ہربحران میں آگے بڑھنے کاموقع بھی پوشیدہ ہوتا ہے میں کوشش کرتاہوں کہ بحران میں موجود اس موقع کو دیکھا جائے اوراس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے یہی فیصلہ بحران سے نکالتا ہے اور اس جیسے مزید بحرانوں سے بچاتا بھی ہے۔اسلام آباد کے چھ ججز کا مشترکہ خط عدلیہ کے بحران کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔اس بحران کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اس خط کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ کا ردعمل انتہائی شاندار اورتیز ترین رہا ہے ۔پہلی مرتبہ اس مسئلے کو مسئلہ سمجھ کر اس کے حل اور اس مسئلے سے نکلنے کا سفر شروع کردیا گیاہے۔اس سے پہلے ہمیشہ ہی جس نے کوئی ایسا الزام لگایا اس الزام کی کوئی تفتیش یا تحقیق کی بجائے الزام لگانے والے جج کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔چاہے وہ شوکت عزیزصدیقی ہوں،جج ارشد ملک ہوں یا رانا شمیم ہوں ۔ان میں سے ایک سابق جج نے عدالت سے معافی مانگی ۔جسٹس شوکت کو سپریم جوڈیشل کونسل نے بغیر سنے اور حق دفاع تک ختم کرکے نوکری سے نکال دیا۔ساتھی ججز نے معاشرتی بائیکاٹ کردیا اور جج ارشد ملک تو زندگی کی قید سے آزاد ہوگئے۔موجودہ الزامات کے بعد ایسی نوبت نہیں آئی جو ایک مثبت پہلو ہے ۔اور ساتھ ہی اس مسئلے سے آنکھیں بھی نہیں پھیری گئیں۔چیف جسٹس نے فوری ان تمام ججز کو بلواکر ان سے بات کی ۔ان کا موقف سنا اور فل کورٹ اجلاس بلا یا یہی فل کورٹ اجلاس جس کی گزشتہ ادوار میں روایت تک مرچکی تھی ۔ایک نہیں دو دن فل کورٹ اجلاس ہوتا رہا اورپوری سپریم کورٹ کی اجتماعی دانش نے یہ فیصلہ کیا کہ اس ایشوکی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنادیاجائے ۔حکومت وقت نے اس حکم پرعمل کیا اوراس معاملے کی تحقیقات شروع ہورہی ہیں۔اب کسی کو یہ کمیشن اچھا لگے یا براملکی مروجہ قوانین کے مطابق تفتیش و تحقیق کا طریقہ کار تو یہی ہے۔جس کو ریٹائرڈ جج پر اعتراض ہے اس کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ آڈیولیکس کے بعد حکومت نے حاضر جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا تھا تو ا سوقت کے چیف جسٹس بندیال صاحب نے اس کو کام سے روک دیا تھا اور آڈیولیکس کے ایشو پر مٹی ڈال دی گئی ۔
ججز نے خط میں جس ایشوکی طرف توجہ دلائی ہے وہ سنگین تو ہے ہی لیکن ملک میں جوتاثر ہے اس کے قریب ترین ہے ۔اور ایسے الزامات کو لوگ سچ ہی مانتے ہیں ۔اب کیا ان ججز کے الزامات کو بھی فوری سچ مان لیا جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے کہ الزام ایک ہائی کورٹ کے چھ ججز نے لگایا ہے۔تاثر تک تو بات ٹھیک لگتی ہے لیکن گزشتہ ایک سال کے واقعات ان الزمات اورتاثر کی مخالفت کررہے ہیں۔اس خط کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ شاید یہ دباؤ پی ٹی آئی اور عمران خان صاحب کے مقدمات کے حوالے سے ہے تو ان کا جائزہ لے لیتے ہیں۔اگر تو یہ دباؤ والی بات ٹرائل کورٹس کے جج عائد کرتے تو بات میں کافی وزن ہوتا کیونکہ عمران خان کے کیسزجن میں ان کوسزائیں ہوئی ہیں وہ ٹرائل کورٹس میں چلے ہیں۔وہ چاہے توشہ خانہ ہو ۔ سائفر ہو یا غیر شرعی نکاح کا کیس ہو۔ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور ہوں یا ابوالحسنات ہوں انہوں نے عمران خا ن کے مقدمات میں ان کو سزائیں دی ہیں لیکن انہوں نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی ۔اب ان پر کوئی دباؤ یا تو تھا ہی نہیں یا پھر ان ججز کو کسی دباؤ سے کوئی سروکار نہیں تھا تو پھر یہ سوال ہوگا کہ ہائی کورٹ کے ان ججز کو دباؤ کی شکایت کیوں پیدا ہوئی اور ایک سوال اور شدت سے سامنے آتاہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججز تو شاید کمزور بھی ہوتے ہوں گے کہ وہ ایسے دباؤ کے سامنے کھڑے نہ ہوسکیں لیکن یہ ہائی کورٹ کے جج کے پاس تولامحدود اختیارات ہوتے ہیں یہ ججز اگر ملک کے وزیراعظم کو بلاسکتے ہیں تو پھر دباؤ ڈالنے والے کو کیوں بلاکر سرعام سزا نہیں دے سکتے؟
میں عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے سخت خلاف ہوں کہ آئین یہی کہتا ہے اور آئین ایک جج کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر ایسی کوئی صورتحال کا وہ سامنا کریں تو اس شخص کو عدالت بلالیں ۔آپ کو یاد ہوگا کہ ثاقب نثار جب چیف جسٹس تھے اور پورے ملک میں عدالت لے کر کھلے پھررہے تھے ۔ان سے نہ کوئی اسپتال محفوظ تھا نہ کوئی سرکاری ادارہ اور نہ کوئی تعلیمی ادارہ اس وقت کوئی شخص کسی مقدمے کے سلسلے میں ان کے گھر چلا گیا تھا اور ملاقات کرنا چاہی تھی تو اگلے دن چیف صاحب نے ان کو لاہور میں اپنی عدالت میں بلاکر باقاعدہ ذلیل کیا اور سزا الگ دی تھی ۔لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے ان معزز ججز کے اعمال اس کے خلاف بلکہ متصادم ہیں۔
آپ کویہ بھی یاد ہوگاکہ نومئی کو جب عمران خان صاحب گرفتار ہوئے تو ملک میں تو آگ لگی ہی تھی ۔سپریم کورٹ نے ان کو صرف ایک دن میں ہی پولیس ریمانڈ سے نکال لیا تھا۔اگر دباؤ ڈالنے والے موجود تھے تو بندیال صاحب یاتو بڑے دبنگ تھے یا پھر انہوں نے اس دباؤ کا ذکرکیے بغیر ہی ناکوں چنے چبوادیے ہوں گے۔اسی کیس میں بندیال صاحب نے عمران خان کو پولیس ریمانڈ سے اپنی مرسیڈیز میں بلاکر ریسٹ ہاؤس کا مہمان بنایا اور اسی اسلام آباد ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ وہ پورے دودن وقت کو پیچھے کی طرف موڑ کر خان صاحب کو انصاف دیں۔ خان صاحب اندر تھے ۔جج صاحب نے ان کو ضمانت دی تو باہر پنجاب پولیس موجود تھی ۔عمران خان نے کہا کہ پولیس سے محفوظ بنائیں۔ جج صاحب نے پولیس کا حکم دیا کہ خبردار خان صاحب کو ہاتھ لگایا تو۔ خان صاحب نے پھر کہا کہ میں نے بنی گالا نہیں زمان پارک جانا ہے ۔جج صاحب پھر عدالت میں آئے اور تاریخ میں پہلی بار کسی ملزم کو ان مقدمات میں بھی ضمانت دی جو ابھی درج بھی نہیں ہوئے تھے۔یہ کیسا دباؤ تھا کہ جج صاحب پوری انتظامیہ سے عمران خان کو بچانے کے بلینکٹ احکامات دے رہے تھے اور کسی میں جرات نہ ہوئی کہ عمران خان کو ہاتھ بھی لگاسکے۔ عمران خان نو مئی کے باوجود زمان پارک میں بیٹھے رہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم لاگورہایہاں تک کہ توشہ خانہ میں ان کوسزا ہوئی جس کے بعد ان کو گرفتارکیاگیا۔
دباؤ ہوتا تو دباؤ ڈالنے والے توشہ خانہ میں دی گئی سزا ہی برقراررکھوالیتے لیکن توشہ خانہ کی سزا پہلی پیشی میں ہی معطل کردی گئی ۔عدالت یہی تھی اسلام آباد ہائی کورٹ۔خط لکھنے والوں میں ایک جج بابر ستار بھی ہیں ۔ اسی جج کے سامنے جسٹس ثاقب نثارکے بیٹے کی آڈیولیکس کا کیس آیا جس میں ثاقب نثار کا بیٹا پی ٹی آئی کے ٹکٹس کی سودے بازی اور کروڑوں روپے وصول کرنے کی بات کررہے تھے ۔ دباؤ تو یہ کہتا ہے کہ اس کیس میں ملزم کو سزا ملے لیکن بابر ستار نے اس کیس میں جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کو اسٹے دیا ۔اس کیس میں کرپشن اورلین دین پر کسی کو سزا دینے کی بجائے کیس کا سارا رخ انہی کی طرف موڑدیا جن پر دباؤ کاالزام انہوں نے لگایا ہے۔یہ کیس آج تک آگے نہیں بڑھ سکااور جج صاحب نے ملزم کو بلاکر آج تک نہیں پوچھا کہ کروڑ روپے کس چیز کے وصول کررہے تھے انہوں نے اوپر سے نیچے تک ایجنسیوں کے خلاف کیس بنادیا۔خط لکھنے والوں نے ہی عمران خان سے ملاقات کی ہر درخواست منظورکرکے اڈیالہ جیل کو پکنک سپاٹ بنادیا ۔ دباؤ ڈالنے والے اتنے بے بس تھے کہ عمران خان سے ملاقاتیں نہ رکواسکے؟پھر عمران خان صاحب کو جیل میں جتنا ریلیف اسلام آباد ہائی کورٹ نے دیا ہے کیا وہ کسی دباؤ میں ممکن تھا؟جسٹس بابر ستار شہریارآفریدی کو گرفتارکرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت میں سزا سناچکے ہیں ۔اس کے علاوہ یہی عدالت عمران خان صاحب کونومئی ، القادرٹرسٹ اور کئی دوسرے مقدمات میں ضمانتیں دے چکی ہے اور اس وقت بھی ان کی سزامعطلی کے تین کیسزچل رہے ہیں اور ان تینوں کیسزمیں ان کی سزائیں معطل ہوجائیں گی۔یہ حالات واقعات کے شواہد ہیں جو ججز کے خط میں لکھی گئی باتوں کی نفی میں اشارہ کرتے ہیں بلکہ اس سے تو لگتا ہے دباؤ عمران خان کو سزا دینے کا نہیں بلکہ ان کو ریلیف دینے کاتھا؟خیر جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات میں مزید بہت سی چیزیں سامنے آئیں گی ممکن ہے خط لکھنے والے معزز ججز خط واپس لے لیں۔