لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب نے بالکل ٹھیک کہا کہ ان کی کون ڈوری ہلائے گا۔ میں نے مبشر لقمان کے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ چیئرمین نیب کو نون لیگ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ استعفیٰ دے دیں، باہرچلے جائیں، اگلی حکومت میں آپ کو صدر مملکت بنا دیں گے۔ شیخ رشید نے میرے پروگرام میں اس کی تصدیق بھی کی۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جب اتنی بڑی پیش کش کوٹھکرا دیا تو کیسے ممکن ہے ان کی کوئی ڈوریاں ہلا سکے۔ نوازشریف و مریم نواز کے باہر چلے جانے میںکوئی حرج نہیں، کہتے ہیں کہ واپس آ جائیں گے لیکن اگر نہیں بھی آتے تو دو روز سے جو افواہیں پھیلی ہوتی ہیں کہ این آر او ہو گیا ہے، یہ کسی ایک فرد کے حوالے سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں ایک عرصے کا تعین کیا جاتا ہے کہ فلاں سن سے لے کر فلاں سن کے درمیان جتنے بھی مقدمات ہیں ان کو ختم کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ آرمی چیف و چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں، کوئی مائی کا لعل ان دو بڑے اداروں کی اجازت کے بغیر این آر او نہیں کر سکتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ این آر او ہو جانے کی افواہوں میں کوئی سچائی ہے۔ اکرم شیخ نے کہا تھا کہ عدالت کی سزا کو معاف کرنے کا اختیار صدر مملکت کو ہوتا ہے، وہ اور بعض دوسرے وکلاءکہہ رہے ہیں کہ صدر مملکت نوازشریف کو جو دو سزائیں ہوئی ہیں ان کو معاف کر سکتے ہیں۔ بظاہر مشکل نظر آتا ہے کیونکہ ابھی تک شریف خاندان منی ٹریل کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔ قطری خط کو عدالت نے مستردکر دیا تھا۔ این آر او کی افواہوں کا طوفان ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے ہے۔ الیکشن قریب ہے ان حالات میں صدر نوازشریف کی سزاﺅں کومعاف نہیں کر سکیں گے۔ نوازشریف اور مودی کی لندن میںموجودگی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دونوں کے آپس میں ذاتی تعلقات ہیں۔ مودی نواز کے ذاتی فنگشن میں شریک ہوئے تھے، ایک دوسرے کو پگڑیاں بھی باندھی تھیں، یہ آپس میں ملاقات نہ ہی کریںتو رابطے موجود رہتے ہیں۔ نوازشریف کا بھی انڈیا کی قیادت سمیت پوری دنیا سے رابطہ یقینا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہاکہ عمران خان نے اپنی ہی پارٹی کے لوگوںکو سینٹ الیکشن میں بکنے پر نوٹسز جاری کئے ہیں، اس کا کریڈٹ تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ یہی دعویٰ نون لیگ و پیپلزپارٹی نے بھی کیا تھا کہ ہماری پارٹی سے بھی کچھ لوگوں نے وفاداریاں بدلی ہیں لیکن ان کو نکالنے کا اعلان کسی نے نہیںکیا۔ الیکشن قریب ہے، سیاسی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ ایسے وقت میں پارٹیاں لوگوںکو نہیں نکالا کرتیں لیکن عمران خان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے وفاداریاں بدلنے والوں کو نکالنے کااعلان کیا ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس ہیںکہ جسے جوکہنا ہے کہتا رہے جو صحیح ہو گا ہم وہ کریں گے، اگر خود نوٹس نہ لیں تو کام نہیں ہوتے۔ جو انسان کام کرتا ہے اس سے غلطی بھی ہوتی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارے اپنے ادارے چینل ۵ جس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر میرے بیٹے امتنان شاہد صاحب ہیں اس چینل میں بھی ایک ایسا پروگرام نیوز ایٹ 8 کے نام سے ہوتاہے جس میں سابق سنیٹر فیصل رضا عابدی جو بڑے پُرجوش اور انتہا پسند شمار ہوتے ہیں کا ایک انٹرویو چل گیا اصولاً آپ بھی جانتے ہیں ہر پروگرام جو ریکارڈ کیا جاتا ہے اگر وہ لائیو نہیں ہے تو اس کو دیکھ کر ایڈٹ کر کے پھر اس کی منظوری دی جاتی ہےکہ اب وہ پیش کر دیا جائے لیکن بدقسمتی سے غلطی سے یہ متعلقہ پروڈیوسر نے دوسرے کے سپرد کر دیا کسی دوسرے نے اس پر توجہ نہیں دی اور وہ پروگرام آن ایئر چلا گیا۔ فیصل رضا عابدی صاحب نے اس میں بہت نازیبا الفاظ کہے اور چیف جسٹس کے ادارے کے حوالے سے اور سپریم کورٹ کے ججوں کے حوالے سے غیر شائستہ رویہ اختیار کیا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے چینل ۵سے اس قسم کا پروگرام نشر ہوا۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ جہاں کام ہو گا وہاں غلطیاں بھی ہوں گی۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے آج چینل ۵ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر امتنان شاہد صاحب کو جج سپریم کورٹ میں طلب کیا اور ان پر ناراضگی کااظہار بھی کیا وہ بالکل حق بجانب تھے میں تسلیم کرتا ہوں کہ اگر ان کی جگہ پر جو بھی کوئی شخص انصاف کی رو سے بیٹھا ہوتا یہی کچھ کہتا اور میں نے امتنان شاہد صاحب کو یہ سمجھا کر بھیجا تھا کہ اگرچہ انہوں نے اس کی وضاحت بھی کردی تھی انہوں نے متعلقہ اینکر کو فارغ بھی کر دیاتھا اس الزام پر کہ آپ نے ایک نازیبا انٹرویو ایڈٹ کروائے بغیر نشر کر دیا اور انہوں نے اس پر آن ایئر چینل ۵ پر ہی معذرت چاہی تھی۔ آج شاید وہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اخبار میں بھی اس کا اشتہار دے رہے ہیں کہ ہم معذرت خواہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے انہیں کل بھی سمجھایا تھا کہ یقینا سپریم کورٹ آف پاکستان ہماری سب سے سپرئیر عدالت ہے ایک تو عدالت کے سامنے ہمیشہ اپنے آپ کو سرنڈر کر دیتے ہیں اور عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ غلطی ہو جاتی ہے۔احمد رضا قصوری صاحب آج صبح چینل ۵ یہ جو ہمارا چینل ہے اخبار کے ساتھ۔ اگرچہ سسٹر آرگنائزیشن ہے تاہم اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر میرے بیٹے امتنان شاہد صاحب ہیں۔ آج ان کو سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا تھا اور میںنے کل ہی انہیںکہہ دیا تھا کہ آپ سے ٹیکنیکل بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ نیوز ایٹ 8 کے نام سے چینل میں ایک پروگرام چلتا ہے اس پروگرام میں فیصل رضا عابدی کا عدنان حیدر نامی ایک اینکر نے انٹرویو کیا تھا کہ جس میں ناشائستہ زبان استعمال کی گئی تھی اور قابل اعتراض طرز عمل اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے حوالہ سے اور ظاہر ہے جو اصول ہوتا ہے جو پروگرام بنتا ہے پروڈیوسر ہمیشہ سینئر پروڈیوسر کو یا ایڈیٹر کو یہ کہتا ہے کہ جی یہ آن ایئر جانے سے پہلے اس کو دیکھ لیا جائے۔ ایک نے دوسرے سے کہا دوسرے نے پہلے پر ڈال دی اور کسی نے دیکھے بغیر اس کو چلا دیا۔ اس پر امتنان شاہد صاحب نے اینکرکو بھی نوٹس دیا اپنے چینل پر بھی بار بار وضاحت کی کہ ہم اس پر معذرت خواہ ہیں اور آج انہوں نے عدالت میں بھی کہا لیکن اس کے باوجود آپ انتہائی سینئر قانون دان ہیں۔ میں آپ سے بات شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ اگر غلطی ہوتی ہے تو ایک تو میری دانست میں ساری عمر میں نے یہی کیا۔ اخبار میں اسی چینل۵ کے حوالہ سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو نمبر 1 عدالت سے غیر مشروط معافی مانگنی چاہئے۔ نمبر2 اپنے آپ کو اس رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہئے اس کے باوجود میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس قسم کی غلطیاںہوجاتی ہیں۔ اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ بدنیتی شامل ہے یا نیک نیتی۔ آج چیف جسٹس صاحب نے پوچھا کہ فیصل رضا عابدی کہاں ہیں۔ انہوں نے اگلی تاریخ میں گرفتار کر کے پیش کرنے کا آرڈر کر دیا ہے اور امتنان شاہد کو بھی کہا ہے کہ آپ نے بھی اب تک جو معذرت کی ہے یا جو تحریری شکل دیں پھر اس پر غور کیا جائے گا۔ ابھی ایک وزیر سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ آپ میرے بھائی اور دوست ہیں لیکن میں ابھی دس منٹ پہلے کی بات بتا رہاہوں کہ جو قصور مجمع تھا پانچ سات آدمی تھے وہ جو ناشائستہ زبان استعمال کررہے تھے اس کی وہ مووی دکھا رہے تھے کہ دیکھیں جی لوگ توعدالتوںکے بارے میں یہ کچھ کہتے ہیں۔ میں نے ان کو منع کیا کہ اگر 10,18 آدمی اس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں تو آپ اس کو فوراً ختم کریں آپ کیوں لوگوںکو دکھا رہے ہیں۔ آپ یہ فرمایئے کہ ہم اس ملک کو سرزمین بے آئین نہیں بنانا چاہتے اس سلسلے میں عوام کی کیا ذمہ داری ہے اداروںکی کیا ذمہ داری ہے اور اگر نیک نیتی سے کام کرتے ہوئے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو کیا کرنا چاہئے۔معروف قانون دان احمد رضا قصوری نے کہا ہے کہ عدالتوں کے سامنے آئین کی کتاب اور انصاف کا ترازوہوتاہے۔ جج توہین عدالت کو ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کرسکتااس کا استعمال اس لئے کرتی ہیں کہ عدالتوں کا وقارداغدار نہ ہو۔ انہوں نے کہا ووٹ کا تقدس اور چیز ہے اس کا عدالتی نظام سے کیا تعلق ہے جو الیکشن جیت کر آتے ہیں وہ ان کو یہ لوگ ایک ایک سال تک نہیں ملتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیںہے یہ ملک 20 کروڑ عوام کا ہے۔ ان چوروں نے ملک کو تباہ کیا ہے۔ جنرل باجوہ نے کہا ہے کہ اکانومی اور سکیورٹی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے این آر کر کے دیکھ لیا ہے جس میں ملک کا بڑا نقصان ہوا۔ اب بھی جو این آر او کرے گا اسے قوم معاف نہیں کرے گی اور اس طرح صدر نے اگرنواز شریف کو معاف کر دیا توقوم انہیں معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چل رہا تھا اس وقت بحث کے دوران کسی نے کہا کہ ووٹ کا تقدس پامال ہوا ہے، ایم این اے ایم پی اے یا سنیٹر منتخب ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ووٹ لینے والا چوری کرے چاہے قتل کرے یا غبن کا مرتکب ہو تواسے کچھ نہ کیا جائے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ جب وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں و سرکاری ادارے عوام کو ریلیف نہیں دیں گے تو ظاہر ہے عوام چیف جسٹس کے پاس جائیں گے۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آج تک کسی بھی حکومت نے نہیںسوچا کہ زیرزمین پانی آلودہ ہو رہاہے، روزانہ کئی کیوسک گندا پانی راوی میں پھینکا جا رہا ہے۔ ہسپتالوں و پولیس کا خراب نظام، کراچی کی گندگی سمیت کوئی بھی مسئلہ ہو عوام چیف جسٹس کے پاس جاتے ہیں۔ میں چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آخر وہ بھی انسان ہیں تھک جاتے ہوں گے۔ میں نے ساری عمر عدالتوںکو دیکھا لیکن ہفتہ، اتوار چھٹی نہ کرنے والا ایسا چیف جسٹس کبھی نہیں دیکھا۔ آج ان کے ججوں کے گھروں پر گولیاںچل رہی ہیں۔ جج اپنی حفاظت و صحت کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہے ہیں۔ ہم اس ملک کو سرزمین بے آئین نہیں دیکھنا چاہتے، ہم چاہتے ہیں کہ عدالتوںکا عزت و احترام ہو، پولیس اپنا کام کرے۔ پنجاب حکومت و آئی جی سے سوال ہے کہ کیا آپ کو رہنے کا حق ہے؟ اگر جج کے گھر پر دوبارہ فائرنگ کے بعد بھی پولیس نہیں لگائی گئی، رینجرز کو طلب کر لیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ پولیس سے لوگوںکا اعتماد اٹھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو ہمارے سفارتکاروں پر پابندی لگانے کا حق حاصل ہے، پہلے ریمنڈ ڈیوس نے یہاں قتل کیا، ہماری کمزور حکومتیں، بزدل حکمرانوں نے دوڑ بھاگ کر کے جیل میں عدالت لگوائی، پوری فیملی کے ویزے لگے اور بے تحاشہ نقد امداد دے کر معاف کروا لیا گیا۔ ریمنڈ کو باہر بھیج دیا اور فیملی کو بھی غائب کر دیا گیا۔ اب اس سے بڑا واقعہ اسلام آباد میںہوا ہے جہاں ٹریف حادثے میں امریکی سفارتکار نے ایک پاکستانی کو مار دیا۔ اگر ہم اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر مضبوط قوم نہیں بنیں گے تو پھر یہی حال ہو گا۔ شہری ہمارا جان سے گیا، آنکھیں بھی ہمیں دکھائی جا رہی ہیں۔ ہمیں امریکہ کے ڈو مور کے مطالبے کو اس وقت تک پورا کرنا پڑے گا جب تک ایک مضبوط قوم نہیں بن جاتے۔ جن ملکوں نے ترقی کی انہوں نے اپنے اخراجات کم کئے۔ ہمارے ملک میں کروڑوں روپوں کی بڑی بڑی بلٹ پروف گاڑیوں کی ریل پیل ہوتی ہے، جو زرمبادلہ سے خریدی جاتی ہیں۔ زندہ رہنا ہے تو آپس کی لڑائیاں ختم کریں، طاقتور ملک بنیں پھر امریکہ ہو یا کوئی اور کوئی ہمیں آنکھیں نہیں دکھا سکے گا اور کوئی ہمارے سفارتکاروں پر پابندی نہیںلگا سکے گا۔