بنگلہ دیش؛ متنازع الیکشن میں وزیراعظم حسینہ واجد پانچویں بار کامیاب

ڈھاکا: بنگلہ دیش میں ہونے والے متنازع عام انتخابات میں حکمراں جماعت عوامی لیگ نے مسلسل پانچویں مرتبہ کامیابی حاصل کرلی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ اور اتحادیوں نے پارلیمنٹ کی 300 میں سے 223 نشستیں جیت لیں جبکہ آزاد امیدواروں نے 63 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور جاتیہ پارٹی 11 نشستیں لے سکی۔

جیتنے والے یہ آزاد امیدوار بھی عوامی لیگ کے ہی وہ رہنما ہیں جنہیں پارٹی سے ٹکٹ نہیں ملا تھا اور حسینہ واجد نے ان سے کہا تھا کہ وہ “ڈمی امیدوار” کے طور پر کھڑے ہوں تاکہ اس الیکشن کو عالمی برادری کے سامنے شفاف دکھایا جا سکے۔

یوں حسینہ واجد کے مزید پانچ سال وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ سرکاری دعوؤں کے مطابق بھی ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 40 فیصد رہا۔ لیکن ووٹر کے بغیر خالی پولنگ اسٹیشنز کی تصاویر سامنے آنے پر ناقدین اس دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔

دارالحکومت ڈھاکا کے علاقے دھامنڈی کے ایک انجینئر عبداللہ یوسف نے الجزیرہ کو بتایا “میں ملک کے باقی حصوں کے بارے میں نہیں جانتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں نے زندگی میں ڈھاکہ اتنا سناٹا نہیں دیکھا، ملک کورونا لاک ڈاؤن کی طرح محسوس ہوا۔ میں دوپہر کو دو پولنگ مراکز سے گزرا اور عوامی لیگ کے کارکنوں کے سوا کوئی نظر نہیں آیا۔ 40 فیصد کا دعویٰ بالکل مضحکہ خیز ہے۔

انتخابات سے قبل اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا جبکہ کل پولنگ کے دوران بھی پرتشدد جھڑپیں اور ہنگامہ آرائی ہوئی۔

سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلادیش نیشنل پارٹی (بی این پی ) نے حکومت پر دھاندلی، کریک ڈاؤن اور انتخابات سے باہر رکھنے کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

بنگلادیش نیشنل پارٹی کی سربراہ خالد ضیاء سمیت سرکردہ رہنما کئی برسوں سے جیلوں میں قید ہیں جب کہ اپوزیشن جماعت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ حکومت ان کے امیدواروں اور مقامی رہنماؤں کو کارکنان سمیت گرفتار کر رہی ہے۔

الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف کارکن اور فوٹوگرافر شاہد العالم نے کہا کہ “یہ ڈھکوسلے انتخابات کا ایک عجیب نتیجہ ہے۔” “ڈمی الیکشن میں ڈمی امیدوار اب ڈمی پارلیمنٹ بنائیں گے۔”

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حسینہ کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے یہ “یک طرفہ انتخاب” محض ایک “محض رسمی” تھی۔

سابق الیکشن کمشنر سخاوت حسین نے کہا کہ “یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ٹرن آؤٹ 40 فیصد تھا، خاص طور پر اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ چیف الیکشن کمشنر نے خود میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پہلے 28 فیصد کہا اور پھر اسے اچانک 40 فیصد کر دیا۔ الیکشن کمشنر خود الجھن کے شکار تھے۔

الجزیرہ نے خود بھی تصدیق کی کہ میڈیا بریفنگ کے دوران الیکشن کمیشن ہیڈ کوارٹر کے ڈیش بورڈ پر ٹرن آؤٹ 28 فیصد تھا جو اچانک 40 کردیا گیا۔

معروف انتخابی مبصر تنظیم Brotee بروٹی کی سربراہ شرمین مرشد نے بھی کہا کہ ایک گھنٹے میں 27 سے 40 تک چھلانگ “مضحکہ خیز” ہے جس سے الیکشن کمیشن کی ساکھ کو بری طرح داغدار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ “یہ کوئی الیکشن نہیں تھا، بلکہ یہ ایک پارٹی کی طرف سے خود کو ووٹ دینے کی مشق تھی۔”

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران محض چند ماہ میں 10 ہزار سے زائد اپوزیشن کارکن گرفتار، متعدد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے۔

لاہور کسی کاروباری یا کھلاڑی کا نہیں صرف بھٹو کا ہے: بلاول بھٹو

لاہور: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ لاہور کسی کاروباری یا کھلاڑی کا نہیں صرف بھٹو کا ہے۔

ٹاؤن شپ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے شہر لاہور آکر بہت خوشی ہو رہی ہے، اپنے شہر لاہور سے الیکشن لڑ رہا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نہ تو کسی پٹواری کی ضرورت ہے نہ کسی اور کی، میں صرف عوام کا ساتھ چاہتا ہوں، وہ ہم سے پوچھتے ہیں ہم یہاں کیوں آئے ہیں، وہ خود جنرل ضیاء کی وجہ سے لاہور پر مسلط ہوئے تھے، ہم اس شہر میں سیاست صرف پی پی پی کے جیالوں کے لئے کررہے ہیں۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمار مقابلہ مہنگائی، بے روز گاری اور غربت سے ہے، عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رہے گی، لاہور میں بڑے بڑے ہسپتال بنائیں گے تاکہ کسی کو علاج کے لئے باہر نہ جانا پڑے، کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دیں گے۔

سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ تقسیم اور نفرت کی سیاست کو ختم کریں گے، پنجاب کے ہر ضلع میں مفت علاج کے ادارے بنائیں گے، عوام کو گھروں کی فراہمی اولین ترجیح ہے، 300 یونٹ تک بجلی مفت دیں گے، تنخواہ ڈبل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مزدوروں اور کسانوں کو کارڈز دیں گے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافہ کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو 30 لاکھ پاکستانیوں کو پکا گھر بناکر دوں گا، مشکل معاشی حالات میں ہم نے بھوک کو مٹانا ہے۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ نفرت کی سیاست کے علاوہ ایک ہی آپشن ہے اور وہ پیپلزپارٹی ہے۔

بعدازاں ایک اور کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ کارکن مل کر جدوجہد کریں گے تو لاہور اور پاکستان کی قسمت بدلیں گے، کیا اس ملک کی قسمت میں لکھا ہے کہ بار بار ایک ہی شخص کو وزیراظم بنانا ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ 8 فروری کو عوام تیر پر ٹھپہ لگا کر نوجوان قیادت کو آگے لائیں، پی پی کے منشور میں تمام مسائل کا حل ہے، آپ سب میرے سفیر بن کر گھر گھر جائیں، جب آپ سب گھر گھر جا کر عوام کو بتائیں گے پی پی کی حکومت ہو گی تو غربت کا خاتمہ ہو گا اور روزگار ملے گا۔

آلہ سماعت کا استعمال ڈیمینشیا کے آغاز کو مؤخر کر سکتا ہے، تحقیق

کوپن ہیگن: ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آلہ سماعت کا استعمال ڈیمینشیا کی ابتداء اور بیماری میں اضافے کو مؤخر کر سکتا ہے۔

ڈینمارک سے تعلق رکھنے والے محققین نے جنوری 2003 سے دسمبر 2017 کے درمیان 50 برس اور زیادہ کی عمر کے 5 لاکھ 73 ہزار 88 افراد کا معائنہ کیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق میں قوتِ سماعت کے کمزور ہوجانا ڈیمینشیا کے ایک عامل کے طور پر سامنے آیا۔مطالعے میں ٹیم کو معلوم ہوا کہ سماعت کے کمزور ہوجانے کا تعلق ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کے خطرات میں 7 فی صد اضافے سے تھا۔

تاہم، وہ افراد جن کی سماعت کمزور تھی اور وہ آلہ سماعت استعمال نہیں کرتے تھے ان کے اس دماغی بیماری میں مبتلا ہونے کے خطرات 20 فی صد زیادہ تھے جبکہ وہ افراد جو آلہ سماعت پہنتے تھے ان میں بیماری کے امکانات 6 فی صد تھے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان نتائج کی مطبی مطابقت ابھی بھی مبہم ہے لیکن تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ سماعت کے کمزور ہونے کا علاج آلہ سماعت سے کیا جانا ڈیمینشیا کے خطرات میں کمی سے تعلق رکھتا ہے۔

گوگل نے روبوٹس کے لیے ’آئین‘ تشکیل دے دیا

کیلیفورنیا: ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے روبوٹ کے سبب ہونے والے نقصانات کو محدود کرنے کے لیے روبوٹس کے لیے آئین تشکیل دے دیا۔

گوگل اپنے ماتحت کام کرنے والے ڈیپ مائنڈ روبوٹک ڈویژن سے پُر امید ہے کہ ایک روز ایسا مددگار روبوٹ بنا سکے گا جو گھر صاف کرنے یا کھانا بنانے جیسے حکم کی تعمیل کر سکے۔لیکن بظاہر ایک سادہ سی درخواست روبوٹ کی سمجھ سے بالا ہونے کے ساتھ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے یعنی کسی ربوٹ کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ گھر کو اس طریقے صاف نہیں کیا جانا چاہیئے کہ گھر کے مالک کو نقصان پہنچے۔

گوگل کی جانب سے نئے سسٹمز کا ایک سیٹ پیش کیا گیاہے جس کے متعلق کمپنی کا خیال ہے کہ یہ ایسے روبوٹ بنانے میں آسانی فراہم کرے گا جو مدد کرنے اور بغیر نقصان پہنچائے مدد کرنے کے قابل ہوں گے۔ ان سسٹمز کا مقصد روبوٹس کو تیزی سے فیصلہ کرنے اور ان کے اطراف ماحول کے متعلق بہتر سمجھ اور سمت شناسی میں مدد دینا ہے۔

اس کامیابی میں آٹو آر ٹی نامی نیا سسٹم شامل ہے جو انسانوں کے مقاصد سمجھنے کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتا ہے۔ یہ سسٹم ایسا لارج لینگوئج ماڈل (ایل ایل ایم) کو استعمال کرتے ہوئے کرتا ہے۔

یہ سسٹم روبوٹ میں نصب کیمروں سے ڈیٹا لیتا ہے اور اس کو وژوئل لینگوئج ماڈل (وی ایل ایم) میں بھیج دیتا ہے، جو ماحول اور اس میں موجود چیزوں کو سمجھتے ہوئے الفاظ میں بیان کرسکتا ہے۔ اس ڈیٹا کو بعد میں ایل ایل ایم میں بھیج دیا جاتا ہے جو ان الفاظ کو سمجھتا ہے، ممکنہ کاموں کی فہرست بناتا ہے اور پھر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کن کاموں کو انجام دیا جانا چاہیئے۔

تاہم،  گوگل نے یہ بھی واضح کیا کہ ان روبوٹس کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنانے کے لیے لوگوں کو ضرورت ہوگی کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ روبوٹ محفوظ رویہ اختیار کریں گے۔ اس لیے آٹو آر ٹی میں فیصلہ سازی کرنے والے ایل ایل ایم میں گوگل نے روبوٹ کانسٹیٹیوشن شامل کیا ہے۔

گوگل کے مطابق یہ سیٹ حفاظت پر مبنی یاد دہانیاں ہیں جن کی پاسداری ربوٹس کاموں کا انتخاب کرتے وقت کرتے ہیں۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن کے استعفے کی خبر پر ترجمان کی وضاحت

 اسلام آباد: سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کے استعفے کی خبر پر ترجمان الیکشن کمیشن نے وضاحت جاری کی ہے۔

ترجمان الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کورونا کے باعث رخصت پر ہیں اور عمر حمید کے استعفے سے متعلق کوئی اپڈیٹ نہیں۔

ترجمان نے کہا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید ایک ذہین اور محنتی افسر ہیں جوکہ بہت اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں، عمر حمید کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی اور اس وقت میڈیکل ریسٹ پر ہیں۔ عمر حمید کی صحت نے اجازت دی تو وہ جلد اپنے فرائض انجام دیں گے۔

ترجمان کے مطابق الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہے اور الیکشن کمیشن کے کسی کام میں رکاوٹ یا رخنہ نہیں ہے، تعطیلات کے دنوں میں بھی الیکشن کمیشن کے دفاتر کام کر رہے ہیں اور سیکریٹری کی غیرموجودگی میں دونوں اسپیشل سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کام احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔

’’آسٹریلوی سرزمین پر پہلے کبھی پاکستان کی ایسی بدترین ٹیم نہیں دیکھی‘‘

سابق آسٹریلوی کرکٹر ایڈم گلکرسٹ نے پاکستان کی موجودہ ٹیسٹ ٹیم کو آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی ’’بدترین ایشیائی ٹیم‘‘ قرار دیدیا۔

سڈنی ٹیسٹ کے دوران کمنٹری کرتے ہوئے سابق آسٹریلوی وکٹ کیپر نے پاکستانی ٹیم کیخلاف سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلوی سرزمین پر اس سے قبل گرین شرٹس کی ایسی بدترین ٹیم نہیں دیکھی۔

 

انہوں نے کہا کہ سڈنی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں شاندار کم بیک کیا لیکن دوسری اننگز میں لیڈ لینے کے باوجود پاکستانی بیٹنگ لائن تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی، پاکستان کا موازنہ بھارت سے ہوتا ہے، ہندوستان نے سخت چیلنجز کے باوجود جنوبی افریقہ میں میچ جیتا جبکہ آسٹریلیا کیخلاف 2 بار سیریز اپنے نام کی۔

سابق کرکٹر نے سوال اٹھایا کہ آپ مجھے بتائیں پاکستان نے گزشتہ 35 سالوں میں ایسا کچھ جیتا ہو؟

انہوں نے کہا کہ ‘یہ میں نے آسٹریلیا کی سرزمین پر اب تک کی بدترین ایشیائی ٹیم دیکھی ہے، وہ ڈرائیونگ سیٹ پر تھے اور اچانک آپ نے 15 منٹ کے وقفے میں 5 وکٹیں گنوادیں؟’ ان کے مداح کل ہندوستان کا مذاق اڑارہے تھے لیکن کم از کم وہ میچ جیت گئے۔

بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی اپیل پر فیصلہ محفوظ

راولپنڈی: لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

الیکشن ٹربیونل جج جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے فیصلہ محفوظ کیا۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی انتخابی قسمت کا فیصلہ 10 جنوری کو صبح 10 بجے سنایا جائے گا۔

بیرسٹر علی ظفر سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے استدعا کی کہ ریٹرننگ آفیسر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ آر او یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کے معاملہ مورل ٹرپیٹیوٹ کا ہے یا نہیں، کوئی شخص اہل ہے یا نہ اہل اس کے لیے شواہد چاہیے، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں آر او کے فیصلے میں ایسا کچھ نہیں تھا، 2018 میں خواجہ محمد آصف کیس کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔

ٹریبونل نے کہا کہ خواجہ محمد آصف کیس میں تنخواہ کا ذکر تھا، توشہ خانہ سے جو چیزیں لی گئیں، کیا ان کی تفصیلات دی گئی؟ ہم یہاں پر توشہ خانہ کیس کے میرٹ پر بات نہیں کر رہے ہیں، جو پیسہ توشہ خانہ کی چیزیں بیچ کر حاصل کیا گیا وہ بتایا گیا تھا؟

ڈی جی لا نے دلائل میں کہا کہ ریٹرننگ آفیسر نے سرسری سماعت کرنا ہوتی ہے، ملزم سزا یافتہ ہو تو الیکشن نہیں لڑ سکتا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو نااہل قرار دیا ہے جبکہ سزا ختم نہیں کی بلکہ وہ برقرار ہے۔

ڈی جی لا نے کہا کہ ریٹرننگ آفیسر نے قانون مطابق کاغذات مسترد کیے اس لیے استدعا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل خارج کی جائے۔

پتھرکی لکیرکیسے مٹے گی؟

قاضی صاحب نے ایک بات اچھی کی کہ نہ صرف الیکشن کی تاریخ لے کر دی بلکہ ساتھ ہی اس تاریخ کو پتھر پرلکیر کہہ ہراس پر پہرہ دینے کا بھی اعلان کردیا۔آج کی تاریخ تک جناب چیف جسٹس ایک مضبوط اورالرٹ پہرے دار کی طرح اپنی کہی ہوئی بات پر پہرہ دے رہے ہیں ۔اللہ ان کو کامیاب ہی کرے۔اس ملک میں ایک سال سے آئین وغیرہ کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسلسل اس کی خلاف ورزیاں جاری تھیں کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس بدل گیا اورموجودہ چیف کے آنے کے بعد آئین شکن دبکے ضرور بیٹھے ہیں لیکن اپنی سازشوں سے باز نہیں آرہے۔اس وقت ان سازشیوں کا ہدف ایک ہی کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن روک لیے جائیں ۔ معلوم نہیں کہ الیکشن نہ کروانے میں کس کا کونسامفادموجود؟
الیکشن کی تاریخ پر حملہ آوربہادرتو ہرگز نہیں بلکہ بزدل ہیں۔ بہادر ہوں تو سامنے آکر الیکشن کی مخالفت کریں ۔جمعہ کے دن سینیٹ آف پاکستان کو جس طرح اس کے چیئرمین اورچند سینیٹرزنے بے توقیر کیا وہ بھی الگ ہی کہا نی ہے۔بظاہر یہ واردات چیئرمین سینیٹ کی طرف سے پلان کی گئی جس پر ان کے ہی گروپ کے بارہ سینیٹرزنے عمل درآمد بھی کروادیا اور پھر قراردادپاس کرتے ہی اجلاس بھی غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرکے چلتے بنے۔گوکہ اس قراردادیا کسی بھی ایسی قرارداد کی کوئی ایسی حیثیت نہیں کہ الیکشن ملتوی ہوجائیں یا الیکشن کمیشن کسی ایسی خواہش پر عمل کرنے کا پابندہی ہوجائے لیکن پھر بھی ایسی چھوٹی چھوٹی خواہشیں لیے چھوٹے لوگ اپنا آپ دکھانے سے باز نہیں آرہے۔چیئرمین سینیٹ چھ سال قبل ،جب سے سینیٹ میں آئے ہیں ان کے ساتھ فتنہ اور فساد نتھی ہوکر آیا ہے۔جب یہ مارچ 2018میں سینیٹر منتخب ہوئے تو آتے ہی خود کو چیئرمین بنوانے کے لیے وہ سازشیں کیں کہ سینیٹ میں ن لیگ کی اکثریت ہوتے ہوئے چیئرمین بن گئے اور کمال یہ ہوا کہ چیئرمین بننے کے لیے پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کو ایک ٹیبل پر بٹھادیا۔اسی وقت پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت گرادی۔سینیٹ کا چیئرمین بن کر اپنی جڑیں طاقت کے مراکز کے ساتھ استواراور مضبوط کرتے چلے گئے۔
پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد جب پیپلزپارٹی کو ہوش آیا کہ وہ ن لیگ کے خلاف استعمال ہوتے رہے لیکن حکومت عمران خان کو مل گئی تو پیپلزپارٹی نے چیئرمین سینیٹ کوہٹانے کے لیے مسلم لیگ ن کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا۔ سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد لے آئے ۔ اس تحریک کی ناکامی کا کوئی سوال نہیں اٹھتا تھا کیونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اس وقت سینیٹ میں 64ارکان تھے اور ان کے مخالفین کی تعدادچالیس سے بھی کم تھی۔ظاہری طورپریہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب تھی لیکن یہاں بھی صادق سنجرانی اور ان کے چاہنے والے کمال کی واردات ڈال گئے۔عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے سینیٹ ارکان کی گنتی کی گئی تو پورے 64نکلے لیکن یونہی عدم اعتماد ایوان میں آئی اور اس پر ووٹنگ ہوئی تو 64ارکان والے ہار گئے ۔ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے چودہ ارکان ایوان سے غائب ہوگئے ۔دونوں جماعتیں ان سینیٹرزکو تلاش کرنے کے لیے کمیٹیاں بناتی رہ گئیں لیکن صادق سنجرانی کو جتوانے اور مرحوم حاصل بزنجوکو ہرانے والے ان چودہ لوگوں کا پتہ نہ چل سکا۔
2021میں سینیٹ کے پھر الیکشن ہوئے۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ پی ڈی ایم میں ایک ساتھ تھے ۔یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے رکن بنے تو ایک بارپھر دونوں جماعتوں کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کا شوق چرایا ۔ اس بار پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی چیئرمین کے امیدوار بن گئے۔اکثریت اس باربھی اپوزیشن کے ساتھ اور صادق سنجرانی کے خلاف تھی لیکن صادق سنجرانی کے ساتھ وہ لوگ تھے جواقتدار طے کرتے ہیں۔چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے پہلے دوتین سرپھرے سینیٹرزنے ایوان سے سی سی ٹی وی کیمرے دریافت کرلیے۔ان کیمروں پر بھی کمیٹی بنی کہ یہ کس نے یہاں لگائے ہیں آج تین سال ہونے کو آئے نہ کسی کو کمیٹی کا پتہ ہے اور نہ کیمروں کا کسی کو معلوم ہوا۔اس الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو ڈالے گئے سات ووٹ مسترد قراردے کر صادق سنجرانی کو تین سال کے لیے دوبارہ چیئرمین سینیٹ بنادیا گیا۔وہ تین سال اس مارچ میں پورے ہورہے ہیں ۔صادق سنجرانی اس الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے امیدواربھی ہیں ۔ان کو یہ الیکشن وغیرہ لڑنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ۔ یہ الیکشن میں امیدواربننا صرف ایک بیک اپ پلان ہے۔ عین ممکن ہے وہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں دوبارہ بلوچستان سے سینیٹربن کرواپس ایوان میں موجود بھی ہوں اور ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ کے امیدواربھی۔اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی ’’باپ‘‘پارٹی کو ختم نہیں کیا حالانکہ اس کے صدرجام کمال پارٹی چھوڑ کر واپس مسلم لیگ ن میں آچکے ہیں لیکن صادق سنجرانی کواپنی چالیں معلوم ہیں کہ پارٹی رہی اوربلوچستان میں چند نشستیں بھی جیت گئی تو ان کا سینیٹر بننا یقینی ہوجائے گا اس لیے ان کی توجہ اورمفاد دوبارہ سینیٹربن کر اسلام آباد کے طاقتورحلقوں کی چاکری کرنے میں ہی ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کچھ عرصہ قبل اپنے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لامتناہی مراعات کا بل بھی اسی چور دروازے سے منظورکرالیا تھا جس دروازے سے جمعہ کو الیکشن کے خلاف قرارداد منطورکروائی ہے۔اپنے لیے مراعات میں انہوں نے سفر کے لیے چارٹرطیارہ بھی منظورکروالیا تھا۔اس کے علاوہ انہوںنے اپنے بھائی اور باقی خاندان کا بھی بہت خیال رکھا۔ ان کے بھائی کئی سالوں سے بلوچستان کے معدنی شعبے میں سیندک کے چیئرمین بنائے گئے ۔ وہ بھائی رازق سنجرانی بغیر کوئی کام کیے نہ صرف پندرہ لاکھ روپے ماہانہ سرکاری خزانے سے وصول کررہے تھے بلکہ اسلام آباد کے منسٹر انکلیو میں ایک عالی شان فرنشڈ گھر بھی ان کے قبضے میں تھا۔ یہ گھر اور نوکری ان کے قبضے سے چندماہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے چھڑوائی ہے۔سوچیں جن کے مفادات قومی خزانے سے اس قدر گہرائی میں جڑے ہوئے ہوں ان کو الیکشن اور انتخابات کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کیسے گوارا ہوسکتی ہے۔نئے الیکشن کا مطلب ہوتا ہے نئی حکومت اور نئی حکومت کا مطلب نئی الائمنٹ ، نئی محنت اور نئے جتن۔اس ساری محنت سے بچنے کا ایک طریقہ وہ ہے جوانہوں نے استعمال کیا ہے کہ الیکشن ہی نہ ہوں ملک میں ۔ الیکشن نہ ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ سینیٹ کے الیکشن ہی نہیں ہوسکیں گے۔
الیکشن کے التوا کے لیے سینیٹ کی قراردادکوئی پہلی کوشش ہے اور نہ ہی آخری۔اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے پورے ملک میں ریٹرننگ افسروں کو معطل کرکے الیکشن کے التوا کی بنیاد رکھی تھی توچیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی صاحب نے اسی رات عدالت لگا کروہ منصوبہ فوری ناکام بنایا اور دوبارہ کہا کہ آٹھ فروری پتھر پر لکیر ہے۔ اس کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراضات عدالتوں میں آنا شروع ہوگئے ۔ ہر دوسرے بندے کو حلقہ بندی پر اعتراض ہوگیا تو پھر سپریم کورٹ نے واضح حکم دیا کہ حلقہ بندیوں پراعتراضات کا مقصد الیکشن ملتوی کرانا ہے اس لیے کوئی عدالت حلقہ بندیوں کا کوئی کیس نہیں سنے گی۔سپریم کورٹ نے یہ واردات ناکام بنائی تو سپریم کورٹ اور پاکستان بار کونسل نے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔یہ بات پیچھے ہوئی اورالیکشن شیڈول پرعمل ہونا شروع ہوا ۔سب کو یقین سا ہونے لگا تھا کہ الیکشن اپنے وقت پرہونے جارہے ہیں تو سینیٹ میں یہ ایک بارایک واردات ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک الیکشن کے بغیر اسی طرح چل سکتا ہے وہ غلطی پر ہیں۔ ہم نے سینتالیس سے ستر تک ملک بغیر الیکشن کے چلاکردیکھ نہیں لیا؟ آخر کیا ہوا؟ کتنے نظام لانے کے تجربے ہوئے ۔مارشل لا بھی لگالیا ، صدارتی نظام کا تجربہ بھی کرلیا لیکن پھر جمہوری پارلیمانی نظام کی طرف آنا پڑا۔ یہ درست کہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے یہاں لیکن خدارا جیسی بھی ہے اس کو موقع تو دو۔الیکشن کے ضامن چیف جسٹس ہیں پورا ملک اس وقت ان کے ساتھ کھڑا ہے اورمیرا یقین کہ ان کی کھینچی گئی لکیر وہ خود بھی مٹانا چاہیں تو اب ممکن نہیں ہوگا۔

 

جرمن یہودیوں کو اپنے ملک کا اسرائیل پر بہت مہربان ہونا پسند نہیں

جرمنی میں آباد یہودیوں کو یہ بات پسند نہیں کہ ان کا ملک اسرائیل پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔ وہ غزہ پر حملوں میں فلسطینیوں کی بہت بڑے پیمانے پر شہادت کی مذمت کرتے ہوئے جرمن حکومت سے ایسے اقدامات چاہتے ہیں جن سے اسرائیل کی حوصلہ شکنی ہو۔

غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی کے نام پر شہریوں کو نشانہ بنانے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنے پر جرمنی میں دوسری کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ یہودی بھی میدان میں نکلے ہیں۔

جرمن یہودی چاہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کی انسانیت سوز کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے جرمن حکومت اسرائیل کی غیر معمولی حمایت ترک کردے۔

غزہ کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے جب جرمنی میں یہودیوں نے چند دوسرے ممالک کی معروف شخصیات کے ساتھ مل کر احتجاج کیا تو اُن پر یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا الزام عائد کردیا گیا۔

جرمن پولیس اور خفیہ اداروں نے کئی ہفتوں تک ان سے پوچھ گچھ کی ہے اور ان کی نقل و حرکت محدود کرتے ہوئے بھرپور نگرانی کی جارہی ہے۔

تین ماہ سے جن شخصیات سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے ان میں بھارت کا ایک شاعر، ایک آسٹریلوی ماہرِ سیاسیات،ائرلینڈ کے لوک فنکاروں کا ایک گروپ، ایک برطانوی ماہرِ تعمیرات، بنگلہ دیش کا ایک فوٹوگرافر، دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کی بہت بڑے پیمانے پر ہلاکت سے متعلق معاملات کا امریکی ماہر، جنوبی امریکہ کے ملک چلی کا ایک کمپوزر، آسٹریا کا ایک اسرائیلی نژاد ڈراما نگار، ایک ولندیزی فٹبالر، جنوبی امریکا ایک مصور، جرمنی کا نائجیریا نژاد صحافی، ایک فلسطینی ناول نگار اور امریکی سینیٹر بینی سینڈرز شامل ہیں۔ ان میں بیشتر یہودی ہیں۔

پی ٹی آئی کو لیول پلئینگ فیلڈ پر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا

الیکشن کمیشن نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے خلاف دائر کیے گئے توہین عدالت کیس میں جواب جمع کروا دیا ہے، جس میں تحریک انصاف کے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ فراہم کرنے کے الزامات مسترد کیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ عدالت پی ٹی آئی کو درخواست کو جرمانہ عائد کرتے ہوئے مسترد کرے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں لکھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقات کی گئی، ملاقات میں تحریک انصاف کو بلاتفریق لیول پلیئنگ فیلڈ کی یقین دہانی کروائی گئی۔

جواب کے مطابق الیکشن کمیشن نے چاروں صوبوں کےآئی جیزکوہدایت بھی جاری کیں اور 26 دسمبر تک تحریک انصاف کی ملک بھر میں 33 شکایت درج کروائی گئیں۔

الیکشن کمیشن نے جواب میں پی ٹی آئی کی شکایت پر اقدامات اور ہدایت کی تفصیلات بھی فراہم کردیں۔

جواب میں کہا گیا کہ شکایات پر آئی جی، چیف سیکریٹری اور آر اوز نے رپورٹس جمع کروائیں، لیول پلیئنگ کے الزامات کو آر اوز رپورٹ کے تناظر میں مسترد کرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے جواب میں بتایا کہ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی 843 میں 598 کاغذات نامزدگی منظور کئے گئے، جبکہ 245 کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے۔

جواب کے مطابق صوبائی اسمبلیوں میں 1777 میں سے 1398 کاغذات نامزدگی منظور کئے گئے، صوبائی اسمبلیوں کیلئے پی ٹی آئی کے 379 کاغذات مسترد کئےگئے۔

جواب میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے امیدواران کے76.18 فیصد کاغذات نامزدگی منظور کئے گئے۔