کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے عمل میں پولیس کی مداخلت پر الیکشن کمیشن کا ایکشن

پنجاب میں امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے کے معاملے پر الیکشن کمشنر پنجاب سعید گل نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔

الیکشن کمشنر پنجاب نے آئی جی پنجاب کو فون کیا اور کہا کہ ریٹرنگ افسران کےکام میں مداخلت قبول نہیں ہے، شفاف الیکشن کیلئے سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ دینی ہے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ان کے رہنماؤں اور امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکا جارہا ہے اور ان پر تشدد کرکے گرفتار کیا جارہا ہے۔

صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانا امیدواروں کا حق ہے، اگر پولیس نے کسی امیدوار کو روکا تو کارروائی ہوگی۔

صوبائی الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ شفاف انتخابات میں کسی رکاوٹ کو برادشت نہیں کریں گے۔

جس پر آئی جی پنجاب نے صوبائی الیکشن کمشنر کو تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے تمام آر پی آوز کو ہدایات جاری کردی ہیں۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ شفاف الیکشن کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کے ساتھ ہیں۔

پاکستان کے 39 لاکھ سے زائد اقلیتی ووٹرز الیکشن میں جداگانہ طریقہ انتخاب کےخواہاں

پاکستان میں الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تاریخ کے تحت عام انتخابات آٹھ فروری کو ہونا قرار پائے ہیں، ایسے میں اکثریت کی طرح اقلیت بھی نہ صرف اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال کرنے کے حوالے سے پرعزم دکھائی دیتی ہے، بلکہ وہ ایوانوں میں بھی اپنے نمائندگان کو زیادہ تعداد میں دیکھنے کے خواہاں ہیں تاکہ ان سے جڑے مسائل کو بھی اسمبلی کے فلور پر نہ صرف بہتر طریقے سے پیش کیا جائے بلکہ ان کے حل کے لئے قرار واقعی اقدامات بھی کئے جائیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے، جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔

’وقت آگیا ہے کہ آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص کرائی جائیں اور اقلیتی عوام کو براہ راست اپنے ووٹ سے اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق دیا جائے۔‘

یہ کہنا تھا پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اور قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی نشست کے سابق رکن ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی کا۔

ان کے مطابق آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص کرنے اور آزاد جموں کشمیر کی طرح اقلیتی برادری کو ووٹ کے دہرے حقوق دینے کے حوالے سے وہ گزشتہ دس سال سے جدوجہد کر رہے ہیں۔

رمیش کمار کہتے ہیں پاکستان میں کل آبادی کا 6 فیصد سے زائد اقلیتوں پر مشتمل ہے، اس دوران اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ اس کی نسبت عام نشستوں کو نمایاں اضافے کے ساتھ بڑھایا گیا ہے جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

عام انتخابات میں اقلیتی امیدواروں کی نمائندگی کیوں ضروری ہے ؟
کسی بھی ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام کے لئے جمہوریت نہایت ضروری ہے اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے صاف شفاف انتخابات لازم و ملزوم ہیں، الیکشن جمہوریت کے فروغ کے لئے ایک ایسی ہی سرگرمی ہے جس میں ملک میں بسنے والے تمام افراد کی بلا تفریق نمائندگی ضروری ہے۔

عام انتخابات میں مرد اور خواتین کو الیکشن لڑنے کاموقع دیا جاتا ہے اور کامیابی کے بعد وہ عوام کے براہ راست منتخب نمائندے بن کر نہ صرف ایوان میں نمائندگی کرتے ہیں بلکہ حلقے کے لوگوں کے مسائلے پر آواز بھی اٹھاتے ہیں۔

مگر بدقسمتی سے اس تمام تر سیاسی سرگرمی میں اقلیتوں کو جنرل سیٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔

اگر یوں کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا ہے، یعنی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا سیاسی امیدوار براہ راست جنرل نشست کے لئے الیکشن نہیں لڑسکتا۔ اگر اس اقلیتی شہری کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے ہے تو اسے مخصوص نشست پر پارٹی ٹکٹ دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے پہلے پانچ اگست 2022 کو حلقہ بندیاں کی تھیں، لیکن ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کے سبب الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنا پڑیں۔

مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 51 اور 106کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لئے 10 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں ، اسی طرح خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں 4 ، پنجاب اسمبلی 8 ، سندھ اسمبلی 9 اور بلوچستان اسمبلی میں 3 سیٹوں پر اقلیتوں کی نمائندگی ہورہی ہے۔

1997 سے قبل تک اقلیتوں کے امیدوار براہ راست الیکشن کے مرحلے میں حصہ لیتے تھے، پھر انتخابات میں ووٹرز مسلم اور غیر مسلم ووٹرز تقسیم ہوگئے، جس سے مذہبی اقلیتیں اپنے نمائندے کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتی تھیں۔

تاہم جنرل مشرف کے دور، سال 2000 میں اقلیتی برادری کے لئے مشترکہ انتخابی نظام متعارف کروایا گیا جس کو ون بیلٹ سسٹم کہا جاتا ہے، اس سے مراد اقلیتی برادری الگ سے اپنے کسی امیدوار کو ووٹ کاسٹ نہیں کرے گی بلکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے دیئے گئے سفید اور سبز رنگ کے بیلٹ پیپر میں سے سفید قومی اسمبلی کے امیدوار جبکہ سبز رنگ کے بیلٹ پیپر کو اپنے حلقے ایم پی اے کے انتخاب کے لئے کاسٹ کریں گے۔

مذہبی اقلیتوں نے اس انتخابی نظام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ مشترکہ رائے دہندگان کا نظام مسلم سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو اپنے پسندیدہ اقلیتی رہنماوں کے انتخاب کے زریعے اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر لے کر آئیں۔

اقلیتی برادری کے مطابق اس میں اکثر مالی پیشکش کی بدولت نمائندگی کا حق حاصل کرتے ہیں جو ایوان میں آکر اقلیت کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے اقلیت کے نام پر صرف سیاست کرتے ہیں جس کا نقصان براہ راست عام اقلیت کو اٹھانا پڑتا ہے۔

اقلیتی ووٹرز کیسا انتخابی نظام چاہتے ہیں؟
پشاور میں رہائش پذیر سکھ برادری کے بابا گروپال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سکھ کمیونٹی کے زیادہ تر افراد کے ووٹ ہی سرے سے رجسٹرڈ نہیں ہیں، انتخابات سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دیگر اضلاع سے مائیگریٹ ہوکر آنے والوں کو رجسٹرڈ کیا جائے تاکہ وہ انتخابی عمل کا حصہ بن سکیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پشاور میں سکھ اکثریتی علاقے جوگن شاہ میں گزشتہ بیس پچیس سال سے کوئی ترقیاتی کام صرف اس لئے نہیں ہوسکا کہ ان کے علاقے سے آج تک کوئی فرد اسمبلی تک نہیں پہنچا۔

وہ اقلیتی برادری کے لئے اپنا نمائندہ خود منتخب کروانے کی خواہش رکھتے ہیں جو ایوان میں ان کی نمائندگی کر سکے اور اس کا تعین مختلف علاقوں میں مذہبی اقلیتوں کی تعداد کو دیکھ کر کیا جانا چاہیے۔

بابا گرپال سنگھ
پشاور میں ہی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ہارون سرب دیال کہتے ہیں کہ اقلیتوں کو نمائندگی تو حاصل ہے لیکن وہ ناکافی ہے، کیونکہ پورے صوبے کے تمام اضلاع کی چھوٹی چھوٹی کونسلز میں بھی اقلیتی ووٹر موجود ہے جو اپنی نشستوں میں اضافے کے خواہاں ہیں، تاکہ ان کو درپیش مسائل کا حل بخوبی اور فوری ہو۔

بعض اقلیتی رہنما مشترکہ انتخابی نظام کے مخالف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جداگانہ نظام انتخاب سے اقلیتی عوام اپنے امیدوار براہ راست منتخب کرتے تھے اور وہ ان کے سامنےجوابدہ بھی ہوتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اقلیتی برادری کے لئے یہ نظام الیکشن نہیں سلیکشن ہے، جو پارٹی اپنی مرضی سے نامزد کرے وہی پانچ سال کے لئے اقلیت کا نمائندہ ہوتا ہے اسی لئے بیشتر اقلیتی شہری موجود نظام انتخاب میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

آگسٹن جیکب پشاور کی مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ آبادی میں اضافے کے باوجود مذہبی اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ نہ ہونے پر مایوسی اور تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کے باعث یقینی طور پر ان کے بنیادی اور آئینی حقوق کا استحصال ہو رہا ہے۔

آگسٹن جیکب کا سیاسی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ انتخابات سے پہلے اپنے منشور کو عوام کے سامنے رکھیں تاکہ سیاسی جماعتوں کی مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے سنجیدگی کا پتہ چل سکے، وہ بھی اقلیتوں کے حوالے سے جداگانہ انتخاب کو ہی اقلیتی برادری کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق اقلیتی اراکین اسمبلی کیسا انتخابی نظام چاہتے ہیں؟
خیبرپختونخوا میں گزشتہ دور حکومت میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اقلیتی نشست پر رکن اسمبلی رہنے والے روی کمار کہتے ہیں کہ 1981 کی مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی 27 لاکھ 90 ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جس میں مسیحی آبادی 13 لاکھ جبکہ ہندوؤں کی آبادی 12 لاکھ 80 ہزار تھی، جو کُل آبادی کا 1.55 فیصد بنتی تھی۔ احمدی ایک لاکھ، اور سکھ، بدھ مت اور پارسی وغیرہ کی کل آبادی 01 لاکھ 10 ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ اسی مردم شماری کے تحت پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی 8 کروڑ 14 لاکھ تھی جو کل آبادی کا 96.68 فیصد تھے۔

روی کمار کے مطابق اب اگر 2017 کی مردم شماری کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مطابق مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی ہے، جن میں مسیحی 20 لاکھ 64 ہزار ،ہندو 30 لاکھ 60 ہزار، احمدی 1 لاکھ 9 ہزار شیڈول کاسٹ 8 لاکھ 5 ہزار جبکہ دیگر مذاہب 4 لاکھ ہیں۔

لیکن ان کا شکوہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے باوجود انتخابات میں سیٹوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی برادری اپنے بنیادی اور آئینی حقوق سے بڑی حد تک محروم رہتی ہے۔

سابق رکن صوبائی اسمبلی روی کمار
وہ کہتے ہیں کہ بطور اقلیتی سیاستدان اور بطور پولیٹکس طالبعلم وہ ایک ایسے انتخابی نظام کے خواہاں ہیں جو اپنی لیڈر شپ کو براہ راست منتخب کرکے ایوان میں بھیج سکیں تاکہ ان کے مسائل بہتر طور پر حل ہوں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے اقلیتوں کے انتخابی نظام میں بہتری کے لئے صوبائی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروائی تھی کہ اقلیتوں کو اپنے نمائندگان خود چننے کا حق دیا جائے، تاکہ ان کے مسائل اسمبلی کے فلور پر حل ہوں اور 1973 کے بعد سے اقلیتی نشستوں میں اضافہ نہ ہونے کو بھی اس قراداد کا حصہ بنایا گیا تھا جسے وفاق میں بھیجا گیا تھا۔

وہ اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کے خواہاں تھے مگر پانچ سال مدت پوری نہ کرنے کے سبب بہت ساری اصلاحات اور اقدامات ادھورے رہ گئے، جن میں سے ایک انتخابات اور ایوان میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی بڑھانا تھا۔

روی کمار کے مطابق بطور اقلیتی سیاستدان اکثریتی سیاست دانوں کے ساتھ کام کرنا چیلینجنگ ہوتا ہے، کیوں کہ اپنے حلقوں کو لے کر ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں جس میں وہ انہیں قصور وار بھی نہیں سمجھتے، کیونکہ اقلیتوں کے مسائل پر کام کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔

تاہم اس کا حل وہ ایسے دیکھتے ہیں کہ اقلیتی اراکین اسمبلی کے لئے ایک الگ ڈائریکٹوریٹ بنا دیا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کے اہل ہوسکیں۔ اسی طرح اسمبلی میں اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ ڈیبٹ ہونی چائیے کہ اقلیت کی نمائندگی کیسے بڑھائی جائے۔

وزیرزادہ کیلاش کمیونٹی سے تاریخ میں پہلی بار اسمبلی میں پہنچنے والے رکن اسمبلی رہے ہیں۔ روی کمار کی طرح وزیر زادہ بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایوان میں اترے اور اہم وزارتی امور پر کام کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کسی سیاسی جماعت نے کیلاش قبیلے کو یہ موقع نہیں دیا تھا کہ ان کے کسی فرد کو صوبائی یا قومی اسمبلی کی مخصوص نشست پر نامزد کیا جائے، لیکن پاکستان تحریک انصاف یہ روایت ڈال چکی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ’کیلاش قبیلے کو اکثر اوقات شیڈول کاسٹ میں شمار کیا جاتا ہے (شیڈول کاسٹ اور اقلیت میں فرق معاشرتی یا عدلی امور پر مبنی ہوتا ہے۔ شیڈول کاسٹ عوام میں مختلف طبقات کو مختلف حقوق کے لحاظ سے الگ کرتا ہے، جبکہ اقلیت عوام میں آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے اور اس میں مختلف قومیتوں یا گروہوں کو شامل کیا جاتا ہے، یہ دونوں معاشرتی ترتیبات میں فرق پیدا کرتی ہیں مختصراً یہ کہ ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کی گئی اقلیت جیسے کہ باگڑی، جوگی، شکاری کولہی ، دلت)۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں کیلاش کے لوگوں کی بہبود کے لئے کام کیا اور چاہتے ہیں کہ دیگر اقلیتوں کی طرح کیلاش قبیلے کو بھی ایک الگ شناخت ملے۔

ان کی خواہش ہے کہ آنے والے انتخابات میں ان کے نمائندے بھی اسمبلی میں جاکر دیگر اقلیتوں کی طرح اپنے حقوق اور مسائل کےلیے آواز بلند کرسکیں۔

ان کا ماننا ہے کہ اقلیتوں کو جداگانہ انتخاب کا حق ان کے نمائندوں کے لئے ایوانوں میں بھی باعث عزت ہوگی، کیونکہ دوسری صورت میں وہ پارٹی کے رحم وکرم سے اسمبلی تک آتے ہیں، اس سلسلے میں وہ اپنے دور حکومت میں اپنی پارٹی کے چیئرمین کو بھی آمادہ کرنے کی کوشیش کر رہے تھے، لیکن دو تہائی نمائندگی نہ ملنے کے بعد ان کی حکومت چلے جانے سے آنے والے دنوں میں انہیں بہتری کی امید فی الحال دکھائی نہیں دے رہی۔
انہوں نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا کہ اسمبلی میں ایسے اراکین موجود ہوتے ہیں جو سرے سے اقلیتوں کے جداگانہ انتخاب کے حق میں ہی نہیں ہی ۔

سکھ برادری سے ہی تعلق رکھنے والے سابق رکن خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی رنجیت سنگھ کے مطابق جہاں جہاں اقلیتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے وہیں ان کی نمائندگی کو بھی بڑھانا چاہئے۔

ان کے مطابق جب وہ رکن اسمبلی تھے تو اس حوالے سے واضح کوششوں میں شامل رہے کہ اقلیتوں کے لئے صوبے میں مخصوص چار نشستیں اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں ناکافی ہیں، تاہم چونکہ اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے کا فیصلہ وفاق سے ہی طے پاتا ہے تو وہ بس اپنی سی کوشش میں مصروف رہے۔

ان کا یہ بھی شکوہ ہے کہ اکثریتی اراکین اسمبلی یا منتخب نمائندوں کے مقابلے میں انہیں ایوان میں کوئی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی، یہاں تک کہ انہیں مطلوبہ فنڈز سے بھی محروم رکھا جاتا ہے، نتیجتاً وہ اپنی کمیونٹی کو اس طرح سے ڈیلیور نہیں کرپاتے جو اکثریتی نمائندے کرسکتے ہیں۔

سابق رکن صوبائی اسمبلی رنجیت سنگھ
اقلیتوں کے مسائل اور حقوق پر لکھنے والے پشاور کے صحافی محمد فہیم کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی میں فاٹا انضمام کے بعد ایک اقلیتی نشست تو بڑھا دی گئی ہے، لیکن یہ نشست بھی دیگر نشستوں کی طرح مخصوص ہی ہے۔ یعنی صوبائی اسمبلی کے تمام چاروں اقلیتی ممبران پارٹی کی مرہون منت نشست پر آئیں گے، ایسے میں اقلیتوں کو نمائندگی تو مل جائیگی لیکن مسائل کا حل ممکن نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو اگر سیاسی اور قومی دھارے میں شامل کرنا ہے تو ان کیلئے انتخابات کا طریقہ کار اپنانا ہوگا، جداگانہ طرز انتخابات بھی اس کا مؤثر طریقہ ہوسکتا ہے یا پھر الیکشن ایکٹ میں لازمی قرار دیتے ہوئے خواتین کی طرح ہی اقلیتوں کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا پابند بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ مذہبی اقلیتیں پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد ہیں، جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں برابری کی سطح پر انہیں سیاسی نمائندگی بھی ملنی چاہیے۔

لہٰذا اقلیتی برادری کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا جداگانہ حق دئیے جانے کے بعد ان کے لئے سیٹوں میں اضافے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔

انڈونیشیا کے نکل پلانٹ میں دھماکا، 12 افراد ہلاک 39 زخمی

انڈونیشیا میں چینی فنڈ سے چلنے والے نکل پروسیسنگ پلانٹ میں دھماکا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک جبکہ 39 زخمی ہو گئے ہیں۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ”اے ایف پی“ کے مطابق مورووالی انڈسٹریل پارک کے ایک اہلکار ڈیڈی کرنیاوان نے میڈیا کو بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے پانچ بجے پی ٹی انڈونیشیا سنگشن سٹینلیس سٹیل کے ایک پلانٹ میں دھماکا ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ دھماکا ایک بھٹی پر مرمت کے کام کے دوران اس وقت ہوا جب ایک آتش گیر مائع بھڑکا اور اس کے بعد ہونے والے دھماکے سے قریبی آکسیجن ٹینک بھی پھٹ گئے۔

ڈیڈی کرنیاوان نے مزید بتایا کہ متاثرین کی موجودہ تعداد 51 ہے، جس میں سے 39 افراد معمولی اور شدید زخمی ہیں جن کا فی الحال طبی علاج کیا جا رہا ہے۔

مرنے والوں میں 5 چینی ملازمین بھی شامل ہیں۔

کمپلیکس کے ترجمان ڈیڈی کرنیاوان نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں سات انڈونیشی اور پانچ غیر ملکی کارکن شامل ہیں۔

تاہم، روئٹرز کا کہنا ہے کہ مرنے والے پانچ غیر ملکیوں کا تعلق چین سے تھا۔

صنعتی پارک چلانے والی فرم نے کہا ہے کہ وہ اس آفت سے ”بہت غمزدہ“ ہیں اور کہا کہ متعدد شناخت شدہ متاثرین کی باقیات کو گھر پہنچا دیا گیا ہے۔

یہ جزیرہ معدنیات سے مالا مال ملک کی نکل کی پیداوار کا مرکز ہے، نکل ایک بنیادی دھات ہے جو الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں اور سٹینلیس سٹیل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

جنوری میں، اسی صنعتی پارک میں نکل سمیلٹنگ پلانٹ میں ایک چینی شہری سمیت دو مزدور، حفاظتی حالات اور تنخواہوں کے خلاف احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کے بعد مارے گئے تھے۔

اسرائیلی جہاز نشاہ بننے کے بعد بحیرہ احمر میں بھارتی آئل ٹینکر پر ڈرون حملہ

بھارت کے قریب اسرائیلی بحری جہاز پر ڈرون حملے کے بعد بحیرہ احمر میں بھارتی تیل بردار جہاز ایم وی سائی بابا پر ڈرون حملہ کیا گیا ہے۔

امریکی بحریہ نے بتایا کہ خطے میں تعینات امریکی بحری افواج کی سینٹرل کمانڈ کے جہازوں نے حملہ ناکام بنادیا۔ ایم وی سائی بابا پر 25 بھارتی باشندوں پر مشتمل عملہ سوار تھا۔ ** امریکی بحریہ کی سینٹرل کمانڈ نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر ایک بیان میں بتایا کہ بحیرہ احمر سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر یمن کی حوثی ملیشیا کے ڈرون حملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ امریکی فوج کے بیان کے مطابق چار ڈرون ایک امریکی جنگی جہاز کی طرف بڑھے تو انہیں تباہ کردیا گیا۔

سینٹرل کمانڈ نے یہ بھی بتایا ہے کہ ایک ڈرون بھارتی پرچم بردار جہاز کو بھی لگا تاہم قابلِ ذکر نقصان نہیں ہوا۔ اس حملے میں ناروے کی ملکیت والا اور اس کا پرچم بردار آئل اینڈ کیمیکل ٹینکر بال بال بچ گیا۔

حوثی باغیوں نے یمن میں اپنے زیر تصرف علاقوں سے دو ڈرون حملے جنوبی بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہاز کی طرف بھی روانہ کیے۔ اس حملے سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے دو جہازوں سے امریکی بحریہ کی سینٹرل کمانڈ کو امداد کے لیے کال بھی کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے ساحل کے نزدیک بحیرہ عرب میں ایک اسرائیلی جہاز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکہ نے اس ڈرون حملے لیے ایران کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔

ایرانی حمایت یافتہ یمنی حوثی ملیشیا نے ہفتوں تک بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی کو مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ حوثی ملیشیا ان حملوں کو غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا جواب کہتی ہے۔ بحیرہ تیل کی ترسیل کے حوالے سے ایک اہم گزر گاہ ہے۔ دنیا بھر کے تیل بردار جہاز ان راستوں سے گزرتے ہیں۔

پاکستان کا بھارت میں ٹریڈ افسر تعینات نہ کرنے کا فیصلہ

سلام آباد: نگراں حکومت نے بھارت میں ٹریڈ آفیسر تعینات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع وزارتِ تجارت کے مطابق بھارت میں ٹریڈ آفیسر تعیناتی کے سابقہ حکومتی پلان پر عملدرآمد روک دیا گیا۔

سابق وزیراعظم شہباز شریف نے نئی دلی میں ٹریڈ آفیسر تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ اتحادی دور میں ٹریڈ آفیسرز کے لیے مشتہر 40 اسامیوں میں نئی دلی بھی تھا۔

ذرائع وزارتِ تجارت کے مطابق نگراں وزیراعظم نے نئی دلی کے سوا باقی مشتہر 39 بیرونِ ملک ٹریڈ افسران کی اسامیوں پر تعیناتی کی منظوری دی۔

نوشین شاہ کا خنزیر کا گوشت کھانے کا انکشاف

پاکستان فلم و ڈراما انڈسٹری کی معروف اداکارہ نوشین شاہ نے لندن میں خنزیر کا گوشت کھانے کا انکشاف کیا ہے۔

نوشین شاہ نے حال ہی میں اپنی نئی فلم ’چِکّڑ‘ کی پروموشن کے لیے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت کی جہاں اُنہوں نے حرام کھانا کھانے کے حوالے سے حیران کُن انکشاف کیا۔

دورانِ انٹرویو نوشین شاہ نے لندن کے دورے کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “میں نے ایوارڈ شو کی تقریب میں شرکت کے لیے لندن کے ایک ہوٹل میں قیام کیا تھا جہاں صبح کے ناشتے کے لیے بوفے میں مختلف پکوان تھے، اسی دوران میں نے ہاٹ ڈاگ یا ساسیج سمجھ کر ایک چیز کھالی تھی جس کا ذائقہ بہت خراب اور عجیب سا تھا جوکہ مجھے بالکل پسند نہیں آیا تھا”۔

نوشین شاہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “میں نے ہوٹل کے عملے سے پوچھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ چکن نہیں بلکہ خنزیر کا گوشت تھا”۔

اداکارہ نے کہا کہ “مجھے جیسے ہی پتہ چلا تو میں میزائل کی طرح واش روم کی طرف بھاگی اور وہاں جاکر قے کے ذریعے وہ حرام گوشت منہ سے باہر نکالا”۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ “میں نے غلطی سے کھایا تھا، اس غلطی کے بعد سے اب جب بھی کہیں جاتی ہوں تو پہلے کھانے کی تصدیق کرتی ہوں کہ حرام ہے یا حلال”۔

ایبٹ آباد: گھر میں آتشزدگی سے ایک ہی خاندان 9 افراد جاں بحق

ایبٹ آباد: قلندرآباد کے گاوٴں ترھیڑی میں گھر میں آتشزدگی سے ایک ہی خاندان کے 9 افراد جاں بحق ہوگئے۔

پولیس کے مطابق آگ لگنے سے ذاکر عباسی کا پورا گھر جل کر راکھ ہوگیا جبکہ خاندان کے افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔

مقامی کونسلر خاقان عباسی نے بتایا کہ گھر میں آتشزدگی سے نگینہ بیگم زوجہ محمد ذاکر اور ان کے 4 بچے اور 4 بچیاں جاں بحق ہوگئیں۔
جاں بحق ہونے والے خاندان کا سربراہ ذاکر عباسی بسلسلہ روزگار کراچی میں مقیم ہے۔

میلبرن کی مسجد میں رضوان کے درس دینے کی ویڈیو وائرل

قومی ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان کی میلبرن میں واقع جامع مسجد میں درس دینے کی ویڈیو وائرل ہونے لگی۔

سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر (ایکس) پر ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان مسجد کے منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو درس دے رہے ہیں۔

ویڈیو وائرل ہونے پر کئی صارفین رضوان کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جبکہ متعدد انکی اسلام سے محبت کو سراہا رہے ہیں۔

اس سے قبل سال 2022 میں وکٹ کیپر بیٹر نے نیوزی لینڈ کی کرائسٹ چرچ مسجد میں بیان دیا تھا جس پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

خیال رہے کہ 15 مارچ 2019 نیوزی لینڈ کی کرائسٹ چرچ مسجد میں سفید فام دہشت گرد نے 51 نمازیوں کو شہید کرنے کی لائیو ویڈیو بنائی تھی۔

دوسری جانب محمد رضوان نے ورلڈکپ کے دوران مین آف دی میچ کا ایوارڈ اسرائیلی دہشتگردی کے شکار فلسطین کے مظلوم شہریوں کے نام کیا تھا جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

گزشتہ 24 گھنٹوں میں 13 اسرائیلی فوجی ہلاک، تعداد 477 ہوگئی

اسرائیل نے غزہ میں زمینی کارروائیوں کے دوران ایک ہی دن میں اپنے مزید 13 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے، گزشتہ 24 گھنٹے میں 44 فوجی زخمی ہوئے ہیں، جبکہ ہلاک فوجیوں کی تعداد 477 ہوگئی ہے۔

صہیونی میڈیا کے مطابق اسرائیل ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) نے حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں سے لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والے اپنے آٹھ فوجیوں کے نام بھی جاری کر دیے ہیں، جن میں سے چار کا تعلق سیونتھ آرمرڈ بریگیڈ سے ہے۔

یہ چاروں فوجی جنوبی غزہ میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے۔

آئی ڈی ایف کے مطابق غزہ میں جنگ کے دوران پانچ فوجی شدید زخمی بھی ہوئے۔

صیہونی فوج نے اس سے قبل گزشتہ روز مارے گئے پانچ فوجیوں کی شناخت بھی ظاہر کی تھی۔

دوسری جانب اسرائیل فورسز کی غزہ میں کارروائیوں کے دوران اب تک 20 ہزار سے زائد فلسیطنی شہید اور 52 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

گزشتہ 24 گھنٹوں میں 201 فلسطینی شہید ہوئے ہیں، جبکہ 368 کو زخمی کیا گیا۔

غزہ کے نصائرت کیمپ میں 18 فلسطینی شہید ہوئے، بوریج پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی حملوں سے آٹھ فلسطینی شہید ہوئے۔

غزہ میں اسرائیلی حملے سے صحافی احمد جمال بھی شہید ہوئے جس کے بعد شہید صحافیوں کی تعداد 101 ہوگئی۔

اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ میں فلسطینیوں کو انخلاء کا حکم دیا ہے، جس کے باعث ہزاروں فلسطینی وسطی غزہ چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

مغربی کنارے بیتللحم شہر نے کرسمس کا جشن منسوخ کر دیا۔

دوسری جانب اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں ہزاروں افراد نے نیتن یاہو حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی اور حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری طور پر معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ میں جاری زمینی کارروائیوں کے دوران اب تک 152 اسرائیلی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ حماس کی جانب سے جنگ کے دوران سینکڑوں اسرائیلی فوجی گاڑیوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

نیا کورونا ویریئنٹ امریکہ، چین اور برطانیہ سمیت 41 ممالک میں پھیل گیا

کورونا وائرس کا نیا ویریئنٹ جے این ون تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بتایا ہے کہ اب یہ نیا کورونا ویریئنٹ امریکہ، بھارت، چین، سنگاپور، برطانیہ، سوئیڈن، فرانس اور کینیڈا سمیت 41 ممالک میں وارد ہوچکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کرتے ہوئے خصوصی طور پر محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

جے این ون چار سال قبل عالمگیر وبا کی شکل اختیار کرنے والے سارس کووڈ کا ورژن ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے جے این ون کو ویرینٹ آف انٹریسٹ کا نام دیا ہے۔ یہ سب سے پہلے امریکا میں ستمبر میں دریافت ہوا تھا۔ دنیا بھر میں صحتِ عامہ کے ادارے جے این ون کے پھیلائو پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس کے پھیلنے کی رفتار زیادہ ہے۔

جے این ون حال ہی میں دریافت ہونے والے کووڈ ویریئنٹ BA 2.86 سے پھیلا ہے جو خود بھی اومیکرون ہی کا ایک ویریئنٹ تھا۔ اومیکرون نے گزشتہ برس بہت تیزی سے پھیل کر سنسنی پھیلائی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر وائرس میں خلیوں کو متاثر کرنے کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے اور چند ایک خصوصی علامات ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔ کسی بھی وائرس کے مختلف ویئرئنٹ شدت اور پھیلنے کی صلاحیت کے حوالے سے خاصے مختلف ہوتے ہیں۔

قطر کے ویل کارنیل میڈیسن کے پروفیسر آف ہیلتھ کیئر پالیسی اینڈ ریسرچ لیت ابو رداد کہتے ہیں کہ کورونا کا نیا ویریئنٹ اس سے پہلے آنے والے ویریئنٹس سے بہت مختلف ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وائرس اب تک ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے۔

8 دسمبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں کورونا وائرس کے 15 تا 29 کیسز کا تعلق جے این ون سے ہے۔ امریکی نیوز ایجنسی نے بتایا ہے کہ نئے سال کی آمد پر غیر معمولی گہما گہمی کے باعث کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہوتا ہی ہے۔ ماہِ رواں کے اوائل میں بھارتی ریاست کیرالا میں جے این ون کا کیس سامنے آیا۔ اب کئی ریاستوں نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلیں تو ماسک لگائیں۔ کرناٹک نے ماسک کا استعمال لازم قرار دے دیا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ کورونا کا یہ نیا ویریئنٹ خاص موسمی حالات کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے تاہم عوام کو غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ اس کا پھیلائو روکا جاسکے۔ پروفیسر ابو رداد کہتے ہیں کہ سخت سردی میں جب لوگ گھر کے اندر ہوتے ہیں تب ہیٹنگ سسٹم کے آن ہونے کے باعث ہوا کا گزر نہیں ہوتا۔ ایسے میں انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

جے این ون سے بچائو کے لیے ماسک کے استعمال کے ساتھ ساتھ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ کیسز ضرور بڑھ رہے ہیں تاہم یہ نیا ویریئنٹ اب تک زیادہ شدید اور خطرناک قرار نہیں دیا جارہا۔ نزلہ، زکام اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو ماہرین نے خاص طور پر محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ جے این ون کی نمایاں علامات میں بخار، سردی، کھانسی، تھکن اور جسم میں درد شامل ہیں۔