برازیل، جنگلات میں لگی آگ سے 30 شہروں کو خطرہ، الرٹ جاری

ساؤ پاؤلو: برازیل کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے پھیلاؤ سے قریبی 30 شہروں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، حکام نے الرٹ جاری کر دیا ہے۔

ساؤ پالو کی ریاستی حکومت نے جنگلکی آگ سے نمٹنے کے لیے ایک بحرانی کابینہ تشکیل دی ہے جس نے برازیل کے 30 شہروں کو الرٹ کر دیا ہے۔

آتشزدگی کے شعلوں سے دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور ایک درجن شاہراہوں پر دھوئیں کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہوئی ہے جبکہ دارالحکومت ساؤ پاؤلو سرمئی دھند میں ڈوبا ہوا ہے۔

بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور کم نمی کی وجہ سے ریاست میں آگ مزید پھیل رہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق مقامی حکومت کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز اروپس شہر کے ایک صنعتی پلانٹ میں آگ بجھانے کے دوران دو ملازمین ہلاک ہو گئے تھے۔

ریاستی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ جنگلات میں لگی آگ ہوا کے جھونکے سے تیزی سے پھیل سکتی ہے، جس سے قدرتی نباتات کا بڑا حصہ تباہ ہو سکتا ہے۔

گورنر ٹارسیو ڈی فریٹس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ اس وقت 30 شہروں کو آگ لگنے کے پیش نظر ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور ہم صورتحال پر قابو پانے اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

قذافی اسٹیڈیم اپ گریڈیشن پروجیکٹ پر رات گئے بھی کام جاری

لاہور: چیمپئینز ٹرافی 2025 کی میزبانی کرنے والے قذافی اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن پروجیکٹ پر رات گئے بھی کام جاری ہے۔

چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی پیش رفت کا جائزہ لینے قذافی سٹیڈیم پہنچ گئے چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے بیسمنٹ کی کھدائی کے کاموں کا معائنہ کیا۔

چئیرمین پی سی بی نے بیسمنٹ کی کھدائی کے کام کو تیز کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ اضافی لیبر اور مشینری لگا کر کام جلد مکمل کیا جائے۔

محسن نقوی نے بارشوں کے پیش نظر کام کو ٹائم لائن کے اندر پورا کرنے کی پلاننگ کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ 3 شفٹ میں کام جاری رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک چیلنجنگ ٹاسک ہے، پوری ٹیم دن رات محنت کرے اور چیمپئنز ٹرافی سے قبل اپ گریڈیشن کے کام کو ہر صورت مکمل کرنا ہے۔

پی سی بی چیئرمین نے منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے ضروری ہدایات دیں۔

ایف ڈبلیو او کے حکام نے قذافی سٹیڈیم اپ گریڈیشن پراجیکٹ پر پیش رفت کے بارے میں چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو بریفنگ دی۔

اس موقع پر ایف ڈبلیو او۔ پی سی بی اور نیسپاک کے متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔

شکیب کو بنگلادیشی ٹیم سے الگ کرنے کا مطالبہ، بورڈ کو نوٹس موصول

کراچی: بنگلہ دیشی آل راؤنڈر شکیب الحسن کیخلاف ڈھاکا میں قتل کا مقدمہ درج کیے جانے کے بعد بی سی بی کو قانونی نوٹس موصول ہوگیا۔

اسے سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر ساجب محمود عالم نے ساتھی محمد رفیع الرحمان کی وساطت سے بھیجا، قانونی نوٹس میں بورڈ سے استدعا کی گئی کہ وہ ہائی پروفائل قتل کیس میں ملزم نامزد کیے جانے پر شکیب الحسن کو ملکی ٹیم سے الگ کردے، سردست پاکستان کے دورے پر موجود شکیب کو وطن واپس بلاکر تحقیقات میں تعاون کیا جائے۔

شکیب کیخلاف مقدمہ 22 اگست کو آدابر پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا، ان پر گارمنٹ فیکٹری مزدور محمد روبیل کے قتل کا الزام ہے، بیرسٹر نے نوٹس میں یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ مجرمانہ سرگرمی میں ملوث کرکٹر کی انٹرنیشنل ٹیم میں شمولیت آئی سی سی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے، وہ موجودہ حالات میں ملکی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتے۔

بنگلہ دیشی کرکٹ کی ساکھ برقرار رکھنے کیلیے شکیب کو تمام طرز کی کرکٹ سے معطل کرنا چاہیے،اس پر فیصلہ بورڈ کی نئی انتظامیہ کرے گی۔

آئی سی سی ویمنز چیمپئن شپ کے اگلے ایڈیشن میں زمبابوے شامل

کراچی: آئی سی سی ویمنز چیمپئن شپ کے اگلے ایڈیشن میں زمبابوے بھی شامل ہوگا۔

29-2026 دورانیے کیلیے چیمپئن شپ میں زمبابوے کی شمولیت سے ٹیموں کی تعداد 10 سے 11 ہوجائے گی، یہ چیمپئن شپ ویمنز ون ڈے ورلڈکپ میں ٹیموں کی براہ راست کوالیفکیشن کا راستہ ہے۔

رواں دورانیے کی چیمپئن شپ میں آئرلینڈ اور بنگلہ دیش کو شامل کیا گیا تھا، گذشتہ ماہ ہی آئی سی سی کی جانب سے ممبر بورڈز کو اس میں زمبابوے کی شمولیت کے بارے میں آگاہ کردیا گیا۔

اسرائیلی فوجی کی جانب سے قرآنی نسخہ نذر آتش کرنے پر حماس کی سخت مذمت

غزہ: غزہ کی شمالی پٹی میں صالح مسجد میں چھاپے کے دوران اسرائیلی فوجی کی جانب سے قرآنی نسخہ نذر آتش کرنے پر حماس نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

خلیجی میڈیا کے مطابق صالح مسجد میں چھاپے کے دوران اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار نے قرآن کے نسخے نذر آتش کیے جس کی ویڈیو دوسرے فوجی کے جسم پر لگے باڈی کیم کیمرے میں ریکارڈ ہوئی، جسے بعد میں صیہونی فوجیوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔

اسرائیلی فوج کی اس مذموم کارروائی پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

حماس نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کرنے پر سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل اور اس کے فوجیوں کی انتہا پسندانہ فطرت کو ظاہر کرتا ہے جو نفرت اور جرائم سے بھرے ہوئے ہیں۔

اپنے بیان میں حماس نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوجی باقاعدگی سے غزہ میں اپنے حملے کو ریکارڈ کرتے ہیں اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں جو اسرائیلی حکومت کی منظم مجرمانہ پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے۔

ڈیڈ پچ پر چار پیسرز کھلانے کا تجربہ بری طرح ناکام

پاکستان کے بمپر کرکٹ سیزن کا آغاز انتہائی مایوس کن انداز میں ہوا ہے، جس بنگلہ دیشی ٹیم کو پاکستانی مینجمنٹ نے شاید’حلوہ‘ سمجھا اس نے بیٹنگ میں ایسا جلوہ دکھایا کہ سب دنگ رہ گئے، راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی ’مختلف‘ قرار دی جانے والی پچ پر پیسرز نے پسینے بہا دیے مگر پورے میچ میں 20 وکٹیں اڑانے کا خواب کہاں پورا ہوتا الٹا ایک اننگز میں حریف ٹیم کی 10 وکٹیں اڑانے کے ہی لالے پڑگئے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ ’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘ شاید پاکستان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہورہا ہے، دوسروں کی کنڈیشنز اپنانے کی کوشش میں اپنا ہوم ایڈوانٹیج بھی ضائع کردیا گیا۔

پچز کی تیاری کیلئے ٹونی ہیمنگ کی بطور چیف کیوریٹر خدمات حاصل کی گئیں، پہلے ٹیسٹ کیلئے راولپنڈی اسٹیڈیم کی پچ پر گھاس چھوڑی گئی ، پہلے سے ہی کہا جارہا تھا کہ یہ بیٹرز کیلئے موزوں ثابت ہوگی مگر پاکستان ٹیم مینجمنٹ، نئے ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی اور کپتان شان مسعود خاصے پْراعتماد تھے کہ پیس بیٹری ناتواں بنگلہ دیشی بیٹنگ لائن کو کھنڈر بنا دے گی، یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی اٹیک میچ میں حریف ٹیم کی تمام 20 وکٹیں اڑانے کی صلاحیت رکھتا ہے ، پھر خوش فہمی کی انتہا دیکھیں کہ پہلی اننگز 6 وکٹ 448 رنز پر ڈیکلیئرڈ بھی کردی، محمد رضوان کی ڈبل سنچری مکمل ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا گیا جبکہ ایسے مواقع بہت کم میسر آتے ہیں۔

مینجمنٹ کو امید تھی کہ بنگلہ دیش ٹیم 2 اننگز کھیل کر بھی ان کے برابر اسکور نہیں کرپائے گی مگر ہوا اس کے بالکل برعکس، جس پچ پر صائم ایوب نے ففٹی کردی وہاں پر بنگلہ دیشی بیٹرز کیسے نہ چلتے، جب تک پاکستان کی جانب سے آزمائے گئے 7 بولرز حریف ٹیم پر قابو پاتے وہ ساڑھے 5 سو کی نفسیاتی حد عبور کرچکے تھے۔

اس میچ کا نتیجہ کچھ بھی رہے، یہ حقیقت نہیں جھٹلائی جاسکتی کہ ابتدائی 4 دن کا کھیل پاکستان کی توقعات کے بالکل الٹ ثابت ہوا، میچ کا نتیجہ اگر ڈرا کی صورت میں نکلا تو یہ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل کھیلنے کی امیدوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ پاکستان ٹیم کو اس سیزن میں مجموعی طور پر 9 ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں، ان میں سے 7 ہوم گراؤنڈز پر شیڈول ہیں، پہلا میچ اگر ڈرا ثابت ہوا تو قیمتی چیمپئن شپ پوائنٹس کا بنگلہ دیش کے ساتھ بٹورا ہوگا، پرسنٹیج میں بھی بہتری نہیں آئے گی۔

چھٹے نمبر سے اوپر آنے کیلئے پاکستان کو فتوحات کی ضرورت ہے، بنگلہ دیش کے خلاف دوسرا ٹیسٹ بھی راولپنڈی میں ہی شیڈول ہے، اکتوبر میں انگلش ٹیم کو3 ٹیسٹ میچز کیلئے پاکستان کا دورہ کرنا ہے، اپنے گذشتہ ٹور میں بھی وہ پاکستان میں ہی3-0سے کلین سوئپ فتح حاصل کرگئی تھی، ایسے میں اس کے خلاف بھی کامیابی کو یقینی سمجھنے کی غلطی نہیں کی جاسکتی، جنوبی افریقہ کا 2 ٹیسٹ میچز کا مشکل ترین ٹور اور ویسٹ انڈیز سے بھی اتنے ہی ٹیسٹ میچز کی سیریز ہوگی۔

ناکامیوں سے بچ بھی گئے تب بھی بے نتیجہ میچز ٹیسٹ چیمپئن شپ میں ترقی کا باعث نہیں بن سکیں گے۔ اگر فائنل کھیلنا ہے تو پھر پاکستان کو ہر صورت تمام میچز میں فتح حاصل کرنی ہے، ساتھ میں دیگر ٹیموں کے نتائج کا بھی انتظار کرنا ہوگا۔ ٹی 20 ورلڈکپ میں شرمناک شکست کے بعد شائقین کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے یہ باتیں پھیلائی گئیں کہ بنگلہ دیش سے ہوم ٹیسٹ سیریز میں نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا مگر سوائے انجرڈ عامر جمال کے تمام فرسٹ چوائس پلیئرز کو ہی منتخب کیا گیا۔

پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف جاری ٹیسٹ سے قبل 3 برس میں 8 میچز اپنے ملک میں کھیلے اور ایک میں بھی فتح حاصل نہیں ہوئی، 4 میں ناکامی ہاتھ آئی جبکہ باقی 4 میں بڑی مشکل سے شکست کو ٹالتے ہوئے ڈرا پر اکتفا کیا۔ اسی طرح گذشتہ 3 برس کے دوران پیسرز بھی اپنے ملک میں کمال دکھانے میں ناکام رہے ہیں، سلمان آغا میں ٹیم مینجمنٹ کو ایک اسپیشلسٹ بیٹر، اسپیشلسٹ اسپنر اور اسپیشلسٹ آل راؤنڈر کی خصوصیات دکھائی دیتی ہیں مگر وہ ان تینوں شعبوں میں کسی ایک میں بھی اپنی مہارت کا ثبوت نہیں دے سکے ہیں۔

پاکستان کو ایک بار پھر خود کومضبوط بنانا ہو گا، سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہوم کنڈیشنز کوئی بْری چیز نہیں ہیں، اگر یہ بْری ہیں تو پھر آسٹریلیا اپنی فاسٹ اور باؤنسی کنڈیشنز کو تبدیل کرکے ایشیائی ممالک کے ساتھ سلو اور ڈیڈ پچز پر میچز کیوں نہیں کھیلتا، آپ کو کنڈیشنز تبدیل کرنے کے بجائے ایسے پلیئرز کی ضرورت ہے جو تمام کنڈیشنز میں پرفارم کرسکیں یا پھر کنڈیشنز کے لحاظ سے ٹیم منتخب کریں۔ غیرملکی کیوریٹر ضرور لائیں مگر انھیں یہ بھی بتائیں کہ وہ آپ کی جو طاقت ہے اس پر کام کریں نہ کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی پچز بنانے کی کوششوں میں لگ جائیں، ورنہ پھر وہی ہوگا کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔

دہشت گردوں اورکریمنلز کا باہمی نیٹ ورک

پنجاب اور سندھ کے سرحدی علاقے جسے کچے کا نام دیا جاتا ہے، طویل عرصے سے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ دریائے سندھ کے آر پار کا یہ علاقہ خاصا وسیع ہے، ان علاقوں میں کئی دیہات آباد ہیں۔ گھنے جنگلات اور گھاٹیوں کی وجہ سے یہ علاقے مفروروں، ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کے لیے جنت سے کم نہیں ہے۔

گزشتہ روز پنجاب پولیس کے 12 اہلکاروں کی شہادت ان ڈاکوؤں کی سفاکی، ان کی بے خوفی اور اثر ورسوخ کا کھلا ثبوت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد شاید ہی کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو، جس میں پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی اتنی بڑی تعداد شہید ہوئی ہو۔ ماضی میں اس علاقے کو پرامن بنانے کے لیے کئی بار آپریشنز کیے گئے ہیں۔

میڈیا میں یہی تاثر دیا گیا کہ جیسے ڈاکوؤں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ دردناک اور بھیانک سانحہ رونما ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کچے کے ڈاکو گینگز پوری طرح فعال ہیں اور انھیں کسی قسم کا کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا ہے۔ اب شاید صورت حال پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے۔

جمعہ کی رات کو پنجاب پولیس نے کچے میں جوابی کارروائی کی ہے۔ اس حوالے سے جو خبر اخبارات میں شایع ہوئی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں پر حملے کا مرکزی کردار بشیر شر اپنے انجام کو پہنچ گیا جب کہ اس کے 5 ساتھی شدید زخمی ہوئے، پولیس نے چار لاپتہ اہلکار بھی ریسکیو کر لیے ہیں۔ ادھر پولیس اہلکاروں کی شہادت کے سانحے کے بعد کئی پولیس افسران کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔

آئی جی پنجاب کی طرف سے تقرر و تبادلے کے نوٹیفکیشن کے مطابق رحیم یار خان کے ڈی پی او، ایس پی اور ڈی ایس پی سی آئی اے کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاب نے کہاکہ پنجاب پولیس نے کچہ ایریا اور سرحدی چوکیوں پر دہشت گردوں، ڈاکوؤں اور شرپسند عناصر کے حملوں کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے، انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کچہ کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس آپریشن بھرپور طاقت سے جاری رہے گا، پولیس جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے، پنجاب پولیس ڈاکوؤں کے خاتمے تک کارروائیاں جاری رکھے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر کچے کے خطرناک ترین ڈاکوؤں یعنی ہائی ویلیو ٹارگٹس کے سر کی قیمت 1 کروڑ روپے مقرر کر دی گئی ہے، خطرناک ڈاکوں کے سر کی قیمت 50 لاکھ جب کہ تیسری کیٹگری کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت 25 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔

یہ سارے اقدامات اپنی جگہ رہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پولیس افسروں کو او ایس ڈی بنانے اور نئے افسروں کو چارج دینے سے یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے؟ رحیم یار خان میں کچے کے علاقے میں جو واقعہ ہوا ہے، اس پر غور کیا جائے تو حالات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پنجاب پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا۔

ڈاکوؤں نے پولیس موبائلز پر راکٹ لانچروں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 12 پولیس اہلکار شہید ہوئے جب کہ 5 زخمی اہلکار اسپتال میں زیرعلاج ہیں جب کہ چار لاپتہ پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرانے کی خبر شایع ہوئی ہے۔ اس ساری واردات کا اہم پہلو یہ ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے، یہاں تک کہ راکٹ لانچرز جیسے خطرناک ہتھیار بھی ان کے پاس ہیں۔ ان راکٹ لانچروں کو کندھے پر رکھ کر ہدف پر فائر کیا جاتا ہے۔

افغانستان میں پہلے سوویت یونین کی فوج کو نشانہ بنانے کے لیے افغان مجاہدین گروپوں کو اس قسم کے ہتھیار امریکا نے فراہم کیے تھے۔ بعدازاں حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومت کے دور میں افغان نیشنل آرمی کو بھی امریکا نے ایسے ہتھیار فراہم کیے تھے۔ افغان طالبان کے پاس بھی ایسے راکٹ لانچر، جدید مشین گنز اور جاسوسی کے آلات موجود ہیں۔ ان میں سے ہتھیاروں کی بڑی کھیپ وہ ہے جو افغان نیشنل آرمی کے کنٹرول میں تھی۔

طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو افغان نیشنل آرمی کمانڈ کی کمزوری اور بزدلی کے باعث مفلوج ہو گئی۔ یوں طالبان نے بغیر جنگ کیے کابل اور پورے افغانستان پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ سارا اسلحہ طالبان کے پاس چلا گیا۔ اس کے علاوہ نیٹو آرمی کے پاس جو لائٹ ویپنز تھے، وہ انھیں وہیں چھوڑ گئے۔ یوں طالبان ہی نہیں بلکہ افغانستان میں سرگرم دیگر مسلح دہشت گرد گروہوں کے پاس بھی جدید اسلحہ موجود ہے۔ اس تمہید کا مقصد اس پہلو کو نمایاں کرنا ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کا مسئلہ محض روایتی ڈاکوؤں کے گروہ نہیں ہیں بلکہ یہ آرگنائزڈ کریمنلز اور ٹیررسٹ گینگز کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

ان گینگز کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے، ان گینگز کے ارکان جدید اسلحہ چلانے کی مہارت رکھتے ہیں، اس کا واضح مطلب ہے کہ ان کے تربیتی کیمپ بھی موجود ہیں جہاں وہ نئی فورس بھی تیار کرتے ہیں۔ ان گروہوں کے پاس دولت کی بھی فراوانی نظر آتی ہے۔ ان کی فنانشل لائف لائن کا انحصار اغوا برائے تاوان کے ذریعے اکٹھے ہونے والی رقومات بھی ہیں اور بھتہ وصولی سے بھی انھیں خاصے پیسے ملتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان گینگز کی سالانہ آمدنی ایک ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ اس رقم سے وہ جدید اسلحہ خریدتے ہیں، اس سوال یہ ہے کہ یہ سارا کاروبار کس طرح چل رہا ہے؟ کیا صرف پنجاب پولیس اس ناسور کا خاتمہ کر سکے گی؟ سندھ حکومت اپنے کچے کے علاقوں میں کتنی کارروائی کرتی ہے، اور وہ کس قدر کامیاب ہے، اس کا پتہ ڈاکوؤں کی وارداتوں سے بخوبی ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز اور پالیسی سازوں نے دہشت گرد گروہوں کو بھی سنجیدہ نہیں لیا اور کریمنل مافیاز کی مختلف شکلوں پر بھی آنکھ بند کیے رکھی۔ ریاست اور حکومت انتہاپسند گروہوں اور تنظیموںکے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کے معاملے میں ہچکچاہٹ، کنفیوژن اور دوعملی کا شکار رہی ہے اور یہ رویہ اب تک جاری ہے۔ اب صورت حال زیادہ سنگین، پیچیدہ اور خطرناک ہو چکی ہے۔ پاکستان کے شمال مغرب میں انتہاپسند نظریات کا غلبہ ہے۔

دہشت گرد گروہ، مسلح قوم پرست تحریکیں اور کریمنل مافیاز کے درمیان مالیتی مفادات کا ایک رشتہ استوار ہو چکا ہے۔ یہ گروہ ایک دوسرے کے لیے فنانشل سہولت کاری کر رہے ہیں۔ اب ان گروہوں پر ارکان جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا ٹولز اور تھریڈز استعمال کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے پار انھیں ریاستی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ پاکستان کے خیبرپختونخوا، بلوچستان سے لے کر دریائے سندھ کے دونوں کناروں تک ایک چین بن چکی ہے۔ پاکستان کے سسٹم میں بھی نقب لگ چکی ہے۔ سیاست میں بھی کرائمز اور دہشت گردی آپس میں گڈمڈ ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے انتہاپسند نظریات کو کنٹرول کرنا حکومت کے لیے بھی مشکل بن چکا ہے۔ آئین اور قوانین میں ایسی تبدیلیاں کرائی جا چکی ہیں جن کی وجہ سے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا کسی بھی حکومت کے بس سے باہر نظر آ رہا ہے۔

پاکستان کے عوام کے مفادات اور ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے پاکستان کے ان اسٹیک ہولڈرز کو جو ملک کو اقوام عالم کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں، انھیں گومگو اور چونکہ چنانچہ کی ڈھیلی اور کمزور پالیسی کو ترک کرنا ہو گا۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آج کی دنیا میں انتہاپسندی اور تنگ نظری کی بنیاد پر کوئی ملک سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی معاشی طاقت بن سکتا ہے۔ مسلم دنیا کا المیہ یہی ہے کہ وہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہی برسرپیکار ہے۔ افغانستان، یمن، عراق، شام، صومالیہ، سوڈان، مالی، چاڈ اور موریطانیہ اس کی مثالیں ہیں۔ ایران اور پاکستان بھی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش بھی اندرونی خلفشار اور انتشار کا شکار ہو کر معاشی پسماندگی کی طرف جا رہا ہے۔

پاکستان کے پاس اس کی سب سے بڑی قوت آرمی ہے۔ پاکستان کے پاس پارلیمانی ادارے بھی موجود ہیں۔ جمہوری اقدار بھی پوری طرح فعال ہیں۔ پاکستان کے پاس سائنس دانوں اور اہل علم کی ایک بڑی فورس بھی موجود ہے۔ پورا ریاستی نظام ابھی تک فعال ہے۔ انتہاپسندوں، دہشت گردوں اور وائٹ کالرز کریمنلز مافیا پاکستان کے نظام اور اداروں کو مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ کچے کے ڈاکو انھی کے آف شاٹس ہیں۔ اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور پارلیمانی سیاسی قیادت کو جرأت مندی اور اعلیٰ پائے کے تدبر کا مظاہرہ کر کے پنجاب اور سندھ کے درمیان سارے کچے کے علاقے کو ڈاکوؤں، جرائم پیشہ گروہوں اور ان کے پشت پناہوں کے خلاف حکمت عملی تشکیل دینی ہو گی۔ اس سلسلے میں علاقائی وڈیروں، گدی نشینوں اور دیگر بااثر لوگوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ ایسا کر کے ہی پاکستان میں دہشت گردوں کا راج اور ڈاکو راج کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

راولپنڈی ٹیسٹ کے چوتھے دن کا کھیل ختم، پاکستان کے 23 رنز پر ایک آؤٹ

 راولپنڈی: پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے درمیان پہلے ٹیسٹ کے چوتھے روزپاکستان نے کھیل کے اختتام پر اپنی دوسری اننگ میں ایک وکٹ کے نقصان پر23 رنز بنا لیے۔

راولپنڈی میں کھیلے جارہے ہیں ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز کا کھیل ختم ہونے تک پاکستان کو بنگلہ دیش کی پہلی اننگ کا سکور برابر کرنے کیلیئے مزید 94رنز درکار ہیں۔ جبکہ عبداللہ شفیق 12رنز جبکہ کپتان شان مسعود 09رنز کیساتھ کریز پر موجود ہیں۔

دوسری اننگز کے آغاز پر اوپنر صائم ایوپ صرف ایک رنز بنا کر اوٹ ہو گئے، واحد وکٹ بنگلا دیشی باولر شرف السلام نے حاصل کی۔

اس سے پہلے چائے کے وقفے کے بعد بنگلا دیش کی ٹیم اپنی پہلی اننگ میں 565 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ مہمان ٹٰم نے پہلی اننگ میں پاکستان پر 117 رنز کی برتری حاصل کر لی۔

اس سے پہلے بنگلا دیش کا پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ سکور555 رنز تھا، مشفیق الرحیم نے 191 رنز کی شاندار اننگز کھیلی، اور گیارہویں ٹیسٹ سنچری بنائی۔ مشفیق الرحیم 191 رنز، شادمان اسلام 93 رنز، مہدی حسن میراز 77 رنز،لٹن داس 56 رنز،مومن الحق 50 رنز،شرف السلام 22 رنز،کپتان نجم الحسن شنتو 16 رنز ، شکیب الحسن 15 رنز، ذاکر حسن 12 رنز اور حسن محمود بغیر کوئی رنز بنأئے آؤٹ ہوئے جبکہ ناہید رانا ایک رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔

پاکستان کی جانب سے نسیم شاہ نے تین، شاہین شاہ افریدی، خرم شہزاد اور محمد علی نے دو، دو جبکہ صائم ایوب نے ایک وکٹ حاصل کی۔

بنگلا دیش کے کھلاڑیوں نے تیسری وکٹ کی شراکت میں 94 رنز، چھٹی وکٹ کی شراکت میں 114 رنز اور ساتویں وکٹ کی شراکت میں 196 رنز بنائے۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش نے چوتھے روز 316 رنز 5 وکٹوں کے نقصان پر اپنی پہلی اننگ کا دوبارہ اغاز کیاتھا، اس سے قبل پاکستان نے 448 رنز 6 کھلاڑی اوٹ پر اپنی پہلی اننگ ڈیکلیئر کر دی تھی۔

وزیراعظم کی دو ارب سے زائد لاگت کے منصوبوں کی ویلیڈیشن کرانے کی ہدایت

  اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے پروکیورمنٹ کے عمل کے حوالے سے شکایات اور تحفظات کے حل کا نظام مؤثر بنانے اور دو ارب روپے سے زائد کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کروانے کی ہدایت کردی۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت الیکٹرونک پروکیورمنٹ، ای-پاک ایکیوزیشن اینڈ ڈسپوزل سسٹم کے حوالے سے اجلاس ہوا۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت تمام قسم کی خریداریوں کے حوالے سے شفاف طریقہ کار رائج کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور اجلاس میں وزیراعظم نے پروکیورمنٹ کے عمل کے حوالے سے شکایات اور تحفظات کے حل کا نظام مؤثر بنانے کے لیے اس کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کی ہدایت کردی۔

انہوں نے کہا کہ پروکیورمنٹ کے عمل کے حوالے سے شکایات اور تحفظات کے حل کے نظام کو پروکیورنگ ایجنسی کے ماتحت نہیں ہونا چاہیے، اس حوالے سے قواعد و ضوابط میں ترمیم کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

وزیراعظم نے دو ارب روپے سے زائد کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کروانے کی ہدایت کردی۔

وزیراعظم کو ای-پروکیورمنٹ پر بریفنگ دی گئی اور اس دوران وزیرِ اعظم نے منصوبے پر عمل درآمد میں سست روی پر اظہار برہمی کیا، وزیراعظم کا کام کے معیار اور عمل کے نامکمل ہونے پر بھی ناراضی کا اظہار کیا، وزیراعظم نے ایک ماہ میں منصوبے کی تکمیل کی ہدایت کردی۔

بریفنگ کے دوران حکام نے بتایا کہ ای پروکیورمنٹ کا منصوبہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری نے ورلڈ بینک کی فنڈنگ سے 2017 میں شروع کیا، ای پروکیورمنٹ  منصوبے کی کل لاگت 45 ملین امریکی ڈالر ہے۔

حکام نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی 37 وزارتوں اور 301 پروکیورنگ ایجنسیوں میں ای پروکیورمنٹ کا نفاذ ہو چکا ہے، پی پی آر اے کی جانب سے پروکیورنگ ایجنسیوں کے 8 ہزار 988 آفیشلز کو ای پروکیورمنٹ کی تربیت دی جا چکی ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت  کا ای پروکیورمنٹ کے حوالے سے حجم تقریباً 1551 ارب روپے ہے، ای پروکیورمنٹ کے حوالے سے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتوں سے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جاچکے ہیں۔

اجلاس میں وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، وزیر پیٹرولیم مصدق ملک، وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔

آئی جی پنجاب کا کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کیلئے آئی جی سندھ سے رابطہ

  کراچی: پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس عثمان انور نے کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کے لیے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے رابطہ کیا اور ڈاکوؤں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔

ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ پنجاب اور سندھ پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کی خفیہ آپریشن کی شیئرنگ چلتی رہتی ہے، پنجاب پولیس کو اگر سندھ میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو پولیس اُن کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سندھ اور پنجاب کے باڈر ایریاز میں ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن میں دونوں صوبوں کی پولیس کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑتی رہی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

غلام نبی میمن نے کہا کہ آئی جی پنجاب عثمان انور اور میرے درمیان یہی گفتگو ہوئی ہے کہ سندھ میں گھوٹکی اور کشمور، پنجاب میں راجن پور اور رحیم یار خان کے باڈر ایریاز میں دونوں صوبوں کی پولیس فورس بھرپور کریک ڈاؤن کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ کچے میں باڈرز کا تعین انتہائی مشکل کام ہوتا ہے، 1997 میں میری پوسٹنگ کے وقت بھی کچے کے ڈاکو بارڈر ایریا کا فائدہ اٹھاتے تھے، اگر سندھ پولیس ان کے خلاف کارروائی کرتی تھی تو یہ پنجاب میں محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈتے تھے اور پنجاب پولیس بھی اگر ڈاکوؤں کے گرد گھیرا تنگ کرتی تھی تو یہ سندھ میں محفوظ مقام پر منتقل ہوجاتے تھے مگر اب صورتحال مختلف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب دونوں صوبوں کے آئی جیز ایک پیج پر ہیں اور پولیس نے ڈاکوؤں کے سرگرم گینگز جو کہ پولیس کو نشانہ بنا رہے ہیں ان کے خلاف مؤثر کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جس پر عمل بھی جلد نظر آئے گی۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ کچے میں بارشوں کے سیزن میں درمیانے درجے کی سیلابی صورت حال ہے اور پولیس کی حکمت عملی ہے کہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا جائے تاکہ کامیابی بغیر کسی نقصان کے بغیر مل سکے۔