آج 12 اپریل 2025 کا دن خبریں اخبار کے بانی ضیاشاہد کو ہم سے بچھڑے چار سال ہو چکے ہیں۔ آج کا دن صحافتی اعتبار سے تاریخی دن ہے۔ ضیا شاہد مرحوم نے کئی ادوار میں نشیب و فراز بھی دیکھے لیکن ان کی رہنمائی آج تک ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ بااثر طبقات جاگیردار وڈیرے بیوروکریسی ، کرپٹ عناصر اپنے مفادات کی ترجیح کو اولیت دیئے ہوئے ہیں۔ مظلوم اور بے بس عوام کی کوئی شنوائی نہیں۔ سیاستدانوں کی مصلحتیں اپنی جگہ زمینی و حقیقی دانش سے بے خبر تمام با اثر طبقات بے بس افراد کی آواز بننے کے بجائے ظلم و زیادتی کرنے والوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ضیا شاہد صاحب سے میرا تعلق 1982 سے ہے۔ انہوں نے روزنامہ نوائے وقت کراچی میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر جوائن کیا۔ چیف ایڈیٹر نوائے وقت گروپ مجید نظامی صاحب نے انہیں خصوصی طور پر اس ذمہ داری پرتعینات کر کے لاہور سے بھیجا تھا۔ نوائے وقت کو کراچی سے اجراءہوئے تین سال ہوئے تھے۔ ان تین سالوں میں کوششوں کے باوجود ممکنہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی جس کے بعد ضیا شاہد کو لاہور سے کراچی بھیجا گیا۔ اپنی فیملی کے ہمراہ کراچی شفٹ ہوگئے ، میں خود بھی نوائے وقت کراچی سے منسلک تھا۔ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ان سے دفتری کام کے باعث رابطہ رہا جو مسلسل ان کے بنائے گئے ادارے خبریں اور خبریں کے چیف ایڈیٹر امتنان شاہد صاحب سے یہ جاری ہے۔ خبریں سے مسلسل 32 سال اور ذاتی روابطہ جو ایک فیملی کی طرح ہے 42 سال مکمل ہورہے ہیں جو میرے لئے باعث اعزاز و فخر ہے۔ 1979ءسے اجرا ہو نے والے نوائے وقت کراچی کو ان تینوں سالوں میں مسلسل کوششوں کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا تھا جس کی مجید نظامی صاحب نے توقع کی تھی۔ ان کی مایوسی میں اضافہ ہوا تو انہوں نے ضیا شاہد کو نوائے وقت میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کراچی بھیجا۔ یہ اپنی فیملی کے ہمراہ کراچی شفٹ ہوگئے ان کی رہائش PECHS بلاک 6 میں تھی ان سے میرا رابطہ دفتر کے سلسلہ میں شروع ہوا جس کا تسلسل آج بھی ہے۔ چیف ایڈیٹر خبریں گروپ امتنان شاہد صاحب نے اس سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ضیا شاہد صاحب نے کراچی نوائے وقت میں جس بھر پور محنت لگن سے فرائض منصبی ادا کئے ، اخبار میں نئے نئے موضوع خصوصی طور پر سندھ اور اندرون سندھ کے مسائل کو اجاگر کر کے حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائی ، اخبار نے کراچی سمیت سندھ بھر میں مقبولیت کی مثال قائم کی لیکن کچھ عرصے بعد یہ لاہور منتقل ہوگئے۔ انہوں نے لاہور سے شائع جنگ کے اجرا میں اہم ذمہ داری پر کام شروع کر دیا چند روز میں ہی روزنامہ جنگ نے اپنی سرکولیشن میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا۔ ضیا شاہد کا یہ صحافتی پیشہ ورانہ انداز تھا یہ کسی غلط خبر یا غیرمیعاری مواد پر سمجھوتہ نہیںکرتے تھے نہ ہی اس بارے مصلحتوں کا شکار ہوتے۔ انہوں نے یہاں سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں محمد نواز شریف کے بھی بہت قریب تھے ان کا بااعتماد حضرات میں شمار ہوتا تھا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی سیاسی جماعت کے MPA اکبر بھٹی کا میڈیسن کے بزنس سے تعلق تھا کہا آپ ضیا شاہد کو Engage کریں اور ایک نیا اخبار نکالیں جس کے بعد انہوں نے روزنامہ پاکستان کے نام سے اخبار کا اجراءکیا جس نے فوری طور پر ہی میڈیا صنعت میں اپنا مقام پیدا کر لیا۔ یہاں ایم پی اے جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور میڈیسن کا بزنس تھا غیر ضروری غیر پیشہ وارانہ صحافتی ضوابط کے برعکس مداخلت شروع کر دی تو ضیا شاہد نے اس اخبار سے بھی علیحدگی اختیار کرلی اس کی وجہ ایم پی اے کی مداخلت غیر پیشہ ورانہ طور پر اتنی زیادہ ہو گئی جو کسی بھی لحاظ سے صحافتی اقدار کے قریب تر نہ تھی جس کی وجہ سے ضیا شاہد کو علیحدگی کا انتہائی اہم فیصلہ کرنا پڑا۔ میرا ضیا شاہد سے رابطہ تھا مجھے اکثر ضیاشاہد لاہور بلا لیتے میری ان سے ذہنی ہم آہنگی اور پھر اعتماد کا تعلق تھا مجھے حکم دیا کہ آپ فوری لاہور آئیں یہ سلسلہ اکثر جاری ہی رہا تھا مگر اس مرتبہ خاص ہو گیا اگر ان کی فیملی بیرون ممالک جاتی تو مجھے اس وقت بھی بلا لیتے تھے میں اکثر ہروقت ان کے ساتھ ہی رہتا تھا اس مرتبہ جب ہم ناشتے کی میز پر بیٹھے تو انہوں نے اظہار کیا کہ اب میں نے کسی اخبارمیں ملازمت نہیں کرنی اپنا ہی اخبار شروع کریں گے انہوں نے ڈرائنگ روم بیٹھے ہی قلم اور پیڈ منگوایا ، اخبارات کے نام لکھنا شروع کر دیئے ان کے مزاج میں تیزی بہت تھی فوری فیصلہ کرتے تھے انہوں نے اس وقت تقریباً100 کے قریب اخبارکے لئے نام لکھے فوری فیصلہ کیا کہ ”خبریں“ میں نے اس نام کے بارے میں کہا۔ ضیا شاہد صاحب یہ کیا نام ہے انہوں نے فوری کہا کہ اس کے علاوہ کوئی نام نہیں فوری طور پر اس وقت کے اعلیٰ خطاط ہاشم کو ٹیلی فون کیا اور انہیں ہدایت کی کہ فوری خبریں کے نام کی پیشانی تیار کر دیں اس طرح خبریں گروپ کے اجرا کی ابتدا ہوئی انہوں نے شب وروز اس کی کامیابی کے لئے کام کیا میں نے چونکہ عملاً انہیں کام کرتے دیکھا ہے انہیں کوئی شخص فالو نہیں کر سکتا کیونکہ اتنی محنت کرنے کی کسی بھی شخص میں سکت نہیں ان کا شیڈول میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جو حیران کن اور حوصلہ افزابھی ہے جو کسی انسان کی کا میابی کے لئے رہنمائی بھی ہے۔ یہ صبح 6 بجے سے کام کرنا شروع کرتے اپنے بنیادی ضروری کام بھی کرتے سب سے پہلے صبح 7بجے مکمل اخبارات کا مطالعہ کرتے خبریں سے موازنہ کرتے اور باقاعدہ نشانات لگاتے مسنگ خبریں اور اشتہارات پر نشان لگاتے 9 بجے ناشتے پر بیٹھتے 9.30 پر آفس کے لئے روانہ ہوجاتے 10 بجے آفس میں رپورٹر کی میٹنگ میں ان کی مسنگ اور غیر معیاری خبروں کی اشاعت پر توجہ دلاتے ان کی نہ صرف نشاندہی کرتے بلکہ انہیں اصلاحی ہدایات بھی دیتے اس کے بعد مارکیٹنگ سٹاف سے میٹنگ میں اشتہارات مسنگ اور ان کے حصول کے لئے پابند کرتے کرتے۔ فالو اپ کے لئے شام 5 بجے دوبارہ نتائج کے لئے شور کیا جاتا جبکہ بعد میں نیوز سیکشن سے میٹنگ ہوتی تاکہ خبریں کی اشاعت میں خصوصی توجہ دی جاسکے۔ اخبار کی لوح ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کا سلوگن دیا گیا جس نے عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کی یہ عوام کی آواز کرپشن اور ظلم و زیادتی کرنے والوں کے لئے خوف کی علامت بن گیا۔ انہوں نے عوامی مسائل کے لئے باقاعدہ طور پر ایک خصوصی ٹیم بنائی جو ظلم و زیادتی اور لوٹ مار کرنے کی نشان دہی کرتی تھی انہیں اولیت کے ترجیح طور پر اجاگر کیا جاتا۔ عوامی مسائل کے لئے خصوصی ڈیسک بنایا تھا جہاں زیادہ سے زیادہ مظلوم ، مجبور عوام ان سے رابطہ کرتے یہ ان مظلوم عوام کے لیے خصوصی طور پر نہ صرف کوشش کرتے بلکہ انہیں حل کر کے متاثرہ لوگوں کو ان کا حق دلواتے یہ عمل اس وقت کسی بھی اخبار سے منفرد تھا جو عوامی سطح پر نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ سرکاری افسران کی بھی کافی حدتک اصلاح کا باعث ثابت ہوا۔ خبریں اخبار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس کا بانی پیشہ ور تجربہ کا رصحافی تھا جس کا مقصد محنت سے کا میابی حاصل کرنا تھا جتنے کم عرصے میں خبریں گروپ نے کامیابی حاصل کی وہ بھی منفرد مثال ہے پہلے خبریں لاہور اسلام آباد چند عرصے بعد ملتان، خبریں کراچی، خبریں حیدرآباد، خبریں سکھر، خبریں پشاور ، خبریں آزاد کشمیر، اس کے علاوہ نیا اخبار لاہور، اسلام آباد کراچی سے بیک وقت شائع کیا جا رہا ہے جبکہ سندھی زبان میں خبرون کراچی حیدر آباد سکھر، اسلام آباد ، خبراں پنجابی بیک وقت شروع کیا جا رہا سندھی زبان میں خبروں کی اشاعت کے وقت ضیا شاہد کی صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گڑھی یٰسین شکار پور کے علاقے میں آغاز میں سابق جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور سینئر سیاستدان آغا سراج درانی نے ضیا شاہد کے نام سے ایک سٹریٹ کا نام ضیا شاہد سٹریٹ رکھا ہے جس کا تذکرہ آغارفیق نے اپنی حالیہ شائع ہونیوالی کتاب میں بھی کیا ہے جس کی تقریب 17 اپریل 2025ءکو مقامی ہوٹل کراچی میں منعقد ہو رہی ہے ضیا شاہد کے بڑے فرزند عدنان شاہد جنہیں خصوصی طور پر انگلش میڈیا کے لئے بیرون ممالک بھیجا جہاں انہوں نے جدید تقاضوں کے مطابق تربیت حاصل کی اور پاکستان واپسی پر دی پوسٹ انگریزی زبان میں لاہور اسلام آباد اور کراچی سے بیک وقت شائع کیا اور تھوڑے عرصے میں ہی کا میابی حاصل کر لی لیکن افسوس ناک بات یہ تھی کہ عدنان شاہد اپنے والد ضیا شاہد کو بوجہ علالت بیرون ملک لے گئے ان کے ہمراہ باجی یاسمین اور ڈاکٹر نوشین بھی تھیں واپسی پر لندن میں ایک ٹریول ایجنسی سیٹ کنفرم کرانے گئے تھے کہ اچانک انہیں ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا یہ افسوس ناک سانحہ ضیا شاہد کی فیملی کیلئے المناک واقعہ تھا جس کے بعد ضیا شاہد کو کس قدر تکلیف کا سامنا ہوگا یہ ایک باپ ایک ماں ایک بھائی اور ایک بہن ہی محسوس کر سکتے ہیں اس سانحے کے باوجود ضیاشاہد نے ہمت نہیں ہاری وہ ایک باہمت شخصیت تھے انہوں نے زندگی کے آخری سانس تک خبریں گروپ کو ترجیح دی اگر یہ کہا جائے کہ ضیا شاہد کے دو بیٹے عدنان شاہد ، امتنان شاہد، ڈاکٹر نوشین بیٹی تین اولاد ہیں ان کی ایک اولاد خبریں گروپ بھی ہے جسے شب و روز محنت کرکے اس کی پرورش کی جو اس وقت سینکڑوں افراد کی وابستگی سے ان کے خاندان کے لئے باعث روز گار ہے جو اس وقت امتنان شاہد چیف ایڈیٹر خبریں گروپ کی سربراہی میں کامیابی کے سفر میں رواں دواں ہے۔ ضیا صاحب اے پی این ایس کے سینئر نائب صدر اور سی پی این ای کے صدر کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔ ان کے صاجزادے موجودہ خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر امتنان شاہد بھی اے پی این ایس کے سینئر نائب صدر کے منصب پر رہے ہیں۔ ان میں ضیا شاہد کا عکس واضع ہے یہ ایک شاگرد کی حیثیت سے ضیا شاہد کو اپنا استاد بھی مانتے ہیں جس کا باقاعدہ اظہار کرتے ہیں ضیا شاہد کی کراچی آمد میں سیاسی ملاقاتوں ، اے پی این ایس، سی پی این ای کے اجلاسوں میں شرکت یا خصوصی انٹرویوں میں ان کے ہمراہ ہوتا تھا ان کا کام کرنے کا انداز مکمل طور پر صحافتی پیشہ ورانہ تھا مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت اللہ راشدی ( پیر پگارا) کی رہائش گاہ کنگری ہاﺅس انٹرویو کے لئے گئے ان کا انٹرویو ٹیپ کیا گیا اس کے بعد ہم نے سردار عطا اللہ مینگل سے ملاقات کے لئے جانا تھا ضیا صاحب نے کہا یہ ٹیپ کسی رپورٹر کو دیدیں وہ اسے لکھ لے ہم جب تک سردار عطااللہ مینگل سے ملاقات کرلیتے ہیں واپسی پر یہ مکمل کرلے گا واپسی دفتر آئے ضیا شاہد صاحب نے وہ انٹریو چیک کیا اور فوری کہا کہ ایک سطر نہیں لکھی گئی میں نے بڑے اعتماد سے کہا رپورٹر نے مکمل کی مکمل لکھا ہے انہوں نے دوبارہ انٹرویو کو چیک کیا اور کہا چیف صاحب لکھی ہے پھر بھی دیکھ لیتے ہیں ضیاشاہد نے برہمی کا اظہا کرتے ہوئے جنرل منیجر کو بلوایا کہا کہ وحید جمال کی ٹکٹ بھی منگوادیں۔ یہ میرے ساتھ اسلام آباد جائیں گے۔
۔اسلام کی رو آنگی میں ابھی دو دھائی گھنٹے باقی تھے ہم اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گئے میری ضیاشاہد صاحب سے بے تکلفی تھی مجھے جہاز میں بیٹھ کر نیند محسوس ہو رہی تھی ضیا شاہد صاحب نے انٹرویو نکالا اور پھر پڑھنا شروع کر دیا میں نے ضیاشاہد صاحب سے کہا تھوڑی دیر نیند کر لیں اسلام آباد پڑھ لیجیئے گا مجھے کہا آپ سوجائیں اور پھر انٹرویو پڑھنا شروع کر دیا اسلام آباد آفس پہنچے اپنے روم میں بیٹھے ریسٹ بھی نہیں کیا پھر انٹرویو پڑھنا شروع کر دیا مجھے کہا آپ فریش ہو جائیذ آخر کار انہوں نے ٹیپ میں وہ سطر سن لی جورپورٹر نے تحریر نہیں کی تھی مجھے بلایا اور ٹیپ سنائی پھر انٹرویو دکھایا آپ ذرا چیک کرلیں ٹیپ میں یہ جملہ موجود ہے یہ تحریر میں کہا ہے وہ واقعی تحریر میں نہیں تھا۔ لیکن ٹیپ میں موجود تھا انہوں نے حسب مزاج حسب رد عمل دیا مجھے آج تک یہ جملہ جو میری زندگی میں باعث رہنمائی ہے نہیں بھول سکتا کہ جو کسی کام کی تکمیل میں باعث عمل نہیں ہوتا اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ شخص کبھی ترقی نہیں کر سکتا جہاں آپ کو شبہ نظر آئے فوری طور پر اس سے مطمئن ہوں یہ صلاحیت چیف ایڈیٹر امتنان شاہد صاحب میں بھی ہے کہ وہ جب تک مطمین نہ ہوں کوئی بھی رائے نہیں دیتے موجودہ حالات میں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں مہنگائی کا طوفان ، پیکا ایکٹ کئی قسم کی مجبوریاں حائل ہے میڈیا گروپ انڈسٹری اس وقت بحرانی کیفیت کا شکار ہے ان حالات میں میڈیا گروپ کو جو چیلجز ہیں ان کا اندازہ میڈیا گٓروپ کے مالکان ہی لگا سکتے ہیں ان حالات میں میڈیا انڈسٹری کے حالات ناگفتہ بیان ہیں اس صورت حال میں چیف ایڈیٹر امتنان شاہد جس تنگ دستی و محبت سے ضیا شاہد کے لگائے ہوئے پودے جو اس وقت بھر پور تن آور درخت بن چکا ہے جس کے ثمرات سیکڑوں ملازمین کی فمیلی استفادہ حاصل کر رہی ہے یہ امتنان شاہد کی شب و روز محنت کا حاصل ہے یہ اپنے والد ضیا شاہد کے نقش قدم پر چل کر اس کارواں کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔