گذری پولیس کے اے ایس آئی ندیم پر مصطفیٰ قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کی سہولت کاری کے الزامات
سامنے آنے کے بعد سی آئی اے پولیس نے اس سے پوچھ گچھ کی اور چھوڑ دیا۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ اے ایس آئی ندیم نے تفتیش کاروں کو بیان دیا کہ ملزم ارمغان پر مقدمات تھے جن میں وہ ضمانت کروا چکا تھا، ارمغان پر کیسز کی تفتیش کے سلسلے میں اس سے رابطہ ہوا اور بات چیت ہوئی تھی۔
اے ایس آئی ندیم نے کہا کہ میں کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہا ہوں۔
سی آئی اے پولیس نے کہا کہ دوبارہ اگر ضرورت پڑی تو اے ایس آئی ندیم کو پوچھ گچھ کیلئے طلب کریں گے۔
پولیس حکام کے مطابق اے ایس آئی ندیم کا ارمغان کے ساتھ کال ڈیٹا ریکارڈ ملا ہے، ملزم ارمغان نے مصطفیٰ سے قبل ایک لڑکی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
حکام کے مطابق لڑکی پر تشدد سے متعلق ارمغان کے خلاف کارروائی نہ کرنے میں اے ایس ندیم کے ملوث ہونے کی شبہات ہیں، ندیم کی بیان کے باوجود اس کے خلاف مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ہاں میرا بیٹا جانور ہے، وہ شیر کا شیر بیٹا ہے، ملزم ارمغان کے والد کی ایکسپریس سے گفتگو
دوسری جانب مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے والد محمد کامران قریشی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس میرے بیٹے کے ساتھ بہت زیادہ زیادتی کر رہی ہے ، پولیس نے میرے گھر میں 8 فروری کو چھاپے کے دوران اہم شواہد مسخ کر دیے، کیونکہ کیمروں کی فوٹیج سے پولیس خود پکڑی جا رہی تھی۔
محمد کامران قریشی نے کا کہنا تھا کہ پولیس نے میرے گھر کے تمام کیمرے توڑ دیے تاکہ حقائق سامنے نہ آسکیں ، پولیس کھانے پینے کی چیزیں بھی آٹھا کر اپنے ساتھ لے گئی شاید اس میں سے بھی کوئی شواہد نکالنے تھے، میرے گھر میں خوب لوٹ مار کی گئی جو میں ثابت کرونگا۔
ملزم ارمغان کے والد محمد کامران قریشی کا کہنا تھا کہ پولیس والے نے 8 فروری کو اپنے ہاتھ پر خود گولی مار کر میرے بیٹے پر الزام لگا دیا، میرے گھر سے ملنے والا تمام اسلحہ لائسنس یافتہ اور قانونی ہے، اصولی طور پر اسلحہ کی برآمدگی کا مقدمہ گزری تھانے درج کیا جانا تھا جو پولیس نے نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی تفتیش اور اقدامات میں بہت جھول ہے ، تفتیش کے دوران میرے بیٹے کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، تشدد کرنے والے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے اہلکار نہیں تھے، میرے بیٹے سے بہیمانہ تشدد کر کے اعتراف جرم کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کے بارے میں مقتول مصطفیٰ عامر کی والدہ نے متعدد بار کا ہے کہ ارمغان جانور، جانور ، جانور ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہاں میرا بیٹا جانور ہے کیونکہ وہ ایک شیر کا شیر بیٹا ہے۔
محمد کامران قریشی کا دعویٰ ہے کہ میں ثابت کرونگا کہ پولیس کی جاری کردہ ڈی این اے روپورٹ غلط ہے ، ایدھی کے مواچھ گوٹھ قبرستان سے نکالی جانے والے مسخ شدہ لاش مصطفیٰ عامر کی نہیں تھی ، معلوم نہیں کہ کس کی لاش کو نکال کر بولا گیا کہ یہ مصطفیٰ عامر کی لاش ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ عامر میرے بچوں کی طرح تھا ، اس کی اور اس کی والدہ کی آہ رائیگاں نہیں جائے گی ، مصطفیٰ عامر کی والدہ بھی جال میں پھنس گئیں اسے پولیس بے وقوف بنا رہی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ میڈیا نے میرے بیٹے کے کیس کو اپنی ریٹنگ کے چکر میں خراب کیا ، اب میں میڈیا کا سامنہ جب ہی کرونگا جب مجھے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا۔
مصطفیٰ عامر کے والدین نے پولیس کی تفتیش پر بھی سوال اٹھا دیے
ادھر سفاک ملزم ارمغان کے ہاتھوں قتل ہونے والے مصطفیٰ عامر کے والدین نے ایکسپریس سے خصوصی گفتگو وزیر اعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کردی۔
مصطفیٰ کی والدہ نے درخواست کی کہ چیف جسٹس واقعے کا نوٹس لیں، اگر انصاف نہیں کر سکتے تو ہمارا ملزم ہمارے حوالے کریں۔
مصطفیٰ عامر کے والدین نے پولیس کی تفتیش پر بھی سوال اٹھا دیئے، والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے کے قاتل کی سزا صرف موت ہے، تاوان کی کال کس نے کی تاحال تفتیش کار سراغ نہیں لگا سکے، میرے بیٹے کے قتل کی تفتیش کو منشیات کی جانب موڑدیا گیا۔
مقتول کی والدہ نے کہا کہ تفتیش میرے بیٹے کے قاتل کو سزا دلوانے کیلئے کی جائے، لگتا ہے ہمیں بھی کوئی مار کر چلا جائیگا اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔
والد مقتول مصطفیٰ نے کہا کہ بیٹے کے قاتل کو سزا نہیں ملی تو بھوک ہڑتال کردوں گا۔