آج ہم بے شمار مصائب، آلام اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ ایک مصیبت و آزمائش ختم ہوتی ہے تو دوسری مصیبت و آزمائش اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ ان حالات میں ہم جب گرد و نواح میں بسنے والی انسانیت کو تڑپتے، سسکتے اور بے بسی و بے کسی کے عالم میں دیکھتے ہیں تو خوف، دہشت اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان مصائب و آلام اور پریشانیوں کا سبب کیا ہے۔۔۔؟
قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی (کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوری)
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالی نے ہمیں ان مصائب و آلام کے سبب کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ہم اپنی بداعمالیوں کے نتیجے میں اپنے اوپر مصیبت مسلط کرلیتے ہیں۔ اﷲ رب العزت تو رحیم و کریم اور عفو و درگزر کرنے والا ہے، وہ یہ نہیں چاہتا کہ میرا بندہ مصائب اور تکالیف کا شکار ہو، اسی لیے مذکورہ آیت کریمہ میں اس نے واضح کردیا کہ وہ ہماری کئی نافرمانیوں، گناہوں اور غفلتوں کو معاف فرما دیتا ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی جو گناہ بچ جاتے ہیں، ان کے سبب یہ سارے مصائب اور تکالیف آتی ہیں۔
اﷲ رب العزت نے قرآن مجید اور حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ہمیں ان مصائب، آزمائشوں اور پریشانیوں سے نکلنے کے لیے قوانین اور ضوابط کا ایک جامع حل دیا ہے، تاکہ ہم اس پر عمل پیرا ہو کر اﷲ کے مطیع اور فرماں بردار بن جائیں اور ان آزمائشوں اور مصائب سے بچ سکیں۔
حضرت ثوبانؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ رب العزت کی اطاعت اور فرماں برداری، اس کے احکام کی بجا آوری، اوامر و نواہی کی پابندی، اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے اور نیک کاموں سے عمر بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دعا کرنے سے تقدیریں ٹل جاتی ہیں اور بے شک! آدمی اپنے کسی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
آپؐ نے تنگی رزق کے مسئلے کو حل فرما دیا اور واضح کردیا کہ رزق کی کشادگی اطاعت میں پنہاں ہے۔ گویا جب گناہ بڑھتے ہیں تو رزق محدود ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ گناہوں اور نافرمانیوں کے اثرات تو اس قدر ہیں کہ اس سے انسان کا حافظہ بھی کم زور ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جو چیز یاد کرتے ہیں، بھول جاتی ہے۔
ہمارے گناہ بڑھنے کے سبب ہماری عمر اور ہمارا رزق کم ہوتا چلا جاتا ہے، بہ جائے اس کے کہ ہم اپنے اعمال و احوال پر غور کریں اور ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں، ہم اﷲ کے حضور شکوہ و شکایت کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ تمام مصائب و آلام اور پریشانیاں میرے لیے کیوں ہیں جب کہ میں تیری عبادت و اطاعت بھی کرتا ہوں۔ اس حوالے سے اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ رب تو کریم اور رؤف و رحیم ہے، وہ تو مخلوق کو پالنے والا اور رب العالمین ہے، وہ ہمارا رزق کیوں محدود کرے گا؟
ہمیں اس جانب متوجہ ہونا ہوگا کہ ہمارے عمل، اطاعت اور عبادت و تقوی میں کمی کے سبب ہم اﷲ کی نگاہِ کرم سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہم اپنی طرف دیکھنے کی بہ جائے شکوے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں چاہیے کہ ان حالات میں شکوہ و شکایت کے بہ جائے اپنے اعمال و احوال کی اصلاح کریں اور صبر کے ساتھ اﷲ سے مدد مانگیں۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)
ہم نے خدا کے حضور جھک کر اس کو منانا تھا، آنکھوں کو اشک بار کر کے، اپنی پیشانیوں کو اس کے حضور جھکا کر اور اپنے قلوب کو متواضع کر کے اس کے حضور پیش ہونا تھا، لیکن افسوس کہ ہم نے شکوے اور شکایت سے اس کی ساری رحمت کا رخ اپنی طرف سے پھیر دیا۔
مصائب اور پریشانیوں کے حل کے لیے اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مواقع پر ہماری راہ نمائی فرمائی۔ ان مقامات میں سے ایک مقام پر اﷲ تعالی نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور بُرے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔ اور تم اﷲ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالاں کہ تم اﷲ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو، بے شک! اﷲ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘ (سورۃ النحل)
اس فرمانِ الٰہی میں پریشانیوں اور مصائب کے حل کا ایک مکمل طریقہ موجود ہے۔ اس کی روشنی میں ہم یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ اس کے فرامین کیا ہیں اور اس حوالے سے ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟ اگر ہم اﷲ تعالی کے لطف، عطا، کرم اور اس کے جود و سخا سے حصہ لینا چاہتے ہیں تو ان آیات میں مذکور درج ذیل احکام پر عمل کرنا ہوگا۔
عدل و انصاف کا قیام:
اﷲ تعالی ہمیں معاشرے میں عدل، مساوات اور انصاف قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر عدل کا فقدان ہوگا تو رحمت کا بھی فقدان ہوگا۔ جس طرح گناہ کی زیادتی سے عمر اور رزق کم ہوجاتا ہے اور اﷲ کے لطف و عطا کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، اسی طرح عدل و انصاف کے نہ ہونے کے سبب بھی رحمت سے محرومی مقدر بنتی ہے۔ انسانی معاشرے میں قانون اور نظام عدل کے لازمی نفاذ کے بغیر غلامی، ظلم و ستم، جبر و طاغوت اور استحصال پر مبنی نظام ختم نہیں ہو سکتا۔ اگر معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو اﷲ رب العزت کے حکم کے مطابق یہاں عدل و انصاف کو ہر قدم پر رواج دینا ہوگا اور عدل، انصاف اور مساوات کے قوانین کو غلامی سے بچانا ہوگا۔
لغت میں عدل کا معنی یہ ہے : ’’ہر شے کو اس کے محل (مقام) پر رکھنا عدل ہے۔‘‘
یعنی ظالم کو کٹہرے میں ہونا چاہیے۔ مظلوم کی داد رسی ہونا چاہیے۔
عدل کے حوالے سے ہم محدود تصور کا شکار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف عدالتیں ہی عدل و انصاف دینے کی پابند ہیں، ایسا نہیں ہے۔ معاشرے کے ہر طبقہ اور ہر فرد کو اپنی حیثیت میں اور اپنے مقام پر ہر صورت عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہوگا۔ جس کا جو کام اور ذمہ داری ہے، وہ اس کام کو کماحقہ سرانجام دے۔ جن کا کام تعلیم و تربیت دینا ہے، وہ اپنے اس منصب سے انصاف کریں، جنہیں منصف کے عہدہ پر بٹھایا گیا ہے، وہ کسی بھی صورت عدل و انصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ حاکم اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے عدل و انصاف سے کام لیں۔ اسی طرح والدین، طلبہ، تاجر اور معاشرے کا ہر طبقہ اگر اپنی ذمے داریوں کے عین مطابق اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے تو اس کا یہ عمل اپنی ذمے داریوں کے ساتھ عدل و انصاف ہوگا۔
حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ وہ کم زوروں پر تو حد قائم کرتے لیکن بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ طاقت وروں اور مال داروں کو ان کے ظلم کے باوجود بچانا اور انہیں سزا نہ دینا، یہ آج کی بات نہیں ہے بل کہ اس دور میں بھی جب کوئی طاقت ور اور ظالم پکڑا جاتا تو اس کو بچانے والا کوئی سفارشی آ جاتا اور اسے بچا کر لے جاتا جب کہ اگر کوئی غریب پکڑا جاتا، جس کے ساتھ کسی کے مفادات نہ ہوتے اور جس کا کوئی سفارشی نہ ہوتا تو اس پر حد نافذ کردیتے۔ جس معاشرے میں ایسا عدل و انصاف ہوگا، جس کی مثال حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے قول و عمل سے قائم فرمائی، وہاں لوگوں میں رزق کی فراوانی ہوگی اور معاشرہ امن، سکون اور خوش حالی کا گہوارہ ہوگا۔
پیکرِ احسان ہونا:
مصائب اور پریشانیوں کا دوسرا حل احسان کرنا ہے۔ اﷲ رب العزت نے احسان کو قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے۔ مفہوم:
’’بے شک! اﷲ تعالی محسنین سے محبت فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)
’’احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘
(سورۃ الرحمن)
عرف عام میں احسان بھلائی کو کہتے ہیں۔ اﷲ رب العزت فرما رہا ہے کہ مجھے وہ لوگ پسند ہیں جو پیکرِ بھلائی ہیں اور جن کا وجود، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور سننا دیکھنا تک بھلائی ہوجاتا ہے۔ گویا پیکرِ احسان اور محسن وہ شخص ہوتا ہے جس سے کسی کو نقصان، ظلم اور تکلیف نہیں پہنچتی۔ وہ سراسر پیکرِ رحمت ہوتا ہے۔
صلۂ رحمی:
مصائب و پریشانیوں کا تیسرا حل اﷲ تعالی نے قریبی رشتہ داروں کو ان کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے، جو انسان کو مصائب سے نجات دلاتا ہے۔ جس معاشرے میں صلۂ رحمی ختم ہو جائے اور خونیں رشتے داروں کے ساتھ قطع رحمی کے معاملات شروع ہو جائیں تو وہاں اﷲ کی رحمت کا نزول بند ہو جاتا ہے اور لوگ مصیبت اور ابتلا میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
رسول کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی آئے اور اس کی عمر میں برکت آئے تو وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الادب)
حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان کے ذریعے رزق بڑھنے، عمر میں اضافے اور خیر آنے کا ایک کلیہ عطا کردیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس فرمانِ نبویؐ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے صلۂ رحمی کو اپنے اخلاق اور کردار کا حصہ بنالیں اور اپنے تمام خونیں رشتے داروں کے ساتھ ہر قسم کی ناراضی کو ختم کردیں۔ جن کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو ان سے معافی مانگیں اور اگر ان کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی ہے، تو انہیں معاف کردیں۔ رزق میں کشادگی، خیر اور رحمت کی ضمانت کو صلہ رحمی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تقوی اور صلۂ رحمی کی صورت میں مصائب کے حل کا نسخہ عطا فرمایا ہے۔
اﷲ رب العزت ہمیں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین