5 دہائیوں سے زائد عرصے بعد چاند پر اترنے کے لیے بھیجا گیا امریکی مشن ناکام ہونے والا ہے۔
یہ مشن امریکا کے سرکاری خلائی ادارے ناسا کی سرپرستی میں ایک نجی کمپنی نے 8 جنوری کو روانہ کیا تھا۔
آسٹرو بائیوٹک ٹیکنالوجی نامی کمپنی کے Peregrine لینڈر کو یونائیٹڈ لانچ الائنس کے والکن راکٹ کے ذریعے چاند کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔
مگر لانچ کے فوری بعد ہی مشن کو اس وقت بہت بڑا دھچکا لگا جب اسپیس کرافٹ کا ایندھن لیک ہونے لگا۔
اب آسٹرو بائیوٹک کا کہنا ہے کہ اسپیس کرافٹ کے بند ہونے سے قبل اس کی کوشش ہوگی کہ لینڈر کو جس حد تک ممکن ہو سکے چاند کے قریب ترین پہنچایا جائے۔
کمپنی کے مطابق ممکنہ طور پر اسپیس کرافٹ کے propulsion سسٹم میں خرابی ہوئی تھی جس کے باعث ایندھن لیک ہونے لگا۔
کمپنی کی جانب سے 23 فروری کو لینڈر چاند پر اتارنے کی کوشش کرنی تھی مگر اسپیس کرافٹ میں خرابی کے باعث اب زیادہ سے زیادہ ڈیٹا جمع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس مشن کے ذریعے امریکی حکومت اور نجی صارفین کے 20 پے لوڈز کو چاند پر لے جایا جا رہا تھا۔
فلوریڈا سے راکٹ کے ذریعے اسپیس کرافٹ کو کامیابی سے خلا میں پہنچایا گیا۔
مگر راکٹ سے الگ ہونے کے بعد جب propulsion سسٹم کو متحرک کیا گیا تو ایندھن لیک ہونے لگا۔
آسٹرو بائیوٹک کی جانب سے اسپیس کرافٹ کے سولر پینلز کا رخ سورج کی جانب کیا گیا تھا تاکہ لینڈر کی بیٹری چارج ہو سکے۔
مگر ایندھن لیک ہونے کے باعث اب یہ مشن صرف 11 جنوری تک سفر کر سکتا ہے۔
اس مشن کے چاند پر پہنچنے کا امکان نہیں اور اس طرح 1972 کے بعد پہلے امریکی مشن کو چاند پر اتارنے کی کوشش ناکام ہونے والی ہے۔
مگر آسٹرو بائیوٹک کی جانب سے 2024 کے دوران مزید 5 مشنز چاند پر بھیجے جائیں گے۔
کمپنی کے مطابق دوسرے مشن کے لیے اب تک حکومتی اور کمرشل معاہدوں سے 45 کروڑ ڈالرز جمع کیے جا چکے ہیں۔