تازہ تر ین

انڈیا کو کشمیر سے نکالو ، پاکستان میں اسکی ساری سازشیں دم توڑ جائینگی جماعتہ الدعوةکے سربراہ حافظ سعید سے خبریں کے چیف ایڈیٹر” ضیا شاہد“ کا خصوصی انٹرویو

لاہور  (مانیٹرنگ ڈیسک) امیر جماعة الدعوة حافظ سید نے کہا ہے اگر بھارت کوکشمیر سے نکال دیا جائے تو پاکستان میں بھارت ”را“ کے ذریعے بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسندوں کی مدد سمیت جو سازشیں کر رہا ہے وہ خود بخود دم توڑ جائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ تفصیلی انٹرویو سوالاً جواباً ملاحظہ کریں۔
سوال: فرمایئے کہ ہم مسلمان انفرادی طور پر بھی اور ریاستوں کی حیثیت سے ہمارے ممالک اور ہمارے حکمران خواہ وہ جمہوریت سے منسلک ہوںیا آمریت سے کس طرح سے اپنی متاع گمگشتہ کو حاصل کر سکتے ہیں۔
حافظ سعید: اس وقت پوری دنیا کے اندر ایک جنگ جاری ہے اور وہ پرانی جنگوں کا نہیں ہے جو معاشی بنیادوں پر ہوا کرتی تھیں وہ صورت حال اب نہیں ہے تو جنگ اس بات پر ہے کہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو کردار اس دنیا میں ختم کیا جائے۔ مسلمانوں کے وسائل پر قبضے کئے جائیں اور وہ مسلمان ملک جو مغرب کی غلامی کے اندر چلنا چاہیں ان کو تو شاید اجازت ہو اور ایسے مسلمان ممالک جو اپنے قدموں پر کھڑے ہونا چاہیں ان کو شاید نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔ اب غور کیجئے کہ 35,30 سال پہلے روس آیا تھا اس کے بعد جو حالات تبدیل ہوئے پھر نائن الیون ہوا تھا تو اس کے بعد ترجیحات بالکل بدل گئی ہیں آپ کہہ رہے ہیں صدام کا عراق نہیں رہا، کہاں گیا وہ عراق اور کس نے اسے ختم کیا لیبیا کا حال کس نے برا کیا۔ مشرق وسطیٰ کے اندر اس وقت جو صورت حال ہے میں سمجھتا ہوں مغرب امریکہ کی سرپرستی میں اس وقت مسلمان ملکوں کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ان کے کردار کو مسخ کرنے کے لئے یہ لوگ کام کر رہے ہیں اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے سب سے بڑا نشانہ پاکستان ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مغرب کو کسی شکل میں برداشت نہیں ہے۔ پاکستان پھلتا پھولتا دفاعی طور پر مضبوط پاکستان وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ ہے چاروں طرف سے پاکستان کو گھیرے ہوئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی دفاعی قوت کمزور ہو جائے تو شاید عالم اسلام کے لئے ان کے منصوبے مکمل کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا اور پاکستان کو ہی وہ اس قابل سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ عالم اسلام کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بہت شاندار کام کیا تھا جب اسلامی کانفرنس منعقد کی۔ مسلمانوں کے اندر ایک اتحاد کی فضا پیدا ہوئی وہ صورت حال ہی ایک مسئلہ تھا کہ مغرب نے اسے اپنے لئے چیلنج سمجھ لیا کہ کسی طرح سے انہیں بکھیر دو۔ خلیج کے اندر اس وقت وہ لرائی ہو رہی ہے جو مذہبی بنیادوں پر اسے کھڑا کیا جا رہا ہے۔ ہر جگہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس صورت حال کے اندر عالم اسلام کو ایک مضبوط اتحاد کی شکل دینا ہی مسئلہ کا حل ہے۔ مسلمان اپنے وسائل یکجا کریں اپنے معاشی منصوبے خود بنائیں اپنے وسائل کے ساتھ ان کو مکمل کریں۔ اور مغرب کی کاسہ لیسی، نوکری علامی سے ہم بچ جائیں۔ ہر ملک الگ الگ ان کی نوکری کرے گا تو یہ سارے ایک ایک کر کے ختم ہوتے چلے جائیں گے اور یہ سارے ملک متحد ہو کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوں گے۔ اللہ کا فضل ہے آج عالم اسلام میں کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان دفعی قوت ہے۔ آج خلیج کے اندر ہماری دولت ہے۔ وسط ایشیا کے ملک روس سے آزادی حاصل کرنے والے وہ اس وقت وسائل سے مالا مال ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مجموعی طور پر عالم اسلام کے اتحاد کو تشکیل دیں اور اگر یورپی یونین بن سکتی ہے تو پاکستان اسلامی یونین کیوں نہیں بن سکتی۔ ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لئے آگے بڑھنا ہے۔
سوال: مسلمان ممالک کے لئے سب سے برا مسئلہ خود کفالت کا ہے چونکہ اکثر ممالک کسی نہ کسی طرح سے دست نگر کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے اپنے سالانہ بجٹ کو پورا کرنے کے لئے بھی ہمیں ایشین بنک کی طرف یا آئی ایم ایف کی طرف یا ورلڈ بینک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ان اداروں کو چونکہ کنٹرول کرتی ہیں امریکہ اور دوسری سپر طاقتیں اس لئے ان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے آپ یہ فرمائیں کہ کیا طریقہ ہے کہ ہم غیر ملکی طاقتوں سے مالی امداد کے بغیر بھی اپنے سالانہ بجٹ بنا سکے۔
حافظ سعید: آپ نے ورلڈ بنک، ایشیا بینک کا ذکر کیا۔ حقیقت میں ہمارے مسلمان ملکوں کی خاص طور پر پاکستان کی غلامی کی وجہ ہے ہی یہی۔ جب تک آپ نے آئی ایم ایف کی غلامی کو ترک نہیں کرنا۔ جب تک قرضوں سے جان نہیں چھڑائیں گے اس وقت تک آپ معیشت کو پاﺅں پر کھڑا نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم اتنے مقروض ہو گئے ہیں کہ شاید باہر بیٹھے لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہماری جاگیر ہے ہم جو چاہیں کریں۔ اس وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلے کا حل وہی ہے ہم اسلامی اتحاد قائم کریں، اپنے وسائل یکجا کریں اور جو بین الاقوامی معاشی نظام، سرمایہ دارانہ نظام اس وقت پوری دنیا کو تباہ کر رہا ہے آپ نے مثال دے کر بتایا کہ 5 فیصد لوگ ہیں جن کے پاس ہے اور 95 فیصد ایسے ہیں جن کے پاس نہیں ہے۔ وہ 95 فیصد کے جو مسائل ہیں وہ حقیقت میں حلفشار، انتشار، بدامنی وہی سے پیدا ہو رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام نے جو نظام عدل قائم کیا ہے مسلمان متحد ہو کر دنیا کو اسلام کا معاشی نظام عدل پیش کریں اور سب سے پہلے اپنے ملکوں میں عمل کر کے ایک تجربہ کی شکل دے کر ان کو دیں کہ بئی ہم نے اپنے ملک میں اس طرح غربت کا خاتمہ کیا ہے ہم نے طبقات کی کش مکش کو ختم کیا ہے اور پوش ایریا اور گھوڑے شاہ کے اندر رہنے والے کا فرق ختم کیا ہے سب کو عدل، حقوق دیئے ہیں امن قائم ہوا۔ یہ مثال دے کر جب اپنا کر نہیں سمجھاتے اس وقت تک ہم اس کا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔
سوال:پاکستان کی تکمیل کا مسئلہ بڑا اہم ہے۔ حضرت قائداعظم سے زیادہ کون جانتا تھا کہ پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ شامل نہیں ہوتا۔ جب تک کشمیریوںکو حق ارادیت نہیں دیا جاتا۔ اس وقت تک ایک طرف پاکستان معاشی طور پر خودکفیل نہیں رکھتا کہ سارے دریا کشمیر سے نکلتے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کے راستے میں وہ شملہ معاہدہ ہے اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
حافظ سعید: کشمیر کا مسئلہ جب سے پاکستان بنا ہے چلا آ رہا ہے۔ تحریک مختلف مراحل سے گزری ہے۔ آج تک تحریک جس سطح پر کھڑی ہے اس سے پہلے شاید اس مضبوط سطح پر نہیں آ سکی تھی۔ دلائل کی بنیاد پر بتا رہا ہوں۔ کشمیر پر حکومت پاکستان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی۔ کشمیریوں نے جدوجہد کا حق ادا کر دیا۔ سچی بات ہے تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ جتنی لمبی تحریک کشمیریوں نے چلائی اور شہدا کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ انڈیا نے اس تحریک کو دہشتگردی قرار دینے کے لئے پوری دنیا میں لابنگ کی اور پوری دنیا کو ہمنوا بنایا لیکن سچی بات ہے پاکستان اپنے حصے کا کام نہیں کر سکا۔ یہ نہیں بتا سکا کہ کشمیر ایک آئینی جدوجہد ہے۔ معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ شملہ معاہدہ بھی اس وقت بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ حق خودارادیت کو ختم کرنے کے لئے شملے کے اندر یہ طے کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت آپس میں حل کریں گے۔ اس کی سب سے بڑی زد اس موقف پر پڑی تھی۔ خودارادیت پر پڑی اور پاکستان کا موقف شرفع سے رہا ہے اس میں کمزوری آئی اور آج ہماری حکومت کشمیر کمیٹی اور سارے سلسلے پاکستان کی طرف سے حقیقت ہے کہ کشمیر کے لئے کوئی نمایاں کام انجام نہیں دیا جا رہا کشمیریوں کو یہ بہت بڑا شکوہ ہے کہ روزانہ شہید ہو رہے ہیں، بھارت اپنی فوج دن بدن بڑھا رہا ہے۔ باڑ اس نے لگا دی اور غیر قانونی کام اس نے پختہ مورچے بنا کر اس نے کیا کچھ نہیں کر لیا پاکستان نے اس حوالے سے صرف بیان بازی کو ہو سکتی ہے لوگوں کو دکھاوے کے لئے مطمئن کرنے کے لئے کبھی حکومت نے مجموعی طور پر کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے کچھ کوشش نہیں کی۔ آج جس سطح پر کھڑے ہیں پاکستان کو چاہئے حکومت کو چاہئے کہ یو این او وزیراعظم اپنی کابینہ لے کر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں اقوام متحدہ کی بلڈنگ کے سامنے کہ تم اپنی قراردادوں پر عمل کیوں نہیں کرواتے۔ اگر وہ جواب دے دیں تو آپ وہی اعلان کریں کہ ہم کشمیریوں کی جدوجہد کے ساتھ ہیں تا کہ کشمیریوں کے دل بھی ٹھنڈے ہوں اور آپ ان سے تعاون کر سکتے ہیں۔ اگر غفلت میں پڑے رہیں کشمیری اپنے طور پر جدوجہد کرتے رہیں توشاید ہم سے ہو گا کہ کشمیریوں پر ہو گا۔
سوال:کہا جاتا ہے کہ رقبے میں مشرقی پاکستان کا رقبہ چاہے کم تھا آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ لیکن 1971ءمیں بھارت نے براہ راست حملہ کر کے (بنگلہ دیش کے بارے میں حال ہی میں کتاب شائع ہوئی ہے۔ ڈھاکہ میں جو انڈین سفارتخانہ ہے اس کے پولیٹیکل افسر اور (جو ایک ڈمی عہدہ ہونا ہے) جس پر عام طور پر انٹیلی جنس کے لوگ ساری دنیا میں لائے جاتے ہیں۔ کتاب چھپی ہے جس میں انہوں نے کہا حسینہ شیخ کے حوالے سے کہ میرے والد نے 1962ءسے جدوجہد آزادی شروع کی تھی اوروہ افسر لکھتا ہے کہ 1963ءمیں پہلی دفعہ شیخ مجیب الرحمن انڈین ایمبیسی میں آئے اور ایک بند خط دیا کہ پنڈت نہرو کو پہنچایا جائے اور اس کا جواب بھی لیا جائے۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ عملا وہ حصہ ہم سے الگ ہوا ایک فوج کشی کے نتیجے میں جس کا اقدام بھارتی فوج نے کیا تھا۔ اب ان کا اگلا نشانہ بلوچستان ہے۔
حافظ سعید: یہ بڑا حساس مسئلہ ہے۔ انڈیا نے فوج کشی کر کے ہمارا ایک بازو کاٹا اور کسی نے ہمارا اس وقت ساتھ نہیں دیا۔ اور 16 دسمبر1971ءکو یہ واقعہ ہوا ہے اور 17دسمبر کو اس وقت کی وزیراعظم اندرا اندھی نے یہ کہا تھا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ یہ وہ آئندہ منصوبے بیان کرنے کے لئے کافی تھا۔ جسے وہ مشرقی پاکستان میں داخل ہوئے تھے جیسے اگرتلہ سازش کی تھی جیسے وہاں لابنگ کی اس وقت وہی صورتحال ہے پاکستان کے بہت سے حصوں میں نظر آتی ہے۔ میں بلوچستان کے ایک علاقے سے پوری طرح واقف ہوں۔ ہم وہںا بڑے بڑے پروجیکٹ لے کر کام کر رہے ہیں۔ جو ڈرامہ انہوں نے مشرقی پاکستان سے شروع کیا تھا انہوں نے انہی خطوط پر بلوچستان کے اندر کام ہو رہا ہے۔ لوگ تو ابھی تک کہہ رہے ہیں انڈیا سے ہر صورت میں دوستی ہونی چاہئے۔ پاکستان میں بری لابی ہے میڈیا کے اندر بھی سیاست کے اندر بھی جس نے یہ خبریں پھیلانا شروع کی ہوئی ہیں تو فی الفور اس کا نوٹس لینا چاہئے ہمیں ان لوگوں کو واضح کرنا چاہئے اگرچہ وہ کہیں ہو سکتے ہیں۔ میں تو ابھی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہتا ہوں میرا تو یہ ایمان ہے کہ اگر بلوچستان کو بچانا چاہتے ہیں پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں تو زندہ اور مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو انڈیا کو کشمیر سے نکالئے۔ انڈیا کشمیر سے نکلے گو انڈیا کو اب ساری تحریکوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اس وقت انڈیا میں 101 تحریک چل رہی ہیں۔سکھ، عیسائی، عیسائی، چھوٹی ذات کے ہندو سب کی تحریکیں وہاں موجود ہیں۔
سوال: پاکستان بننے کے بعد بھارت کی طرف سے آنے والی پہلی دھمکی۔ وہ دریاﺅں میں پانی کی بندش کے حوالے سے تھی۔ ہندو نے کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہیں یہ پانی کی کمی کی وجہ سے خود ہی مر جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق ہم ستلج، بیاس اور راوی کے پانیوں سے دست بردار ہو چکے اس کے برعکس انڈیا کے بڑے بڑے گندے نالوں کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے ایوب خان کے دور کے معاہدے کی رو سے ہم نے ذمہ اٹھا رکھا ہے یعنی ہم اسے روک نہیں سکتے۔ وہ بغیر پانی کو صاف کئے صنعتی فضلہ ہمارے علاوں میں داخل کر دیا ہے ہم اس میں مزید گندگی ڈال رہے ہیں۔
حافظ سعید: جب سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا، تو آدھا پانی قدرت کے انتظام کے مطابق پانچوں دریا پنجاب کے اندر آ رہے ہیں یہ صدیوں سے کام چل رہا ہے۔ جس پر معاہدہ ہوا تو انڈیا آدھا پانی لے گیا۔ ہمارے پاس آدھا رہ گیا، اس نے دریاﺅں کے اوپر ڈیم بنا کر پانی کے اوپر کنٹرول جما لیا۔ انڈیا سے توقع نہیں کرنی چاہئے کہ وہ کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔ اس کے گندے نالے لاہور میں داخل ہوتے ہیں اس سے ہمارا پانی خراب ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راوی کا پانی چلتا تھا تو یہ توازن برقرار رہتا تھا۔ لیکن اب توازن بگڑ چکا ہے اور گندگی زیادہ پھیل گئی ہے راوی خود گندا نالہ بن گیا ہے۔ اگلے چار پانچ سال بہت ہی پریشان کن ہیں ہماری زراعت، صنعت سب کچھ تباہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ اور بھارت ڈھٹائی کے ساتھ اپنے منصوبے مکمل کر رہا ہے۔سوال: ہم نے اخبارات میں آپ کی جماعت اور آپ کے بارے پڑھا۔ حکومت کی جانب سے اقدامات عوام کے سامنے آئے۔ اور پتا چلا کہ آپ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ آپ کی ایمبولینس آپ کے ادارے حکومتی تحویل میں لے لئے گئے ہیں حالانکہ زلزلہ سے لے کر تھرکے قحط زدہ علاقوں میں بحالی کے کاموں تک ہمیشہ آپ کی تنظیم صف اول میں کام کیا۔حافظ سعید: ضیا صاحب ہم پر جتنی بھی پابندیاں ہیں ان کا تعلق 1267 سے ہے۔ 2008ءکے اندر انڈیا نے ممبئی حملے کا ہم پر الزام لگا کر یہ قرارداد سلامتی کونسل میں منظور کروائی۔ 2008ءآج تک ہم اس مسئلے کو لے کر عدالتوں میں گئے۔ عدالتوں میں یہ فیصلہ ہوئے کہ اس جماعت پر اس کا اطلاق ہوتا ہی نہیں 1267 القاعدہ کے لئے بنائی گئی تھی۔ وہ دہشت گرد تنظیمیں جو بین الاقوامی سطح کے اوپر ملوث ہیں۔ ان کے لئے یہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیاتھا جماعت الدعواة کا یا اس کے امیر کا یا اس کے لوگوں کا۔ اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ القاعدہ سے تعلق ثابت ہوا نہ کسی اور دہشت گرد تنظیم سے۔ اس وقت سے یہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے ہمارا کام چلتا رہا۔ ہم نے سکول بنائے۔ ریلیف کیمپ بنائے 2200 کنویں بنا کر تھر میں لوگوں کو پانی فراہم کیا واٹر پروجیکٹس مکمل کئے ہر ڈزاسٹر میں کام کیا۔ لیکن انڈیا کو تکلیف ہے۔ ہم 5 فروری کو کشمیر کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ انڈیا نے امریکہ سے دباﺅ ڈلوا کر ہم پر پابندیاں لگوائیں۔ ہم 2008ءسے 2017ءتک کام کرتے رہے۔ موجودہ حکومت شاید خود کو انڈیا نواز ثابت کرنا چاہتی ہے۔ اس نے ہمارے اثاثے ضبط کر لئے سکول لے لئے۔ میرا اکاﺅنٹ بہت پہلے انہوں نے بند کر دیا تھا۔ میرے لائسنس منسوخ کر دیئے۔ نہ عمرے پر جا سکا۔ اقوام متحدہ نے تین چیزیں مانگی تھیں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا ان کے سکول، ادارے قبضے میں لے لو۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے صرف انڈیا اور امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔ اور شاید مستقبل میں خود کو ان کے قریب کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہم عدالتوں میںچلے گئے ہیں۔ اس کا فیصلہ ضرور آئے گا، ہمارے حق میں آئے گا۔ جب بھی عدالت میں کھڑے ہوئے ہیں ہمیں ریلیف ملا ہے۔
سوال: حکومت کی جانب سے جو اعلان ہوا ہے۔ اس میں سکولوں پر بھی بندش لگائی گئی ہے۔ سوشل سروس پر بھی ہوئی ہے۔
حافظ سعید: ضیا صاحب تھر پارکر، چترال، شمالی علاقہ جات میں ترقیاتی کاموں کے بہانے سے امریکہ نے اپنے قدم جمائے ہوئے تھے۔ اس میں امریکہ کے علاوہ یورپی ممالک بھی شامل تھے۔ ہم نے جب یہ کام شروع کیا تو وہ بہت بہتر اور مضبوط تھا۔ ضیا صاحب اب ساری این جی اوز تھر پارکر سے بھاگ چکی ہیں۔ ان تمام علاقوں میں یہ لوگ اب دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ لوگ وہاں سے امدادیں لے کر آتے ہیں اور اونچے اونچے ہوٹلوں میں رہتے ہیں۔ سارا خرچہ خود کر لیتے ہیں۔ معمولی سا لگا کر دکھا دیتے ہیں۔ ہم لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ 2200 کنویں۔ سولر ٹویب ویل لگا کر زمینوں کو آباد کر رہے ہیں۔ لوگوں کی خوشی کی انتہا نہیں۔ امریکہ اور یہ لوگ تھے جن کے منصوبے انتہائی خطرناک ہیں۔ وہ ہمیں اپنے راستے میںرکاوٹ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کی این جی اوز ناکام ہوچکی ہیں۔ وہ واپس جا چکے ہیں میدان میں کام ہمارا ہے۔ اس وجہ سے یہ ہمیں برداشت نہیں کر رہے۔ اقوام متحدہ نے کہیں نہیں کہا کہ ان کی ایمبولینس بند کر دو۔ ان کے سکول بند کر دو۔ یہ صرف اسلام دشمنی ہے اور ہمارے خلاف حسد ہے اور بڑی طاقتوں کے یہ مطالبات ہیں۔ پاکستان میں حکومت نام کی چیز ہی نہیں وہ ”ڈو مور“ کہتے جاتے ہیں یہ ”یس سر“ کہتے جاتے ہیں پتا نہیں یہ معاملہ کہاں جا کر تھمے گا۔ضیا شاہد! حافظ صاحب آپ کا بہت شکریہ آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا آپ نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے یہاں کام کیا ہے۔ ہمیںعدالتوں پر یقین ہے کہ اگر آپ ان کے پاس انصاف کے لئے گئے ہیں تو یقینا آپ کو انصاف ملے گا۔ اگر آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس کی تلافی کی جائے گی۔ بہت شکریہ۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain