خیبرپختونخوا پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے پشاور پولیس لائنز کی مسجد پر خودکش حملے کے مرکزی سہولت کار پولیس کانسٹیبل محمد ولی عرف عمر کو رنگ روڈ جمیل چوک سے 2 خودکش جیکٹس سمیت گرفتار کرلیا۔
ڈان نیوز کے مطابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبرپختونخوا پولیس اختر حیات نے ملزم کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ فتنہ الخوارج کی ذیلی تنظیم کالعدم جماعت الحرار خودکش حملے میں ملوث نکلی۔
واضح رہے کہ 30 جنوری 2023 کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں 86 پولیس اہلکار شہید اور 150 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
آئی جی خیبرپختونخوا پولیس اختر حیات نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم محمد ولی ولد باز میر خان، دلہ زاک روڈ پشاور کا رہائشی ہے اور 31 دسمبر 2019 کو پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔
’جماعت الاحرار کے ہینڈلر جنید نے ولی محمد سے فیس بک پر رابطہ کیا‘
انہوں نے بتایا کہ 2021 میں محمد ولی کا کالعدم جماعت الاحرار کے دہشت گرد جنید سے فیس بک پر رابطہ ہوا جس نے اس کی ذہن سازی کی، جس کے بعد ملزم نے جماعت الاحرار میں شمولیت کا ارادہ کیا۔
آئی جی نے مزید بتایا کہ ملزم اہلکار فروری 2021 میں چھٹی لے کر براستہ کوئٹہ، چمن یا افغانستان گیا جہاں جلال آباد میں اس کی جنید سے ملاقات ہوئی جہاں سے وہ جماعت الاحرار کے شونکڑائے مرکز گیا، اس کی کمانڈر صلاح الدین اور مکرم خراسانی سے ملاقاتیں ہوئیں جہاں اس نے باقاعدہ طور پر جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کی اور ملا یوسف کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسے 20 ہزار روپے دیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم محمد ولی کو افغانستان سے واپسی پر افغان فورسز نے گرفتار بھی کیا اور پھر سہولت کار جنید کی مداخلت پر اسے رہا کردیا گیا، آئی جی بتایا کہ 2023 کے اوائل میں خودکش حملہ ہوا تو اس کی ڈیوٹی پشاور پولیس لائنز ہی میں تھی، سہولت کار جنید نے اسے بتایا کہ ہمیں خالد خراسانی کی افغانستان میں ہونے والی موت کا بدلہ لینا ہے اور کچھ بڑا کام کرنا ہے۔
آئی جی خیبرپختونخوا نے بتایا کہ جنوری 2023 میں ملزم نے پولیس لائنز کی تصاویر اور نقشہ بذریعہ ٹیلی گرام جماعت الاحرار تک پہنچایا، 20 جنوری 2023 کو ہینڈلر جنید نے ملزم سے رابطہ کرکے چرسیان مسجد باڑا، خیبر ایجنسی سے ایک شخص کو لانے کی ہدایت کی جس نے خودکش حملہ کرنا تھا، ملزم اس شخص کو لے کر آیا اور پولیس لائنز کی ریکی کروائی۔
آئی جی نے بتایا کہ خودکش بمبار نے 27 جنوری کو خودکش حملے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں کر سکا اور واپس چلا گیا جس کے بعد ملزم محمد ولی نے دوبارہ خودکش بمبار کی ذہن سازی کی اور اسے چرسیاں مسجد باڑا سے واپس لایا، اسے پولیس کی وردی اور ہیلمٹ مہیا کی اور پشاور کے قریب پیر زکوڑی پُل کے قریب چھوڑ کر گھر چلا گیا۔
اختر حیات نے مزید بتایا کہ خودکش حملے کے بعد ملزم محمد ولی نے کامیابی اطلاع بھی اپنے ہینڈلر جنید کو بذریعہ ٹیلی گرام دی، انہوں نے بتایا کہ اس پوری کارروائی کے لیے ملزم محمد ولی کو 2 لاکھ روپے دیے گئے اور اس نے فی کس 2 ہزار روپے اپنے ہی 100 بھائیوں کی جان لی، انہوں نے بتایا کہ واقعے میں 250 لوگ زخمی ہوئے جن میں سے کئی کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
آئی جی نے مزید بتایا کہ ملزم کو تمام رقم بذریعہ حوالہ اور ہنڈی مہیا کی گئی جو اس نے چوک یادگار سے وصول کی، ملزم نے بعدازاں اپنی پوسٹنگ بی آر ٹی میں کروالی تھی۔
ملزم محمد ولی کون کون سی وارداتوں میں ملوث رہا؟
آئی جی نے مزید بتایا کہ ملزم محمد ولی کی ظلم کی داستان صرف پولیس لائنز دھماکے تک محدود نہیں ہے، اس نے جنوری 2022 میں رنگ روڈ جمیل چوک میں چرچ کے ایک پادری کو قتل کیا تھا، اس کے علاوہ پشاور میں اس نے 11 ستمبر، 5 دسمبر 2023 اور 10 مارچ 2024 کو وارسک روڈ پر پھٹنے والی آئی ڈیز اس نے پہنچائی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم نے دسمبر 2023 گیلانی مارکیٹ دلہ زاک روڈ پر دستی بم حملہ کیا، فروری 2024 میں اس نے لاہور میں اپنے جماعت الاحرار کے ساتھی سیف اللہ کو ایک پستول دیا جس سے نے ایک قادیانی کو قتل کیا، مارچ 2024 میں اس نے لاہور میں فیضان بٹ نامی لڑکے کو پستول دیا تھا جس نے 2 پولیس اہلکاروں کو شہید کیا تھا۔
’جماعت الاحرار بذریعہ حوالہ ہنڈی ماہانہ 40 ہزار روپے دیتی رہی‘
آئی جی نے مزید بتایا کہ ملزم نے پولیس یونیفارم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی مقامات پر اسلحہ اور آئی ڈیز پہنچائیں، ملزم جماعت الاحرار سے بذریعہ ہنڈی حوالہ ماہانہ 40 سے 50 ہزار روپے ملتے تھے، پریس کانفرنس کے دوران آئی جی نے ملزم کا اعترافی بیان بھی نشر کیا۔
ملزم کی گرفتاری میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے آئی جی نے کہا کہ دہشت گردوں کا سیل جتنا زیادہ بڑا ہوتا ہے اس کے بےنقاب ہونے کا امکان اتنا زیادہ ہوتا ہے، ملزم محمد ولی کی اتنے عرصے چھپے رہنے کی وجہ یہی تھی کہ یہ گھوسٹ بن کر کام کر رہا تھا اور پولیس میں اس کا مزید کوئی سہولت کار نہیں تھا، اس وجہ سے اس تک پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔
آئی جی خیبرپختونخوا نے ایک سوال پر بتایا کہ پولیس میں بھرتی کے وقت اہلکاروں کو نفسیاتی معائنہ اور اسپیشل برانچ کے ذریعے خاندانی پس منظر معلوم کیا جاتا ہے، دوران ملازمت بھی ترقی کے موقع پر جانچ پڑتال ہوتی ہے لیکن یہ اہلکار ابھی کانسٹیبل تھا اور بھرتی کے وقت نارمل حالت میں تھا بعد میں اس کی ذہن سازی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ بحیثیت معاشرہ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ دہشت گرد کس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کرتے ہیں، پی ٹی اے نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے، بہت سارے یوآر ایل ہم بلاک کرواتے ہیں مگر یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے، ہماری یہ کوشش ہے کہ جس مواد سے لوگوں کو شدت پسند بنایا جاتا ہے وہ سوشل میڈیا پر دستیاب نہ ہو۔