سلمان خان کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش،2افراد گرفتار

مہاراشٹر: بالی ووڈ کے دبنگ اسٹار سلمان خان کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مہاراشٹر کے شہر پنویل میں واقع سلمان خان کے فارم ہاؤس سے دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے چُھپکے سے درخت پر چڑھ کر فارم ہاؤس کے اندر گھسنے کی کوشش کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرفتار ہونے والے دونوں افراد نے پولیس کو اپنے فرضی نام اجیش کمار اوم پرکاش گل اور گروسیواک سنگھ تیجسنگ بتائے جبکہ ان دونوں افراد کے پاس سے جعلی آدھار کارڈ (شناختی کارڈ) بھی برآمد ہوئے ہیں۔
پولیس نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ دونوں افراد کا تعلق بھارت کی مختلف ریاستوں سے ہے، پولیس نے اُنہیں حراست میں لیکر دونوں افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔

ابتدائی تفتیش کے مطابق دونوں افراد نے پولیس کو بتایا کہ وہ سلمان خان کے مداح ہیں اور وہ اداکار سے ملنا چاہتے تھے، اسی وجہ سے فارم ہاؤس میں گھسنے کی کوشش کی۔

کاغذات نامزدگی منظوری کیلیے پرویز الہیٰ اور ان کی اہلیہ کی اپیلیں مسترد

 راولپنڈی: سابق وزیر اعلی پرویز الہیٰ کی این اے 59 اور پی پی 23 سے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں مسترد ہوگئیں۔ایکسپریس نیوز کے مطابق ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل کے جج چوہدری عبدالعزیز نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا، جج نے ریٹرننگ آفیسر کا پرویز الہیٰ کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے اور نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ان کی دائرہ کردہ اپیلیں مسترد کردیں۔پرویز الٰہی کی اہلیہ قیصرہ الہیٰ بھی این اے 59 اور پی پی 23 سے نااہل قرار پائی ہیں، دونوں میاں بیوی پر اثاثہ جات چھپانے، اہلیہ کے غیر ملکی دورے ظاہر نہ کرنے کا اعتراض ثابت ہوا ہے۔ ان پر گوشواروں اور مختلف کمپنیز میں شئیرز ظاہر نہ کرنے کا اعتراض بھی درست قرار پایا۔الیکشن ٹریبونل نے کے مطابق دونوں حلقوں کے لیے الگ الگ اخراجات کے بینک اکاؤنٹس بھی نہ کھولنے کا اعتراض درست قرار پایا ہے، ڈاکیومنٹس میں ٹیکنیکل غلطیوں، اوتھ کمشنر سے پراپر تصدیق بھی نہکرانے کا اعتراض درست قرار پایا ہے۔

5 دہائیوں بعد چاند پر اترنے کے لیے پہلا امریکی خلائی مشن روانہ

50 سال سے زائد عرصے بعد پہلی بار ایسا امریکی خلائی مشن روانہ کیا گیا ہے جو چاند پر اترے گا۔

یہ مشن امریکا کے سرکاری خلائی ادارے ناسا کی بجائے نجی کمپنیوں نے روانہ کیا ہے۔

یونائیٹڈ لانچ الائنس نامی کمپنی کے راکٹ والکن کے ذریعے ایک اور کمپنی آسٹرو بائیوٹک ٹیکنالوجی کے لینڈر کو فلوریڈا سے لانچ کیا گیا۔

اس راکٹ نے اسپیس کرافٹ کو چاند کی جانب روانہ کیا جو 23 فروری کو وہاں لینڈ کرنے کی کوشش کرے گا۔

آسٹرو بائیوٹک چاند پر کامیابی سے مشن لینڈ کرانے والی پہلی نجی کمپنی بننے کی خواہشمند ہے۔

اب تک صرف 4 ممالک ایسا کرسکے ہیں جن میں امریکا، روس، چین اور بھارت شامل ہیں۔

یہ 1972 کے بعد امریکا کا پہلا مشن ہے جو چاند پر اترنے کی کوشش کرے گا۔

ناسا کی جانب سے ان دونوں کمپنیوں کو کروڑوں ڈالرز فراہم کیے گئے تھے اور اس کا مقصد چاند پر امریکی موجودگی کا احساس دلانا ہے، کیونکہ دیگر ممالک کی جانب سے اس حوالے سے 2023 میں کافی کام کیا گیا ہے۔

آسٹرو بائیوٹک کا چاند پر اترنے والا لینڈر / اے ایف پی فوٹو
آسٹرو بائیوٹک کا چاند پر اترنے والا لینڈر / اے ایف پی فوٹو

امریکی خلائی ادارے کو توقع ہے کہ اس مشن سے ناسا کی چاند کی کھوج کی کوششوں کو نئی زندگی ملے گی۔

واضح رہے کہ ناسا کی جانب سے 2025 میں آرٹیمس 3 مشن کے ذریعے انسانوں کو چاند پر پہنچایا جائے گا۔

والکن راکٹ کی یہ ابتدائی آزمائشی پرواز بھی ہے جو کافی عرصے سے تاخیر کا شکار تھی۔

فروری میں اسپیس ایکس کی جانب سے ایک نجی کمپنی کے لینڈر کو ایک ہفتے کے اندر چاند پر لینڈ کرانے کی کوشش کی جائے گی۔

آسٹرو بائیوٹک کے لینڈر میں متعدد چیزیں موجود ہیں جیسے ماؤنٹ ایورسٹ کے چٹانی ٹکڑے، کھلونا گاڑیاں اور مختلف افراد کی راکھ اور ڈی این اے وغیرہ۔

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے باجوڑ میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر دہشت گرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت

نگراں وزیراعظم نے دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کو دعا دی اور ان کے اہل خانہ سے اظہارِ تعزیت کی۔ انہوں نے حملے میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا اور انہیں ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔

اپنے بیان میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پوری قوم سیکیورٹی اہلکاروں اور پولیو ورکرز کو سلام پیش کرتی ہے، دہشت گرد کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ملک سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے تک انسداد پولیو مہم بھرپور طریقے سے جاری رہے گی اور عوام پولیو ویکسین کے حوالے سے کسی بھی منفی پروپیگنڈے کے دھوکے میں نہ آئیں، جامعہ الازہر اور دنیا بھر کے علماء کرام پولیو کے انسداد کے پروگرام کی توثیق کر چکے ہیں۔

گجرات مسلم کش فسادات؛بلقیس بانو اجتماعی زیادتی کے مجرموں کی رہائی کالعدم

نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران 5 ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے اور ان کے اہل خانہ کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 جنونی ہندوؤں کی قبل از وقت رہائی کو کالعدم قرار دیدیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اجتماعی زیادتی کیس میں مسلم خاتون بلقیس بانو کی سپریم کورٹ میں بالآخر سنوائی ہوگئی۔ عدالت نے 11 مجرموں کو حکم دیا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر گجرات جیل جاکر خود کو پولیس کے حوالے کریں۔

ان 11 مجرمان نے 2002 میں گجرات مسلم کش فسادات میں 5 ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور خاتون سے لپٹی 3 سالہ بیٹی کو زمین پر پٹخ کر قتل کردیا تھا۔
ان سفاک حملہ آوروں نے 14 افراد کو قتل بھی کیا جن میں سے 9 بلقیس بانو کے رشتہ دار تھے۔ یہ سفاکیت اس وقت کی گئی تھی جب گجرات میں نریندر مودی وزیراعلیٰ تھے اور ان فسادات کی وجہ سے دنیا بھر میں گجرات کے قصاب کے نام سے شہرت پائی تھی۔

2008 کے اوائل میں بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور دیگر 14 کے قتل کیس میں ان 11 مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم 15 سال قید کاٹنے کے بعد ایک مجرم نے گزشتہ برس 1992 معافی پالیسی کے تحت رہائی کے لیے نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی۔

گجرات مسلم کش فسادات کے وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی اب ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں۔ جن کی آشیرباد کی وجہ سے اجتماعی زیادتی کیس کے ایک مجرم کی درخواست کو قبول کرلیا گیا۔

درخواست پر گجرات حکومت نے تمام مجرموں کو گزشتہ برس بھارت کے یوم آزادی یعنی 15 اگست پر رہا کردیا تھا۔

بلقیس بانو نے ان مجرموں کی رہائی کو دل چیر دینے والا دکھ قرار دیتے ہوئے رہائی کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

جس پر آج سپریم کورٹ نے ان مجرموں کی رہائی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ جیل میں بند کرنے کا حکم سنا دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ گجرات حکومت کے پاس ان مجرموں کی سزا کم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کی جانب سے پیش ہونے والی وکیل ورندا گروور نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ ایک اہم فیصلہ ہے جس نے قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا۔

لاہور: نومئی کے 282 اشتہاریوں کیخلاف ایک بار پھر کریک ڈاؤن کا آغاز

لاہور: پولیس نے نو مئی کے گرفتار نہ ہونے والے 282 اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے ایک بار پھر کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا۔

سانحہ نو مئی کے اشتہاری اور دیگر ملزمان کے خلاف ایک بار پھر کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا، لاہور پولیس کی آپریشنز اور انویسٹی گیشن ونگ ٹیموں کو ٹاسک سونپ دیا گیا۔

پولیس کے مطابق نو مئی کے واقعات پر لاہور میں 14 مقدمات دہشت گردی اور 49 مقدمات دیگر سنگین دفعات کے تحت درج ہوئے، لاہور پولیس نے 1035 ملزمان دہشت گردی کے مقدمات جبکہ 884 ملزمان دیگر مقدمات میں گرفتار کیے تھے، دہشت گردی کے مقدمات میں اب تک جیلوں میں 741 ملزمان جوڈیشل ہوئے جب کہ دیگر مقدمات میں 318 ملزمان کو حوالات جوڈیشل میں رکھا گیا۔

پولیس کے مطابق باقی تمام ملزمان ضمانتوں پر ہیں یا مقدمات سے ڈسچارج کیے گئے لاہور پولیس نے ان مقدمات میں اب تک گرفتار نہ ہو پانے والے ملزمان کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا ہے۔

لاہور پولیس کے حکام کے مطابق اب تک کی تحقیقات میں مزید 382 ملزمان کی گرفتاری مطلوب ہے جن کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی ملاقات

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی ملاقات

ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال

علی امین گنڈاپور کی کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل منظور

پشاور کے الیکشن ٹریبونل نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈاپور کی کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل منظور کرلی ہے۔

علی امین گنڈا پور کے وکیل کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما اب قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹریبنول نے مختصر فیصلہ سنا دیا ہے، آرڈر کی کاپی کچھ دیر میں مل جائے گی۔

وادی زیارت میں برفباری سے سردی کی شدت میں اضافہ

 کوئٹہ: وادی زیارت و گردنواں میں برفباری کا سلسلہ جاری ہے جبکہ برفباری کی وجہ سے سردی کی شدت میں بھی کافی اضافہ ہوگیا ہے۔

شہر میں 4 انچ جبکہ پہاڈوں پر 6 انچ کے قریب برف پڑ چکی ہے۔

برفباری کے باعث زیارت شہر پہاڑوں نے دلکش مناظر پیش کرنا شروع کر دیے ہیں۔ برفباری کے اس حسین مناظر سے مقامی لوگ اور سیاح خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب، کوئٹہ شہر اور گردونواح میں بھی رات گئے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ قلعہ عبداللہ، چمن، پشین، مستونگ، قلات اور سوراب میں بھی وقفے وقفے سے بارش جاری ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے این 50 قومی شاہراہ کان مہترزئی، مسلم باغ سیکشن پر برفباری ہٹانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ این ایچ اے کے مطابق این 50قومی شاہراہ پر ٹریفک معمول کے مطابق جاری ہے۔

ذولفقار علی بھٹو نے بذاتِ خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی، عدالتی معاون

سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔

بنچ میں جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں، جبکہ کیس کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

سماعت شروع ہوئی تو سینیٹر رضا ربانی روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟

 

 

رضا ربانی نے جواباً کہا کہ میں عدالتی معاون نہیں لیکن بختاور اور آصفہ کا وکیل ہوں، ہم نے کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کرائی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہوگیا، اس درخواست کو دیکھتے ہیں۔

اس کے بعد عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین احمد روسٹرم پر آگئے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ورثاء کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میرے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے بھٹو کیس میں وکیل تھے، اگر میرے اوپر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں آپ فئیر ہیں اس کا یقین سب کو ہے۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے عدالت کو کہا کہ ہم نے کچھ متعلقہ مواد جمع کرایا ہے۔

اس کے بعد احمد رضا قصوری روسٹرم پر آٸے تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔ پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پراعتراض ہے تو لکھ لیں۔

عدالتی معاون احمد رضا قصوری نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں سارا واقعہ لکھا ہے۔

چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری سے مکالمے میں کہا کہ آپ متعلقہ حصہ ڈھونڈ لیں، عدالتی وقت ضائع نہ کریں۔

احمد رضا قصوری نے کہا کہ کتاب میں جو لکھا گیا، اگر ان پر دباؤ تھا تو استعفی دے دیتے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں جو پڑھنا ہے پڑھ لیں۔

احمد رضا قصوری نے کہا کہ اگر کسی جج پر کوٸی دباؤ تھا تو اسے بنچ سے الگ ہوجانا چاہیے تھا، کیا کسی کے دباؤ میں آکر کوٸی کسی ملزم کو موت کی سزا دے سکتا ہے؟

اس کے بعد عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بتایا کہ اس صدارتی ریفرنس میں چار سوالات پوچھے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے پہلے آپ آئین کا آرٹیکل 186 پڑھیں جس کے تحت یہ ریفرنس بھیجا گیا، کیا ہمارے پاس صدارتی ریفرنس کو نہ سننے کا آپشن ہے؟

جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آئینی طور پر تو عدالت کے پاس ریفرنس پر رائے دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، مگر صدارتی ریفرنس میں پوچھا گیا سوال مبہم ہو تو عدالت کے پاس دوسرا آپشن موجود ہوگا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت کی رائے ہو کہ سوال مبہم ہے تو بھی عدالت کے پاس آپشن رائے دینا ہی ہوگا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے یہ ایک منفرد کیس ہے، چیف جسٹس نے اسی کیس میں ایک انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ بھی طلب کر رکھا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی طور پر اس ریفرینس کی بنیاد سابق جج نسیم حسن شاہ کا انٹرویو ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ مجھے بھیجا گیا جو وقت کی کمی کے باعث میں نہیں پڑھ سکا۔

اس کے بعد مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کو رحم کی اپیل کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ ذولفقار علی بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا، عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے۔

جس پر بینچ میں شامل جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر اس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہو گا؟

اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دئے کہ ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں۔

چیف جسٹس کی اسٹاف کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بنچ میں دیگر ججز بھی تھے، کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں؟

انہوں نے مزید کہا کہ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کر تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بھی بتا دیں بھٹو ریفرنس میں آخر قانونی سوال پوچھا کیا گیا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا پورا انٹرویو نہیں سن سکتے متعلقہ پارٹ لگا دیں۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے جو سی ڈی جمع کرائی اس میں صرف وہی حصہ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق ہے۔

اس کے بعد عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی جانب سے جمع کرائی گئی سی ڈی لگانے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستگی دیکھ رہی ہے، عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واحد نکتہ یہی ہے اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بنچ آزاد نہیں تھا؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کے بارے یہ تاثر نہیں دیا جاسکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی، دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظرانداز نہیں کرسکتے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں بنچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے، ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحب کا یہ انٹرویو کب لیا گیا؟ نوٹ کرلیں 3 دسمبر 2003 کو یہ انٹرویو چلایا گیا۔

ویڈیو دیکھنے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ناٸیک صاحب آپ نے جو ویڈیو فراہم کی وہ غیر متعلقہ ہے، پریشر والی بات کا آپ کی ویڈیو میں کہیں ذکر نہیں۔

جس پر فارق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ انٹرویو یوٹیوب سے ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔

عدالت نے جیو ٹی وی کی فراہم کردہ ویڈیو کی کاپی فاروق ایچ ناٸیک کو دینے کی ہدایت کردی۔

معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس میں سپریم کورٹ قصور وار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور اس وقت کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر؟

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میری نظر میں ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے، اسٹگما (کلنک) ایک خاندان پر نہیں لگا بلکہ اداروں پر بھی لگ چکا ہے۔

جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ نے بالکل درست بات کی ہے۔

چیف جسٹس نے معاون مخدوم علی خان کو کہا کہ آپ تحریری معروضات بھی جمع کرا دیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس کو انتخابات کے بعد نہ رکھ لیں؟ کیا ہم اگلی سماعت عام انتخابات کے بعد کریں؟

جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن سے قبل سماعت دوبارہ ہو، جتنی جلد ہو سکے عدالت دوبارہ سماعت کرے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ناٸیک صاحب پہلے ہی دو الیکشنز گزر چکے ہیں۔