عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج بہت گہری ہوگئی، عامر ضیا

تجزیہ کار عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ اس سارے مسئلے میں ہمیں ایک چیز نظر آئی وہ یہ کہ آپ نے سوشل میڈیا پہ ٹرینڈنگ دیکھی کہ کس طریقے سے درست کو غلط اور غلط کو درست بنایا گیا ہے، باقاعدہ مہم لانچ کی گئی ہے جیسے 26 نومبرکے واقعے پر کہ لیڈر شپ بھاگ کھڑی ہوئی اور لاشوں کی تلاش کا ایک بیانیہ بنا دیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں تو ہمیشہ کہتا ہوں کہ جب آپ 2024 کے الیکشن میں دھاندلی کی بات کریں تو دونوں کا اکٹھا کرلیں 2018 کے ساتھ۔

تجزیہ کار عامر ضیا نے کہا کہ ہم چیزوں کو ایک اور زوایے سے دیکھتے ہیں، نظر یہ آ رہا ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان خیلج بہت گہری ہو گئی ہے کیونکہ سسٹم ڈیلیور نہیں کر رہا ہے تو لوگ آدھے سچ کو بھی پورا سچ مان رہے ہیں، ان کو سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ جو بھی نفی کی سیاست کرتا ہے مزاحمت کی سیاست کرتا ہے مقبول ہو جاتا ہے۔

تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے کہا میں اس کو گزشتہ حالات کے ساتھ جوڑتا ہوں، 8 فروری کے الیکشن بالکل اس پر اعتراضات ہیں، درست اعتراضات بھی ہیں، اسی طریقے سے جس طرح 2018 کے انتخابات پر اعتراضات تھے، اس لیے استحکام کا کوئی امکان تھا نہیں کیونکہ یہ لڑائی اتنی شدت اختیار کر گئی تھی، ہر چیز قوم کے سامنے ہے، ہمارے ہاں سیاست کے اندر ایک بڑا فریق اسٹیبلشمنٹ رہی ہے، اب اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم ہونا چاہیے یا کم ہونا چاہیے۔

’’منزل حاصل کرنے کیلیے ہمیں سمت کا بھی جائزہ لینا ہوگا‘‘

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ یہ جو تین سال کی بات ہو رہی ہے کہ ہم 3 سال میں ترقی یافتہ ملکوں کے برابر کھڑے ہو جائیں گے اور جو باقی ٹارگٹس ہیں یہ کوئی انتخابی نعرے تو ہو سکتے ہیں، کسی الیکشن میں کھڑے ہو کر آپ بالکل یہ دعوے کر سکتے ہیں، کوئی حرج نہیں، خواب ہمیشہ بڑے دیکھنے چاہئیں۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ معاشی استحکام کی بات ہو رہی ہے وہ ہوئی ہے، شوکت عزیز کے دور سے میں عام لوگوں تک پہنچنے والے اثرات کا انتظار کر رہا ہوں۔

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ وزیراعظم نے ایک پروگرام دیا ہے ہمیں پازیٹو ہو کر سوچنا چاہیے، ہمیں گمان کرنا چاہیے کہ وہ اس پروگرام پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب ہو جائیں،منزل کو حاصل کرنے کیلیے جس سمت کی ضرورت ہے اس کا ہم اور آپ کو جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہماری سمت درست ہے؟۔

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ شہباز شریف نے فروری میں آ کر جس طریقے سے حکومت سنبھالی اور جتنی تنقید کا سامنا تھا، سیاسی عدم استحکام ، معاشی عدم استحکام ، ملاتے چلاتے ہوئے آئی ایم ایف کا پلان لینا اور آج اس سچویشن کو بہتر کرنا کہ مہنگائی کی جو بڑھتی ہوئی رفتار تھی اس کو نیچے لے کر آئے۔

تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ سب سے پہلے ایک چیز کا اعتراف کرنا چاہیے کہ معاشی استحکام وہ حکومت نے کسی حد تک حاصل کر لیا ہے، ہم مہنگائی کو دیکھیں، شرح سود کو دیکھیں، زرمبادلہ کے ذخائر کو دیکھیں، اگر ہم ایک سال پیچھے جائیں تو ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر تھے اس کے مقابلے میں اب ہم ڈیفالٹ سے نکل آئے ہیں۔

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ پلان تو بنا لیا ہے اب اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے اس میں گورنمنٹ کے ساتھ اپوزیشن کو بھی شامل ہونا پڑے گا تاکہ اس پر جاکر میثاق معیشت جو ہے اس پر جو بات چیت کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اگر یہ ہے کہ پلان کو مسلسل لیکر چلیں پانچ سال کے لیے اگر الیکشن ہوتے ہیں تو یہ پالیسیاں تبدیل نہیں ہونی چاہئیں۔

کراچی، سال نو پر ہوائی فائرنگ کے الزام میں 30 ملزمان گرفتار، اسلحہ برآمد

پولیس نے شہر قائد کے مختلف علاقوں میں سال نو کی تقریبات کے دوران ہوائی فائرنگ اور شور و غل کرنے کے الزام میں 30 ملزمان کو گرفتار کر لیا اور ان کے قبضے سے اسلحہ برآمد کیا۔

ایس ایس پی غربی طارق الہی مستوئی کے مطابق، ضلع غربی پولیس نے سال نو پر ہوائی فائرنگ میں ملوث 12 ملزمان کو گرفتار کیا۔ ان ملزمان میں تھانہ اورنگی سے 3، منگھوپیر سے 3، سرجانی سے 2، گلشن معمار سے 2، پاکستان بازار سے 1 اور مومن آباد سے 1 ملزم شامل ہیں۔ پولیس نے ان ملزمان کے قبضے سے فائرنگ میں استعمال ہونے والے 13 پستول اور رائفلز برآمد کیں۔

ایس ایس پی کیماڑی کپیٹن (ر) فیضان علی کا کہنا تھا کہ ضلع کیماڑی پولیس نے سال نو کے موقع پر ہوائی فائرنگ میں ملوث 6 ملزمان کو گرفتار کیا۔ یہ ملزمان تھانہ ڈاکس سے 2، سعیدآباد سے 2، اتحاد ٹاؤن سے 1 اور تھانہ جیکسن کی حدود سے 1 ملزم تھے۔ پولیس نے ان کے قبضے سے فائرنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد کیا۔

ایس ایس پی ضلع وسطی ذیشان شفیق صدیقی نے اطلاع دی کہ ضلع وسطی پولیس نے سال نو پر ہوائی فائرنگ کے الزام میں 7 ملزمان کو گرفتار کیا۔ ان میں خواجہ اجمیر نگری سے 2، لیاقت آباد سے 1، سپر مارکیٹ سے 1، جوہر آباد سے 1 اور سرسید کی حدود سے 2 ملزمان شامل ہیں۔ پولیس نے ان ملزمان سے اسلحہ بھی برآمد کیا۔

ترجمان کورنگی پولیس کے مطابق، کورنگی کے مختلف علاقوں میں سال نو کی رات ہوائی فائرنگ اور شور شرابے میں ملوث 11 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں 2 ملزمان زمان ٹاؤن، 3 ملزمان کورنگی انڈسٹریل ایریا اور 6 ملزمان لانڈھی سے گرفتار کیے گئے ہیں۔ پولیس نے شور و غل اور ہلڑ بازی کے الزام میں گرفتار ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔

تمام گرفتار ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے اور پولیس نے عوامی تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

وصولیاں 386 ارب روپے کم، آئی ایم ایف شرط پوری نہ ہوئی

غیر حقیقی اہداف کے باعث پاکستان60 کھرب روپے کے محصولات جمع کرنے کی آئی ایم ایف کی بنیادی شرط پوری نہ کرنے میں ناکام رہا، پہلی ششماہی میں مجموعی وصولیاں ہدف سے386 ارب روپے کم رہیں۔

اس دوران حکومت تاجر دوست اسکیم کے تحت 23.4ارب روپے جمع کرنے کا آئی ایم ایف کا ہدف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔

ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس وصولی کا رجحان ظاہرکرتا ہے کہ حکومت منی بجٹ کا مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف سے ہدف کم کرنے کی بات کرے۔

اعدادوشمار کے مطابق پہلی ششماہی کے 60.09 کھرب ہدف کے برعکس ایف بی آر نے دسمبر تک 56.23 کھرب ٹیکس جمع کیا، اس دوران وصولیوں کا شارٹ فال 386 ارب روپے رہا، تاہم یہ شارٹ فال ابتدائی تخمینوں سے کم ہے۔

اس دوران وصولیوں میں اضافہ40 فیصد کے بجائے 26 فیصد رہا، یوں ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال کی نسبت 11.6کھرب روپے زائد وصول کئے، جوکہ پہلی سہ ماہی میں ایک فیصد سے کم شرح نمو اور8 فیصد افراط زر رکھنے والی معیشت کیلئے اگرچہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔

تاہم ٹیکسیشن کے حوالے سے حکومتی اقدامات اور غلط مفروضوں کی بنیاد پرطے 130 کھرب کے قریب سالانہ ہدف کی باعث حکام کو سخت دباؤکا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق شارٹ فال کے باوجود رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں 275 ارب کا ری فنڈ ادا کیا گیا، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 234 ارب کا ری فنڈ دیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے پہلی ششماہی کی وصولیوں کے جائزہ کے بعد پاکستان سے منی بجٹ کا کہنے کا فیصلہ کیا تھا، آئی ایف کی نظر میںبالواسطہ محصولات یعنی سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی کے اہداف کے حصول میں سنگین مسائل درپیش ہیں۔

رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے دباؤپر حکومت نے بنیادی استعمال کی اشیاء بشمول سٹیشنری، بیکری آئٹمز اور میڈیکل ٹیسٹوں تک جنرل سیلز ٹیکس لگا دیا، جس سے سیلز ٹیکس مد میں 19کھرب کی وصولی ہوئی جوکہ گزشتہ سال کی اس مدت سے 25فیصد زائد مگر ہدف سے 179ارب کم ہے۔

اسی طرح ایف بی آر سمینٹ، لبریکینٹ آئل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈبل کرنے کے باوجودہدف سے 107ارب روپے کم وصول کئے، کسٹم ڈیوٹی بھی ہدف سے 156وصول کی۔

ٹرمپ انتظامیہ سے تعلقات، دفترخارجہ میں سفیروں نے سر جوڑ لیے

نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے 20 جنوری کو دوسری مدت کیلیے عہدہ سنبھالنے کے تناظر میں منگل کو وزیرخارجہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت اہم ملکوں میں تعینات پاکستانی سفیروں کی کانفرنس ہوئی جس میں واشنگٹن، ماسکو، بیجنگ، نیویارک، جنیوا اور افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیروں نے شرکت کی۔

کانفرنس میں نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا گیا۔

ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایاکہ اس کانفرنس میں  شریک سفیرکسی دوسرے اجلاس کیلیے آئے  ہوئے تھے لہذا اس کانفرنس میں برطانیہ ،ایران اوربھارت میں تعینات سفیرموجود نہیں تھے ۔

ذرائع کے مطابق اس کانفرنس میں نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مراسم  کے علاوہ افغانستان اور چین کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا گیا۔

ٹرمپ کے دوسری بار برسراقتدار آنے کے بعد مغربی دنیا سمیت کئی دارالحکومتوں میں ہل چل مچی ہوئی ہے۔البتہ پاکستان جو اب امریکی انتظامیہ کی ترجیحات میں نہیں ہے کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس کانفرنس میں واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیرنے نئی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی رائے پیش کی۔اس ضمن میں دفترخارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق کانفرنس میں خارجہ سیکرٹری آمنہ بلوچ،ایڈیشنل فارن سیکرٹریز اور سینئرڈائریکٹرزجنرل نے بھی شرکت کی۔

کانفرنس کے شرکا ء نے سال 2025ء کے حوالے سے  دنیا میں رونما ہونے والی علاقائی اور عالمی  تبدیلیوں پراپنا نقطہ نظر پیش کیا۔

وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے  بھی خارجہ پالیسی کے حوالے  سے اپنی رائے دی۔وزیرخارجہ نے کہا پاکستان دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنا چاہتا ہے ۔

انہوں نے سفیروں پر زور دیا کہ وہ  عالمی سطح پر پاکستان کے پروفائل کوبہتربنائیں اور عالمی سطح پر دوسرے ملکوں کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط کریں۔پاکستانی سفیروں کی سالانہ کانفرنس یوں تو معمول کی بات ہے لیکن مختصردورانیے کی یہ کانفرنس بھی خاص اہمیت کی حامل ہے۔

ایٹمی جنگ چھڑی تو 6 ارب 70 کروڑ افراد ہلاک ہو جائیں گے، تحقیقاتی رپورٹ

پہلی عالمگیر جنگ کے بعد عالمی تنازعات کو تصادم سے پہلے ختم کرنے کی نیت سے ’لیگ آف نیشنز‘ قائم کی گئی تھی، لیکن یہ ادارہ عالمی امن کی ضمانت فراہم کرنے میں بْری طرح سے ناکام ثابت ہوا۔ اسے قائم ہوئے دو دہائیاں بھی نہ گزریں تھیں کہ دنیا ایک نئی عالمی جنگ کے شعلوں میں جل رہی تھی۔

جب ایک ایسی بڑی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہوں تو یہ اندیشہ پوری شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے کہ اگر جنگ ایٹمی ٹکرائو میں تبدیل ہوگئی تو پھر کیا ہوگا؟۔ حال ہی میں معتبر جریدے ‘Nature Food’ میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں ایٹمی تصادم کی صورتحال میں ممکنہ تباہ کاریوں کا ایک جائزہ مرتب کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کو کمپیوٹر سیمولیشن (Simulations) کی مدد سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونے والی تابکاری، حدت اور دھماکے کے دھچکے سے چلنے والی تباہی کی لہر کی سمت اور شدت کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں فضاء اور ماحول میں آنے والی منفی تبدیلیوں اور زراعت پر مضر اثرات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو 6 ارب 70 کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور خوراک کی ترسیل کا سارا نظام تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔

امریکہ، کینیڈا، یورپ کے بہت سے حصوں میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ امریکا کی 98 فیصد آبادی بھوک سے ہلاک ہوجائے گی۔ یہ تعداد 31 کروڑ 12 لاکھ بنتی ہے۔

جنوبی امریکا، آسٹریلیا اور کئی چھوٹے خطے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کو نسبتاً بہتر طور پر سہہ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان ممالک کی زراعت زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے جس بنا پر یہاں تباہ کاری کو برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔

ارجنٹائن، برازیل، یوراگوئے، پیرا گوئے، آسٹریلیا، آئس لینڈ اور اومان زراعت کے معاملے میں مستحکم ممالک ہیں۔ یہ ممالک عالمی بحران کے باوجود اپنے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل رہیں گے۔

لائیو اسٹاک (مویشیوں) پر انحصار کرنے والا غذائی نظام تین طرح کے حالات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اول یہ کہ مویشی ہلاک نہیں ہوتے اور غذائی نظام کام کرتا رہتا ہے۔ دوم یہ کہ پہلے سال کے اندر دنیا بھر کے آدھے مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں اور مویشیوں کی آدھی خوراک انسان کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہے۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مویشیوں کی آدھی خوراک انسانوں کے زیر استعمال لائی جائے اور آدھی سے مویشی گزارہ کریں۔

اس صورت میں خوراک کے ذرائع محدود ہوں گے اور صرف انتہائی بنیادی ضرورتیں ہی پوری ہو پائیں گی۔ جنگ دوسرے سال میں داخل ہوگئی تو لوگوں کو کم ترین غذائیت کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا۔ایٹمی حملے کا فوری اثر انسانی زندگیوں پر پڑے گا۔

قبرص میں واقع ’یونیورسٹی آف نکوسیا‘ میں بھی حال ہی میں ایک تحقیق ہوئی ہے جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایٹمی حملے کی صورت میں زندگی بچانے کا بہترین طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔

اس مقصد کے لئے تصوراتی طور پر 750 کلو ٹن طاقت کے بم کے حملے کو بنیاد بنایا گیا۔ (یہ بم ’ناگاساکی‘ پر گرائے جانے والے بم سے تین گْنا زیادہ طاقت کا ہوگا۔) تحقیق سے ثابت ہوا کہ محفوظ ترین جگہ گھر کا وہ کمرہ ہوگا جو دروازے کھڑکیوں سے دور کسی کونے میں ہوگا۔ ایسی جگہ مناسب ہوگی جو شدید دھچکے کی لہر اور شدید آندھی سے تحفظ دے سکے۔

حالیہ مہینوں میں عالمی طاقتوں میں تنائو کی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلے دنوں روس کے سابق صدر ’دمتری مدوادیو‘ نے کہا تھا ’’روس کے جنگ میں آزمائے ہوئے میزائل مغربی ممالک کے دفاعی حصار کو چکما دے کر آناً فاناً یورپی شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر ان میزائلوں کے وار ہیڈ ایٹمی ہوئے تو یورپ اس نقصان کا تصور بھی نہیں کر سکتا یہ نقصان ناقابل قبول ہو گا۔

ان میزائلوں کو مار گرانا آج کے جدید ترین دفاعی نظاموں کے بس کی بات نہیں، یہ سارا چند منٹوں کا کھیل ہے‘‘۔ روس نے پہلے ہی اپنی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کیلئے درکار خطرے کی شدت میں کمی کر دی ہے۔ اب اس میں یہ گنجائش پیدا کرلی گئی ہے کہ روس اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اگر مخصوص شدت کے روایتی ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں ایٹمی ہتھیار استعمال کئے جا سکتے ہیں۔

ایسے ممالک لوگوں کے لئے جائے پناہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ انٹاریکٹیکا ایٹمی تصادم کی صورت میں محفوظ ترین مقام ہوگا۔ یہ دنیا کے آخری کنارے پر واقع ہے۔ اس کی کوئی تزویراتی اہمیت نہیں اور یہ انتہائی وسیع و عریض علاقہ ہے۔ ہزاروں لوگ یہاں پناہ حاصل کرسکتے ہیں۔ آئس لینڈ جنگ میں کسی کی حمایت نہیں کرے گا لیکن یورپ پر ہونے والے حملوں کے کچھ اثرات یہاں بھی پہنچیں گے۔ نیوزی لینڈ ایک تو غیر جانبدار ملک رہے گا دوسرا یہ کہ یہ ملک پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لئے ایٹمی اثرات سے محفوظ رہے گا۔

2024، سیاسی تناؤ، عدالتی اصطلاحات اور اہم قانون سازی کا سال

2024 ء پاکستان کیلیے سیاسی طور پر بڑا اور تبدیلی کا سال ثابت ہوا۔جس میں عام انتخابات، اہم قانون سازی میں تبدیلیاں، عدالتی اصلاحات ، مسلم لیگ ن کی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مسلسل تعطل کا شکار رہا۔

گذشتہ برس حکمران اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اختلافات گہرے ہوتے گئے جبکہ پی ٹی آئی انتخابی عمل، حکومت کی تشکیل اور اس کے نتیجے میں قانون سازی کی تبدیلیوں کے جواز کو چیلنج کرتی رہی۔

حکومت کی جانب سے قانون سازی کے دباؤ خصوصاً عدالتی اصلاحات نے نہ صرف چیف جسٹس کے انتخاب کا عمل تبدیل کر دیا بلکہ لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ عدلیہ کے پروں کو کاٹ دیا گیا۔

ہر گزرتے مہینے کے ساتھ، سیاسی ڈرامے متعدد محاذوں پر کھیلے گئے۔ پارلیمنٹ میں شعلہ انگیز تقاریر سے لے کر اعلیٰ درجے کی قانون سازی اور احتجاج سے کریک ڈاؤن تک۔ حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کی جماعتیں بیانیے کی مسلسل جنگ میں مصروف رہیں۔

گزشتہ برسوں کی طرح سیاسی و معاشی عدم استحکام، امن و امان کی صورتحال، عدالتی آزادی، انتخابی سالمیت اور فوجی اثر و رسوخ سب سے آگے رہا۔

ایسا لگتا تھا سیاسی منظر نامے پر غیر یقینی صورتحال ہی واحد یقینی چیز تھی۔ عام انتخابات جو 2023 ء میں ہونا تھے لیکن 8 فروری 2024 ء کو کرائے گئے، جس نے سیاسی ڈرامے کو دوبارہ ترتیب دیااور دھاندلی کے الزامات نے انتخابی عمل کوداغدارکردیا،جس میں پری پول دھاندلی سے پولنگ کے بعد کی بے ضابطگیوں تک کے الزامات تھے۔

ان دعوؤں کے باوجود، مسلم لیگ ن کا اتحاد کامیاب ہوا اور مخلوط حکومت قائم کی، جس سے شہباز شریف کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔

مخلوط حکومت نے جمہوری و سیاسی منظر نامے کی نازک نوعیت اجاگر کرتے ہوئے ایک اور معلق پارلیمنٹ بنانے کے لیے PML N، PPP، MQM-P اور دیگر کو ساتھ لیا۔

عام انتخابات سے پہلے، دوران اور بعد میں الیکشن کمیشن تنازعات کا مرکزرہا۔ پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھیننے کے فیصلے پر تنقید اور تعصب کے الزامات لگے۔انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر نے شکوک و شبہات کو ہوا دی، جس نے اس عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

مخصوص نشستوں کے حل نہ ہونے والے مسئلے نے پیچیدگی کی ایک اور تہہ ڈال دی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی معطلی نے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے محروم کر دیا۔ یہ تعطل جس نے الیکشن کمیشن کو عدلیہ اور مقننہ کے درمیان پھنسا دیا، اس کی ساکھ ختم ہو گئی اور سیاسی تناؤ میں اضافہ ہوا۔

اس سال نے انتخابی عمل میں اعتماد بحال کرنے کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔دو اہم قانون سازی کی کارروائیوں نے سیاسی بیانیے کی وضاحت کی۔

نومبر میں، پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کا بل منظور کیا۔ اس اقدام کو ملکی سیاست میں فوجی اثر و رسوخ مضبوط کرنے کے طور پر دیکھا گیا لیکن سیاسی جماعتوں اور مبصرین کی جانب سے محدود ردعمل حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

دوسرا وہ تھا جب 26ویں ترمیم نافذ کی گئی۔ بظاہر، اس ترمیم نے عدلیہ کے پروں کو کاٹ دیا، اس کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش میں جسے حکمران اتحاد نے “عدالتی حد سے تجاوز” کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس قانون سازی نے حزب اختلاف کے ساتھ بحث کا آغاز کیا کہ اس نے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کیا جبکہ حامیوں نے اسے ریاستی اداروں کے درمیان توازن کی بحالی کی جانب ایک قدم قرار دیا۔

صدر زرداری کی واپسی سیدھی نہیں تھی کیونکہ ان کے بیٹے، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم ہاؤس کی دوڑ چھوڑنی پڑی ۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان اور اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں اور حامیوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن تک، پارٹی کو مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان کوجیل سال بھر مرکزی نقطہ رہی۔

سال 2024 توانائی قیمتوں کے حوالے سے زیادہ خوشگوار نہ رہا

سال 2024 توانائی قیمتوں کے حوالے سے زیادہ خوشگوار نہ رہا، صارفین کو اگرچہ بجلی کی قیمتوں میں کچھ ریلیف ملا، لیکن زیادہ تر بلند قیمت کا ہی سامنا کرنا پڑا.

وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے  وعدے پر اقتدار میں آئی، لیکن اپنے تمام تر دعووں کے باجود عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی، ابھی بھی بجلی قیمت صارفین کی استطاعت سے باہر ہے.

پاور ڈسٹربیوشن کمپنیاں ( ڈسکوز) بھاری نقصان کا شکار ہیں، جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے، جو صارفین کو بھگتنا پڑ رہا ہے، آئی پی پیز کے ساتھ ناقص معاہدوں نے مزید بوجھ ڈالا.

حکومت آئی پی پیز سے معاہدوں کو سدھارنے پر کام کر رہی ہے، وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی کے نتیجے میں جون 2024 سے صنعتی صارفین کیلیے بجلی 11.33 روپے فی یونٹ جبکہ گھریلو صارفین کیلیے بجلی 4.66 روپے فی یونٹ کم ہوئی ہے.

تاہم بلند و بانگ حکومتی دعووں کے باجود بجلی کی قیمت 44.04 روپے فی یونٹ صارفین کی استطاعت سے بہت زیادہ ہے، جبکہ حکومتی ٹیکسز شامل کرکے بجلی کی قیمت 64 روپے پر پہنچ جاتی ہے، حکومت بجلی بلوں پر 50 فیصد سے زیادہ ٹیکس وصول کر رہی ہے.

گردشی قرضے بڑھ کر 2.636 ہزار ٹریلین روپے تک پہنچ گئے ہیں، جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 2.5 فیصد ہیں، یہ گردشی قرضوں کو 2.31 ہزار ارب روپے تک محدود رکھنے کے حکومتی ہدف سے کہیں زیادہ ہے.

دسمبر 2023 کے اختتام پر گردشی قرضہ 2.551 ہزار ارب روپے تھا، حکومت کی جانب سے ماہانہ اور سہہ ماہی فیول ایڈجسٹمنٹ میں اضافوں کے باجود گردشی قرضہ بڑھتا چلا گیا، جس کی بنیادی وجہ صارفین سے بلوں کی عدم وصولی، ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن کے نقائص ہیں.

ادھر بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافوں کے بعد صارفین تیزی سے سولر پر شفٹ ہورہے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق 7 ہزار میگاواٹس سے زیادہ بجلی سولر پینلز کے ذریعے سسٹم میں شامل ہوچکی ہے.

حکام کے مطابق ماہانہ 80 میگاواٹ بجلی نیٹ میٹرنگ کے ذریعے نیشنل گرڈ میں شامل ہورہی ہے، جبکہ زرعی شعبہ مکمل طور پر سولر پر شفٹ ہوچکا ہے، تاہم حکومت کی جانب سے آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی کی وجہ سے ریلیف کے کچھ آثار نظر آرہے ہیں.

حکومت کیسیپٹی پیمنٹس کے خاتمے کیلیے آئی پی پیز کو راضی کرنے پر کوشاں ہیں، انرجی لاگت میں کیپیسٹی پیمنٹس 70 فیصد ہے، بجلی کی پیداواری لاگت اس وقت 9.25 روپے فی یونٹ ہے، جبکہ صارفین 18 روپے فی یونٹ کیپیسیٹی پیمنٹس کی صورت میں ادا کر رہے ہیں.

 پاور پلانٹس کو بغیر بجلی پیدا کیے سالانہ 2.5 ہزار ارب روپے کیپیسیٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں، حکومت اب تک 5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو ختم کرچکی ہے، جبکہ مزید 18 کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔

’ اُڑان پاکستان پروگرام ‘ 2 سے 3 برسوں میں آئی ایم ایف سے نجات دلا دے گا، وزیر خزانہ

وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ’اڑان پاکستان پروگرام‘ دو سے تین برسوں میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے نجات دلا دے گا کیونکہ معیشت مستحکم ہوچکی، اب نجی شعبہ آگے آئے۔

انھوں نے تقریب سے خطاب میں کہا 2028ء تک جی ڈی پی کی شرح 6 فیصد ،سالانہ 10 لاکھ اضافی ملازمتیں اور 60 ارب ڈالرکی برآمدات ہمارا مطمع نظر ہے اور برآمدات پرمبنی نمو اورنجی شعبہ کی قیادت میں پائیدار نمو پروگرام کے اہم نکات ہیں، ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا عمل مکمل کرکے آگے بڑھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پروگرام کے تحت ہماری گروتھ ریٹ برآمدات پر مبنی ہوگی۔آئی ٹی گریجویٹس کی تعداد میں سالانہ ہزاروں کا اضافہ کیا جائے گا۔

2035ء تک ملک کو ہزار ارب ڈالر کی معیشت کی بنیاد فراہم کرنا ہے اور اس  کے تحت شرح خواندگی کو فروغ اور غربت میں کمی لائی جائے گی۔

وزیر خزانہ سے اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے ملاقات کی،جس میں موخرالذکر نے مالیاتی ڈھانچہ مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کا جائزہ فراہم کیا۔

وزیر خزانہ سے  امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے الوداعی ملاقات کی، جس میں اقتصادی تعاون اور تعلقات سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیرخزانہ نے کہا امریکہ، پاکستان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے، وہ ہماری مصنوعات اور خدمات کیلئے اہم منڈی ہے، دونوں ممالک  اقتصادی تعلقات سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار ہیں۔

انھوں نے میکرو اکنامک استحکام کیلئے اصلاحاتی ایجنڈے پر زور دیا اور آئی ایم ایف سے قرض دلانے پر شکریہ  ادا کیا۔

امریکی سفیر نے اقتصادی اصلاحات و ترقی کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

وزیر خزانہ  نے  چین میں پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی سے ملاقات میں مضبوط اقتصادی سفارت کاری کی اہمیت  اجاگر کرتے ہوئے معیشت میں وسیع تر اقتصادی شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا۔

سال 2024 کا آخری اور سال 2025 کا پہلا مقدمہ کس تھانے میں درج ہوا؟ جانیے

سال 2024 میں آخری مقدمہ تھانے رائے ونڈ سٹی پولیس تھانہ اور سال 2025 کا پہلا مقدمہ تھانہ چوہنگ میں درج کیا گیا۔

دونوں مقدمات میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں، جن میں پولیس نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔

تھانہ چوہنگ پولیس نے ملزم محمد قاسم کے خلاف غیر قانونی اسلحہ رکھنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ ملزم کو ایس ایچ او چوہنگ، انسپکٹر ناصر حمید نے اپنی ٹیم کے ہمراہ کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کیا۔ پولیس کے مطابق ملزم گجرات کا رہائشی ہے اور اس کے قبضہ سے غیر قانونی رائفل اور گولیاں برآمد ہوئیں۔ ایس ایچ او چوہنگ نے ملزم کو تفتیش کے لیے تھانہ منتقل کر دیا۔

دوسری جانب، رائے ونڈ سٹی پولیس نے نیو ایئر نائٹ کے موقع پر کامیاب کارروائی کرتے ہوئے ملزم غلام مصطفی کو اسلحہ سمیت گرفتار کیا۔ پولیس کے مطابق ملزم کے قبضہ سے رائفل اور گولیاں برآمد ہوئیں۔ ایس ایچ او رائے ونڈ سٹی، وقار بخاری کی قیادت میں یہ کارروائی کی گئی جس میں ایس پی صدر ڈاکٹر غیور احمد خان کی نگرانی شامل تھی۔

ایس پی صدر ڈاکٹر غیور احمد خان اور دونوں ایس ایچ اوز، انسپکٹر ناصر حمید (چوہنگ) اور وقار بخاری (رائے ونڈ سٹی) نے پولیس ٹیم کی کامیاب کارروائی پر شاباش دی اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کی۔

پولیس نے دونوں ملزمان کے خلاف مزید تفتیش شروع کر دی ہے اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے معاملے میں قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔