھی، آصف زرداری پر تنقید کرتے تھے کہ چین کے دورے کیوں کرتے ہیں، جو زرداری پر تنقید کرتے تھے آج سی پیک کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں ریلیف چاہتے ہیں، ہمیں آپ کی پرانی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں، پکڑ دھکڑ، الزامات اور گالم گلوچ کی سیاست کو چھوڑنا ہوگا، جب تک آپس میں لڑتے رہیں گے، ملک ترقی نہیں کرسکتا، آئین توڑنے اور ملکی اداروں پر حملہ کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیئے، ایک شخص کی واپسی کے لیے انتخابات، جمہوریت اور آئین کو روکا گیا۔