لاہور: سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ معیشت کے تمام اشاریے منفی ہیں اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا اس بات کا اعتراف ہےکہ ہم ناکام ہوچکے ہیں، اسی طرح اس معاہدے سے معاشی نمو رک جاتی ہے اور مہنگائی بڑھتی ہے۔
لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے روز سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملک کی معاشی بدحالی کا حوالہ دیا اور کہا کہ آئی ایم ایف آپ کو زندہ رکھتا ہے، ہر اکنامک پیرامیٹر پر آپ زوال پذیر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ بجٹ میں کیا ریلیف ملےگا، آپ نے جو کچھ کریں گے وہ قرضہ لےکر کریں گے، جب تک نظام عدل ٹھیک نہیں ہوگا کہیں سے سرمایہ کاری نہیں آئےگی۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہم آٹا بانٹنا شروع کر دیتے ہیں جس میں 40 فیصد چوری ہوتی ہے، آپ کی انڈسٹری کی گروتھ ہو ہی نہیں سکتی، اگر سیاسی معاملات درست نہیں کریں گے تو یہ مسائل درست نہیں ہوں گے، کسی خام خیالی میں نہ رہیں کیونکہ تمام چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر دعوے کرتے ہیں، ان دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں، آئی ایم ایف کے پاس جانا اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم ناکام ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے سے گروتھ رک جاتی ہے اور مہنگائی بڑھتی ہے، ہم نالائق ہیں اپنے معاملات خود حل نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ہمارے لیے آئی سی یو ہے، 24 ویں بار آئی سی یو جا رہے ہیں، اس سے مرض ٹھیک نہیں ہوگا، ایک ڈالر کی امداد دکھائیں جس سے کوئی چیز بنائی اور برآمد کی ہو۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ بیرونی سے بڑا مسئلہ اندرونی قرض بن گیا ہے، اس وقت ہر اکنامک پوائنٹ پر ہم نیچے جا رہے ہیں، سنا ہے اس بار آئی ایم ایف ٹارگٹ بیسڈ فنڈز جاری کرے گا۔
ملک میں سبز پرچم میں لپٹی آمریت ہے، اخترمینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنما اختر مینگل نے کہا پچھلی بار میری وجہ سے روزگار افراد بے روزگار ہوگئے تھے ،اس ملک میں نہ مارشل لاء ہے نہ ہی آمریت ہے مگر سر سبز پرچم میں لپیٹی آمریت تو ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 75 سال ہوگئے ہم نے یہ طے نہیں پایا کہ بات کس سے کرنی ہے، آج پاکستان کی تمام پارٹیاں قوم پرست ہیں، مسلم لیگ ن جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگانے والی ہے، پیپلز پارٹی سندھ کی پارٹی ہے، امین گنڈا پور کی باتوں سے ظاہر ہوا ان کی جماعت خیبرپختونخوا (کے پی) کی قوم پرست پارٹی بن گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آنے والوں دن میں این ار او کے ذریعے ریلیف ملے گا، اگر 12 مئی کے واقعات کو نظر انداز کیا جا سکتا تو 9 مئی کے واقعات کو بھی کیا جاسکتا ہے، ہمارے بچوں کو اسلام آباد میں پر امن احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اخترمینگل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم مسنگ پرسنز پر بات کرنے کے لیے با اختیار لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں، میں پاکستان کی پارلیمان جوڈیشل اور سیاسی جماعتوں سے ناامید ہوگیا ہوں، بات چیت کے لیے متاثرین کی بات تو سننی چاہیے، بلوچستان والوں کو تواپنا مؤقف بیان کرنے کا حق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا 8 فروری کے الیکشن میں غزہ ہندہ یا کشمیر فتح کیا نعرہ نہیں لگایا تھا، بات کا تو حق ریاست سے ہوتا ہے، ریاست پارلیمان، عدلیہ اور آئین کے اداروں سے مکمل ہوتی ہے، جب تک بلوچستان کے سیاسی لوگوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا بات آگے نہیں بڑھے گی۔