لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں ایک بات واضح تھی کہ جو الزامات عمران خان ان پر لگاتے رہے یا مسلم لیگ (ن) پر لگاتے رہے۔ انہوں ے باری باری سب کی تردید کر دی۔ شاید میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنا اپنا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اب شہباز شریف، عمران خان کے خلاف بننے والے سکواڈ
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں ایک بات واضح تھی کہ جو الزامات عمران خان ان پر لگاتے رہے یا مسلم لیگ (ن) پر لگاتے رہے۔ انہوں ے باری باری سب کی تردید کر دی۔ شاید میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنا اپنا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اب شہباز شریف، عمران خان کے خلاف بننے والے سکواڈ کے سپریم کمانڈر بن گئے ہیں۔ اب وہ پارٹی کے صدر بھی ہیں اور اگلے وزیراعظم کے امیدوار بھی ہوں گے۔ نوازشریف اور مریم نواز کے عاشقوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے ہچکچاتے ہوئے شہباز شریف کا نام لیا اس پر عاشق رو پڑے۔ آج ڈویژن واضح ہوئی ہے شہباز شریف اب سیاسی جنگ لڑیں گے۔ ان کی آج کی پریس کانفرنس عمران مخالف تھی۔ پریس کانفرنس کے بعد امتنان شاہد نے مجھ سے پوچھا کہ آج کی پریس کانفرنس کا کی نوٹ کیا تھا انہوں نے کہا آخری جملہ اس کا نوٹ تھا جس میں پوچھا گیا کہ آپ پنجاب کو چھوڑ کر اب باقی پاکستان میں کب جائیں گے۔ انہوں نے جواب دیا ابھی تو قائم مقام صدر بنا ہوں پورا صدر بنوں گا تو پورے پاکستان میں جاﺅں گا۔ زرداری کے خلاف انہوں نے ایک بات بھی نہیں کی۔ میرے خیال میں اب ان کا اہم ٹارگٹ نگران حکومت کا سیٹ اپ ہے۔ جاوید اشرف میرے بہت ہی اچھے دوست ہیں۔ وہ بھی عاشقانِ شہباز شریف میں ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی سینٹ کا الیکشن جیت گئے۔ جاوید اشرف صاحب جب مال روڈ پر ایک جلوس کے افتتاح پر پولیس آئی اور لاٹھی چارج ہوا وہ ایک پرائیویٹ بینک میں گھس گئے۔ سکیورٹی گارڈ نے ان کے سینے کی طرف کر کے سیدھی گولی چلائی اور وہ موقع پر شہید ہو گئے۔ شہباز شریف کے آج کے بیان کے مطابق فیصل سبحان نام کا کوئی شخص موجود ہی نہیں اس کے برعکس رات اے آر وائی کے پروگرام میں ارشد شریف دھواں دار تقریر فرما رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ ان کاغدات کے مطابق فیصل سبحان کا نام یہاں موجود ہے اس کے دستخط بھی موجود تھے۔ اگر اس چینل کا دعویٰ درست ہے تو اسے پیش کر دیں۔ شہباز شریف صاحب کے کتنے ہی فرنٹ مین موجود ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس کا 99 فیصد حصہ عمران کے لگائے ہوئے الزامات کی تردید پر مشتمل تھا آخر میں کہا کہ فیصل سبحان کا تو وجود ہی کہیں ثابت نہیں ہوا۔اخبارات کے لئے سرکاری اشتہارات کو محدود کرنے کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے صدر سی پی این ای، چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد نے کہا کہ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ پہلا پہلو تو یہ ہے کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ورکرز کو سیلری ملنی چاہئے معاوضے ملنے چاہئیں۔ لیکن یہ دیکھیں تو یہ ایک سرکل ہوتا ہے اخبارات جو چھپتا ہے تو ایک انکم اس کی سرکولیشن سے آتی ہے۔ لیکن 30 فیصد بھی نہیں ہوتی اخبار گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ یعنی اگر اس پر لاگت 15 روپے فی پرچہ آتی ہے تو وہ 7.50 روپے کا جاتا ہے۔ 16 صفحوں کے اخبار پر اس وقت لاگت تقریباً گیارہ روپے آتی ہے یہ کمی اشتہارات پوری کرتے ہیں۔ اے پی این ایس کا میں دو سال سینئر وائس پریذیڈنٹ رہا۔ دو سال عارف نظامی کے ساتھ رہا۔آج کل ایڈیٹروں کی کونسل یعنی سی پی این ای کا میں صدر ہوں۔ یہ دونوں تنظیمیں پچھلے 60 سال سے منتخب باڈی ہیں۔ الیکشن ہوتے ہیں ہمارے لوگوں کا موقف ہے سپریم کورٹ شوق سے اس سے بھی زیادہ سخت قوانین بنائے۔ لیکن ہمارے واجبات کہاں ہیں۔ حکومت کے مختلف محکمے چھوٹا سا ہمارا ادارہ ہے جو جنگ اور نوائے وقت کی طرح 70 سال پرانا تو نہیں ہے۔ اس کے واجبات بھی 16½ کروڑ روپے ان نیوز ایجنسیوں کی طرف سے ہیں جنہوں نے وہ پیسے آگے حکومتی اداروں سے لینے ہیں ہمارا موقف یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب ذرا سی توجہ اس جانب بھی فرمائیں ایک نوٹس ان کو بھیجیں کہ جناب جو اشتہارات آپ نے چھپوائے ہوئے ہیں۔ مسعود ہاشمی اس وقت جیل میں ہیں۔ میڈاس کے چیئرمین انعام اکبر صاحب جیل میں ہیں۔ ان پر الزامات ہیں کہ وہ زیادہ پیسے حکومت سے وصول کرتےے تھے۔ اخبارات کو کم دیتے تھے۔ اگر یہ الزام درست بھی ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ مجید نظامی مرحوم صاحب کے زمانے میں ایک کمیٹی بنی تھی۔ اس میں مجیب الرحمن شامی اور میں بھی شامل تھے۔ میڈاس والے انعام اکبر کا مسئلہ تھا۔ شہباز شریف صاحب نے کہا مجید نظامی صاحب بڑے ہیں۔ یہ نہ آئیں میں خود ان کے گھر آ جاتا ہوں۔ ہم ان کے گھر بیٹھے۔ رمیزہ مجید نظامی بھی وہاں موجود تھیں شامی صاحب بھی تھے۔ سرمد علی صاحب کے سربراہ بھی تھے۔ (اے پی این ایس والے) وانی صاحب بھی تھے اور پرویز رشید صاحب بھی تھے۔ اس وقت یہ ایڈوائزر تھے۔ اس میں دلچسپ انکشافات ہوئے۔ حتیٰ کہ آخر میں مجید نظامی نے شہباز شریف سے کہا جن پیسوں کا جھگڑا ہے اس میں 15 فیصد لینے ہیں تو لے لیں۔ چھوڑنا ہے تو چھوڑیں جیل بھیجنا ہے تو بھیجیں۔ ”سارھے 85 فیصد کڈو“ اس پر شہباز شریف نے کہا آڈٹ کروا لیتے ہیں۔ ایجنسی پر الزام تھا کہ وہ دوبارہ اس پر کمیشن لے رہا ہے اس پر انہوں نے کہا فروگوسن سے یا اچھے ادارے سے آڈٹ کروا لیتے ہیں۔ مہینے بعد پتا چلا کہ کسی ادارے کو اجامت نہیں ہے کہ حکومتی ادارے کے علاوہ آڈٹ کروا سکے۔ وہ مسئلہ وہیں رہ گیا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ ایک تو یہ ٹھیک ہے ہمیں پریشرائیز کریں۔ جب مجھے نوٹس ملے تو یہ سوا یا ڈھائی کروڑ بنتے تھے۔ 16½ کروڑ روپے ہم نے سرکاری اشتہاروں کے لینے ہیں۔ وہ کون دلوائے گا۔ سپریم کورٹ دلوائے۔ یہ پیسے وصول کر کے پہلے ورکروں کو دے دیں باقی بچیں تو ہمیں دے دیں۔ دوسرا پہلو یہ کہ تین دن سے سپریم کورٹ نے آبزرو کیا کہ آج کل صوبائی یا مرکزی حکومتوں کے جو اشتہارات چھپتے ہیں۔ اس میں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی تصویریں ہوتی ہیں۔ سندھ میں وزیراعلیٰ، آصف زرداری یا بلاول بھٹو کی تصویریں ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ محسوس کیا کہ الیکشن کی ابھی تاریخ سامنے نہیں آئی۔ نگران حکومت نہیں بنی۔ لیکن یہ پیسے ضائع کئے جا رہے ہیں۔ انہیں ”پروجیکشن“ کیلئے پیسہ پارٹی فنڈز سے خرچیں۔ حکومتی پیسہ استعمال نہ کریں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کہتا کہ اگر آپ کسی منصوبے کے افتتاح کے لئے کسی ہسپتال کے لئے یا پل کے لئے اشتہار دینا چاہتے ہیں تو آپ اس میں سے وزیراعلیٰ کی تصویر اڑا دیں۔ ادارہ اپنا اشتہار دے۔ سپریم کورٹ عدالت ہے ہم تو قانون کے پابند ہیں ہم تو احترام کے پابند ہیں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے تصویر کٹوانے کی بجائے اشتہارات ہی پرسوں سے بند کروا دیئے ہیں۔ ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ ابھی مجھے کیپٹل ٹی وی والے احمدریاض شیخ صاحب نے فون کیا۔ دو اخبارات سے فون آئے سرمد علی کا فون آیا کہ آپ نے ہمارا بیان پڑھ لیا ہے؟ پھر مجھے ایکسپریس سے فون آیا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے۔ میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ میں ایک ”ریپرزیشن“ کریں کہ جناب سرکاری اشتہار کی بندش کبھی کسی جمہوری دور میں نہیں لگی۔ کسی سپریم کورٹ نے آج تک پابندی نہیں لگائی۔ یہ کس طرح سپریم کورٹ ہے۔ کسی کی تصویر سے ہمیں کیا دلچسپی ہے۔ آپ تصویریں کٹوا لیں۔ پرویز خٹک کی نہ چھپنے دیں بند کر دیں۔ اشتہارات کے ذریعے محکموں کی پروجیکشن جب سے پیدا ہوئے ہیں، ہوتی آئی ہے۔ دونوں شعبے ہی ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ ورکرز کے واجبات فوری ادا کریں۔ ہم نے تو ڈر کے مارے 8,7 دنوں تک لسٹیں بناتے رہے۔ اور کہا کہ 31 تاریخ تک ساری ادائیگی کر دیتے ہیں۔ اخبارات میں سب سے زیادہ سٹف نیوز پرنٹ استعمال ہوتا ہے۔ یہ باہر سے آتا ہے۔ پلیٹ باہر سے آتی ہے پرنٹنگ سیاہی باہر سے آتی ہے۔ مشینری باہر سے آتی ہے۔ کمپیوٹرز باہر سے آگے ہیں۔ کلر سکینر باہر سے آتے ہیں۔ کوئی آلہ بھی اس میں لوکل میڈ استعمال نہیں ہوتا۔ ڈالر ریٹ بڑھتا ہے اس کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ نیوز پرنٹ کی مد میں 30 فیصد اخراجات۔ دو ماہ قبل 86 روپے تھا۔ اب یہ 106 روپے سے اوپر چلا گیا ہے۔ اس سے زیادہ اوپر جائے گا۔ اخبارات مجبور ہو جائیں گے کہ 16 کی بجائے 12 صفحات پر اخبار نکالیں۔ معاشی ابتلائکے اس دور میں سرکاری اشتہار بھی صرف اس لئے بند کرنا کہ کسی لیڈر کی پبلسٹی ہوتی ہے اس کی تصویر نہ چھاپیں۔ اس وقت سب سے اہم حکومتی سیکٹر کا اشتہار ہے۔ جوو آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاہد مسعود صاحب آپ کے لگائے ہوئے سارے الزامات غلط قرار پائے ہیں آپ اس پر کیا کہتے ہیں۔ تحقیقات میں انہوں نے کہا ہے کہ نہ تو عمران کی جان کو خطرہ ہے نہ ہی وہ کوئی ویڈیو فلمیں بنانے کے کام میں شریک تھا۔ نہ باقیباتوں میں شریک تھا۔ میں نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ سرگودھا سے پکڑا جانے والا ملزم خود اس کی تصدیق کر چکا ہے۔ جو 600 بچوں کی ویڈیو فلمیں بنا کر ناروے کی کمیٹی کو سپلائی کر چکا ہے۔ 100 سے زیادہ یورو کی فلم اسے معاوضہ ملا ہے لگتا ہے تحقیقات کو نامکمل رہ گئی ہیں؟ میرا نہیں خیال کہ ڈاکٹر شاہد مسعود معافی مانگیں گے۔ وہ سب کچھ فیس کریں گے۔ سرگودھا کا ملزم تو سب کچھ قبول کر رہا ہے۔ یہ قانون اتنا ناقص ہے جس میں آخری سزا کی حد 7½ سال قید ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے سب سے زیادہ سزا 3 سال ہوئی ہے اس کا مطلب ڈیڑھ سال قید اور اس کے علاوہ چھوٹا بھی مل جاتی ہے۔ترجمان پی ٹی آئی نعیم الحق نے کہا ہے کہ عمران خان نے دو ٹویٹ کی ہیں جس میں الزام لگایا کہ فیصل سبحان نامی شخص کو چھپا دیا گیا ہے جس کے پاس شہباز شریف کے خلاف ساری معلومات تھیں۔ چینی کمپنی جس ملتان میں کام کیا ہے اس نے اس شخص سے پوچھ گچھ بھی کی ہے۔ نجی چینل نے اس پر بات کی تھی ہم بھی چینی کمپنی سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ پچھلے 30 سال سے شریف خاندان نے ہر منصوبے پر کمیشن کمایا ہے۔ اس میں وہ اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ انہیں پکڑنا ہی مشکل ہے۔ ایل این جی میں ان کا بہت بڑا کمیشن چھپا ہوا ہے اس کی تفصیل موجودہ وزیراعظم بتا نہیں رہے۔ اب نیب اس پر تحقیقات کرے گا۔ میں خود بھی بنا گالہ میں رہتا ہوں۔ اس کے نقشے کے حوالے سے من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے۔ سی ڈی اے کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ میری نگاہوں کے سامنے 6,5 مکان اس گلی میں بنے ہیں انہوں نے کسی قسم کا نقشہ پاس نہیں کروایا۔ یہ ابھی تک دیہی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان کا گھر موضع نور میں ہے۔ پاکستان کے کسی گاﺅں میں بھی لوگ اپنی مرضی سے گھر بناتے ہیں اور نقشہ کی ضرورت نہیں ہوتی زیادہ سے زیادہ تحصیل میں نقشہ جمع کروا دیا جاتا ہے۔ سی ڈی اے بتا دے کہاں قانون میں لکھا ہے کہ دیہی علاقوں میں بھی نقشے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا ہے کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا اس کے پیچھے طاقتور لوگوں کا ہاتھ نہیں ہے؟ کیا ملزمان کو پشت پناہی حاصل نہیں ہے؟ کیا وہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا کاروبار نہیں چل رہا آپ نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ اس پر جے آئی ٹی بنی ٹھیک ہے انہوں نے تحقیقات کی ہیں لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ سارا میڈیا زینب اور اس کے قاتلوں کو چھوڑ کر میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔
کے سپریم کمانڈر بن گئے ہیں۔ اب وہ پارٹی کے صدر بھی ہیں اور اگلے وزیراعظم کے امیدوار بھی ہوں گے۔ نوازشریف اور مریم نواز کے عاشقوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے ہچکچاتے ہوئے شہباز شریف کا نام لیا اس پر عاشق رو پڑے۔ آج ڈویژن واضح ہوئی ہے شہباز شریف اب سیاسی جنگ لڑیں گے۔ ان کی آج کی پریس کانفرنس عمران مخالف تھی۔ پریس کانفرنس کے بعد امتنان شاہد نے مجھ سے پوچھا کہ آج کی پریس کانفرنس کا کی نوٹ کیا تھا انہوں نے کہا آخری جملہ اس کا نوٹ تھا جس میں پوچھا گیا کہ آپ پنجاب کو چھوڑ کر اب باقی پاکستان میں کب جائیں گے۔ انہوں نے جواب دیا ابھی تو قائم مقام صدر بنا ہوں پورا صدر بنوں گا تو پورے پاکستان میں جاﺅں گا۔ زرداری کے خلاف انہوں نے ایک بات بھی نہیں کی۔ میرے خیال میں اب ان کا اہم ٹارگٹ نگران حکومت کا سیٹ اپ ہے۔ جاوید اشرف میرے بہت ہی اچھے دوست ہیں۔ وہ بھی عاشقانِ شہباز شریف میں ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی سینٹ کا الیکشن جیت گئے۔ جاوید اشرف صاحب جب مال روڈ پر ایک جلوس کے افتتاح پر پولیس آئی اور لاٹھی چارج ہوا وہ ایک پرائیویٹ بینک میں گھس گئے۔ سکیورٹی گارڈ نے ان کے سینے کی طرف کر کے سیدھی گولی چلائی اور وہ موقع پر شہید ہو گئے۔ شہباز شریف کے آج کے بیان کے مطابق فیصل سبحان نام کا کوئی شخص موجود ہی نہیں اس کے برعکس رات اے آر وائی کے پروگرام میں ارشد شریف دھواں دار تقریر فرما رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ ان کاغدات کے مطابق فیصل سبحان کا نام یہاں موجود ہے اس کے دستخط بھی موجود تھے۔ اگر اس چینل کا دعویٰ درست ہے تو اسے پیش کر دیں۔ شہباز شریف صاحب کے کتنے ہی فرنٹ مین موجود ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس کا 99 فیصد حصہ عمران کے لگائے ہوئے الزامات کی تردید پر مشتمل تھا آخر میں کہا کہ فیصل سبحان کا تو وجود ہی کہیں ثابت نہیں ہوا۔اخبارات کے لئے سرکاری اشتہارات کو محدود کرنے کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے صدر سی پی این ای، چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد نے کہا کہ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ پہلا پہلو تو یہ ہے کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ورکرز کو سیلری ملنی چاہئے معاوضے ملنے چاہئیں۔ لیکن یہ دیکھیں تو یہ ایک سرکل ہوتا ہے اخبارات جو چھپتا ہے تو ایک انکم اس کی سرکولیشن سے آتی ہے۔ لیکن 30 فیصد بھی نہیں ہوتی اخبار گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ یعنی اگر اس پر لاگت 15 روپے فی پرچہ آتی ہے تو وہ 7.50 روپے کا جاتا ہے۔ 16 صفحوں کے اخبار پر اس وقت لاگت تقریباً گیارہ روپے آتی ہے یہ کمی اشتہارات پوری کرتے ہیں۔ اے پی این ایس کا میں دو سال سینئر وائس پریذیڈنٹ رہا۔ دو سال عارف نظامی کے ساتھ رہا۔آج کل ایڈیٹروں کی کونسل یعنی سی پی این ای کا میں صدر ہوں۔ یہ دونوں تنظیمیں پچھلے 60 سال سے منتخب باڈی ہیں۔ الیکشن ہوتے ہیں ہمارے لوگوں کا موقف ہے سپریم کورٹ شوق سے اس سے بھی زیادہ سخت قوانین بنائے۔ لیکن ہمارے واجبات کہاں ہیں۔ حکومت کے مختلف محکمے چھوٹا سا ہمارا ادارہ ہے جو جنگ اور نوائے وقت کی طرح 70 سال پرانا تو نہیں ہے۔ اس کے واجبات بھی 16½ کروڑ روپے ان نیوز ایجنسیوں کی طرف سے ہیں جنہوں نے وہ پیسے آگے حکومتی اداروں سے لینے ہیں ہمارا موقف یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب ذرا سی توجہ اس جانب بھی فرمائیں ایک نوٹس ان کو بھیجیں کہ جناب جو اشتہارات آپ نے چھپوائے ہوئے ہیں۔ مسعود ہاشمی اس وقت جیل میں ہیں۔ میڈاس کے چیئرمین انعام اکبر صاحب جیل میں ہیں۔ ان پر الزامات ہیں کہ وہ زیادہ پیسے حکومت سے وصول کرتےے تھے۔ اخبارات کو کم دیتے تھے۔ اگر یہ الزام درست بھی ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ مجید نظامی مرحوم صاحب کے زمانے میں ایک کمیٹی بنی تھی۔ اس میں مجیب الرحمن شامی اور میں بھی شامل تھے۔ میڈاس والے انعام اکبر کا مسئلہ تھا۔ شہباز شریف صاحب نے کہا مجید نظامی صاحب بڑے ہیں۔ یہ نہ آئیں میں خود ان کے گھر آ جاتا ہوں۔ ہم ان کے گھر بیٹھے۔ رمیزہ مجید نظامی بھی وہاں موجود تھیں شامی صاحب بھی تھے۔ سرمد علی صاحب کے سربراہ بھی تھے۔ (اے پی این ایس والے) وانی صاحب بھی تھے اور پرویز رشید صاحب بھی تھے۔ اس وقت یہ ایڈوائزر تھے۔ اس میں دلچسپ انکشافات ہوئے۔ حتیٰ کہ آخر میں مجید نظامی نے شہباز شریف سے کہا جن پیسوں کا جھگڑا ہے اس میں 15 فیصد لینے ہیں تو لے لیں۔ چھوڑنا ہے تو چھوڑیں جیل بھیجنا ہے تو بھیجیں۔ ”سارھے 85 فیصد کڈو“ اس پر شہباز شریف نے کہا آڈٹ کروا لیتے ہیں۔ ایجنسی پر الزام تھا کہ وہ دوبارہ اس پر کمیشن لے رہا ہے اس پر انہوں نے کہا فروگوسن سے یا اچھے ادارے سے آڈٹ کروا لیتے ہیں۔ مہینے بعد پتا چلا کہ کسی ادارے کو اجامت نہیں ہے کہ حکومتی ادارے کے علاوہ آڈٹ کروا سکے۔ وہ مسئلہ وہیں رہ گیا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ ایک تو یہ ٹھیک ہے ہمیں پریشرائیز کریں۔ جب مجھے نوٹس ملے تو یہ سوا یا ڈھائی کروڑ بنتے تھے۔ 16½ کروڑ روپے ہم نے سرکاری اشتہاروں کے لینے ہیں۔ وہ کون دلوائے گا۔ سپریم کورٹ دلوائے۔ یہ پیسے وصول کر کے پہلے ورکروں کو دے دیں باقی بچیں تو ہمیں دے دیں۔ دوسرا پہلو یہ کہ تین دن سے سپریم کورٹ نے آبزرو کیا کہ آج کل صوبائی یا مرکزی حکومتوں کے جو اشتہارات چھپتے ہیں۔ اس میں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی تصویریں ہوتی ہیں۔ سندھ میں وزیراعلیٰ، آصف زرداری یا بلاول بھٹو کی تصویریں ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ محسوس کیا کہ الیکشن کی ابھی تاریخ سامنے نہیں آئی۔ نگران حکومت نہیں بنی۔ لیکن یہ پیسے ضائع کئے جا رہے ہیں۔ انہیں ”پروجیکشن“ کیلئے پیسہ پارٹی فنڈز سے خرچیں۔ حکومتی پیسہ استعمال نہ کریں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کہتا کہ اگر آپ کسی منصوبے کے افتتاح کے لئے کسی ہسپتال کے لئے یا پل کے لئے اشتہار دینا چاہتے ہیں تو آپ اس میں سے وزیراعلیٰ کی تصویر اڑا دیں۔ ادارہ اپنا اشتہار دے۔ سپریم کورٹ عدالت ہے ہم تو قانون کے پابند ہیں ہم تو احترام کے پابند ہیں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے تصویر کٹوانے کی بجائے اشتہارات ہی پرسوں سے بند کروا دیئے ہیں۔ ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ ابھی مجھے کیپٹل ٹی وی والے احمدریاض شیخ صاحب نے فون کیا۔ دو اخبارات سے فون آئے سرمد علی کا فون آیا کہ آپ نے ہمارا بیان پڑھ لیا ہے؟ پھر مجھے ایکسپریس سے فون آیا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے۔ میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ میں ایک ”ریپرزیشن“ کریں کہ جناب سرکاری اشتہار کی بندش کبھی کسی جمہوری دور میں نہیں لگی۔ کسی سپریم کورٹ نے آج تک پابندی نہیں لگائی۔ یہ کس طرح سپریم کورٹ ہے۔ کسی کی تصویر سے ہمیں کیا دلچسپی ہے۔ آپ تصویریں کٹوا لیں۔ پرویز خٹک کی نہ چھپنے دیں بند کر دیں۔ اشتہارات کے ذریعے محکموں کی پروجیکشن جب سے پیدا ہوئے ہیں، ہوتی آئی ہے۔ دونوں شعبے ہی ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ ورکرز کے واجبات فوری ادا کریں۔ ہم نے تو ڈر کے مارے 8,7 دنوں تک لسٹیں بناتے رہے۔ اور کہا کہ 31 تاریخ تک ساری ادائیگی کر دیتے ہیں۔ اخبارات میں سب سے زیادہ سٹف نیوز پرنٹ استعمال ہوتا ہے۔ یہ باہر سے آتا ہے۔ پلیٹ باہر سے آتی ہے پرنٹنگ سیاہی باہر سے آتی ہے۔ مشینری باہر سے آتی ہے۔ کمپیوٹرز باہر سے آگے ہیں۔ کلر سکینر باہر سے آتے ہیں۔ کوئی آلہ بھی اس میں لوکل میڈ استعمال نہیں ہوتا۔ ڈالر ریٹ بڑھتا ہے اس کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ نیوز پرنٹ کی مد میں 30 فیصد اخراجات۔ دو ماہ قبل 86 روپے تھا۔ اب یہ 106 روپے سے اوپر چلا گیا ہے۔ اس سے زیادہ اوپر جائے گا۔ اخبارات مجبور ہو جائیں گے کہ 16 کی بجائے 12 صفحات پر اخبار نکالیں۔ معاشی ابتلائکے اس دور میں سرکاری اشتہار بھی صرف اس لئے بند کرنا کہ کسی لیڈر کی پبلسٹی ہوتی ہے اس کی تصویر نہ چھاپیں۔ اس وقت سب سے اہم حکومتی سیکٹر کا اشتہار ہے۔ جوو آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاہد مسعود صاحب آپ کے لگائے ہوئے سارے الزامات غلط قرار پائے ہیں آپ اس پر کیا کہتے ہیں۔ تحقیقات میں انہوں نے کہا ہے کہ نہ تو عمران کی جان کو خطرہ ہے نہ ہی وہ کوئی ویڈیو فلمیں بنانے کے کام میں شریک تھا۔ نہ باقیباتوں میں شریک تھا۔ میں نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ سرگودھا سے پکڑا جانے والا ملزم خود اس کی تصدیق کر چکا ہے۔ جو 600 بچوں کی ویڈیو فلمیں بنا کر ناروے کی کمیٹی کو سپلائی کر چکا ہے۔ 100 سے زیادہ یورو کی فلم اسے معاوضہ ملا ہے لگتا ہے تحقیقات کو نامکمل رہ گئی ہیں؟ میرا نہیں خیال کہ ڈاکٹر شاہد مسعود معافی مانگیں گے۔ وہ سب کچھ فیس کریں گے۔ سرگودھا کا ملزم تو سب کچھ قبول کر رہا ہے۔ یہ قانون اتنا ناقص ہے جس میں آخری سزا کی حد 7½ سال قید ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے سب سے زیادہ سزا 3 سال ہوئی ہے اس کا مطلب ڈیڑھ سال قید اور اس کے علاوہ چھوٹا بھی مل جاتی ہے۔ترجمان پی ٹی آئی نعیم الحق نے کہا ہے کہ عمران خان نے دو ٹویٹ کی ہیں جس میں الزام لگایا کہ فیصل سبحان نامی شخص کو چھپا دیا گیا ہے جس کے پاس شہباز شریف کے خلاف ساری معلومات تھیں۔ چینی کمپنی جس ملتان میں کام کیا ہے اس نے اس شخص سے پوچھ گچھ بھی کی ہے۔ نجی چینل نے اس پر بات کی تھی ہم بھی چینی کمپنی سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ پچھلے 30 سال سے شریف خاندان نے ہر منصوبے پر کمیشن کمایا ہے۔ اس میں وہ اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ انہیں پکڑنا ہی مشکل ہے۔ ایل این جی میں ان کا بہت بڑا کمیشن چھپا ہوا ہے اس کی تفصیل موجودہ وزیراعظم بتا نہیں رہے۔ اب نیب اس پر تحقیقات کرے گا۔ میں خود بھی بنا گالہ میں رہتا ہوں۔ اس کے نقشے کے حوالے سے من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے۔ سی ڈی اے کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ میری نگاہوں کے سامنے 6,5 مکان اس گلی میں بنے ہیں انہوں نے کسی قسم کا نقشہ پاس نہیں کروایا۔ یہ ابھی تک دیہی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان کا گھر موضع نور میں ہے۔ پاکستان کے کسی گاﺅں میں بھی لوگ اپنی مرضی سے گھر بناتے ہیں اور نقشہ کی ضرورت نہیں ہوتی زیادہ سے زیادہ تحصیل میں نقشہ جمع کروا دیا جاتا ہے۔ سی ڈی اے بتا دے کہاں قانون میں لکھا ہے کہ دیہی علاقوں میں بھی نقشے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا ہے کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا اس کے پیچھے طاقتور لوگوں کا ہاتھ نہیں ہے؟ کیا ملزمان کو پشت پناہی حاصل نہیں ہے؟ کیا وہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا کاروبار نہیں چل رہا آپ نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ اس پر جے آئی ٹی بنی ٹھیک ہے انہوں نے تحقیقات کی ہیں لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ سارا میڈیا زینب اور اس کے قاتلوں کو چھوڑ کر میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔