بھارتی شہری یعقوب حبیب الدین توسی، جو خود کو مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا وارث قرار دیتے ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش کو خط لکھا ہے، جس میں اورنگزیب عالمگیر کے مقبرے کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت میں اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور تقریباً ایک ماہ قبل ناگپور میں اسے مطالبے کے تحت نکالی گئی ایک ریلی کے دوران پرتشدد جھڑپیں ہوئیں اور فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
یعقوب حبیب الدین توسی نے خط میں کیا لکھا؟
یعقوب حبیب الدین توسی، جو خود کو اس مزار کی وقف جائیداد کا متولی بھی قرار دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ مقبرہ قومی اہمیت کی یادگار قرار دیا جا چکا ہے اور یہ 1958 کے قدیم یادگاروں اور آثارِ قدیمہ کے مقامات و باقیات کے قانون کے تحت محفوظ ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھیجے گئے خط میں کہا گیاکہ ’اس قانون کے تحت کسی بھی غیر مجاز تعمیر، تبدیلی، تباہی یا کھدائی کی اجازت نہیں، اور ایسا کوئی بھی عمل غیر قانونی اور قابل سزا ہوگا۔‘
انہوں نے مزار کی موجودہ حالت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہاں سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں۔
یعقوب توسی نے اپنے خط میں کہا کہ ’تاریخی حقائق کی غلط ترجمانی، فلموں، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی جذبات کو گمراہ کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں بلاوجہ مظاہرے، نفرت انگیز مہمات، اور علامتی حملے جیسے کہ پتلے جلانا جیسے واقعات سامنے آ رہے ہیں‘۔
انہوں نے بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ثقافتی ورثے کا تحفظ اور اس کی دیکھ بھال ضروری ہے۔
خط میں بھارت کی عالمی ثقافتی اور قدرتی ورثے کے تحفظ سے متعلق یونیسکو کے کنونشن، 1972 پر دستخط کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’کسی بھی یادگار کی تباہی، نظراندازی یا غیر قانونی تبدیلی، بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہوگی‘۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے اور بھارت کی مرکزی حکومت اور آثار قدیمہ کے ادارے (ASI) کو ہدایت دے کہ اورنگزیب کے مزار کو مکمل قانونی تحفظ، سیکیورٹی اور دیکھ بھال فراہم کی جائے۔
تنازع کا سبب وکی کوشل کی فلم ‘چھاوا’؟
اِس تنازع کا آغاز اُس وقت ہوا جب حال ہی میں بھارتی اداکار وکی کوشل کی فلم ‘چھاوا’ ریلیز ہوئی جس میں مغل بادشاہ اورنگ زیب کی سفاک منظرکشی نے پہلے سے موجود مسلم مخالف جذبات کو مزید ہوا دی۔
اس دوران مسلم ناموں سے منسوب کئی علاقوں اور سڑکوں کے ناموں پر سیاہی ملنے کے واقعات رونما ہونے لگے اور سوشل میڈیا پر مغل بادشاہ اورنگ زیب کے خلاف طرح طرح سے نفرت کا اظہار کیا جانے لگا۔
ابھی یہ سلسلہ جارہا تھا کہ سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو عاصم اعظمی نے ایک بیان دے دیا کہ مغل بادشاہ ایک اچھے منتظم تھے لیکن تاریخ میں انہیں غلط طریقے سے پیش کیا گیا تھا۔
ابو عاصم اعظمی کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ردعمل میں انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے اورنگزیب عالمگیر کی قبر اکھاڑنے کا مطالبہ سامنے آنے لگا۔
خود وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے بھی چھترپتی سنبھاجی نگر ضلع کے علاقے خلد آباد میں واقع مغل بادشاہ اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کے مطالبے کی حمایت کردی تھی
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب یہی چاہتے ہیں لیکن یہ کام قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جانا چاہیے، کیونکہ کانگریس کہ دورِ حکومت میں اِس مقبرے کو محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر کے تحفظ کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔
اس سے قبل بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ادین راجے بھوسلے، جو مراٹھا بادشاہ چھترپتی شیواجی مہاراج کی نسل سے ہیں، انہوں نے بھی اس مقبرے کو گرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ‘ایک بلڈوزر بھیج کر اس (اورنگزیب) کی قبر مسمار کر دو، وہ چور اور لٹیرا تھا’۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ جو لوگ اورنگزیب کے مقبرے پر جاتے ہیں اور اسے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، انہیں اس مقبرے کو اپنے گھر لے جانا چاہیے، لیکن اورنگزیب کی شان میں قصیدے پڑھنے کا سلسلہ مزید برداشت نہیں کیا جائے گا
ادین راجے بھوسلے نے مطالبہ کیا کہ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے جو چھترپتی سنبھاجی مہاراج کے بارے میں غلط بیانات دیتے ہیں۔
قبل ازیں 4 مارچ کو بی جے پی لیڈر نونیت رانا نے بھی اورنگ زیب کی قبر کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘میں مہاراشٹر حکومت سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح اورنگ آباد کا نام بدل کر ہمارے بھگوان سمبھاجی مہاراج کے نام پر رکھا گیا تھا، اسی طرح اورنگزیب کی قبر کو بھی مسمار کر دیا جائے’
بعدازاں گزشتہ ماہ 17 مارچ کو مغل بادشاہ اورنگ زیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کے مطالبے پر ناگپور میں باقاعدہ احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور نعرے بازی کی گئی جس کے نتیجے میں علاقے میں فسادات پھوٹ پڑے اور ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کرنے پر مجبور ہوگئے جوکہ خود اس مطالبے کا حامی ہیں۔
مظاہرے کے دوران پتھراؤ اور پرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے اور علاقے میں کرفیو بھی نافذ کردیا گیا، اب تک اس واقعہ میں ملوث92 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔