بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی وادی جموں میں چند برس قبل بسائی گئی مسلمانوں کی ایک کالونی کو مسمار کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے گھروں کو خالی کرنے کا نوٹس جاری کردیا۔کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق ضلع جموں کے علاقے بیلی چارانا ستواری میں ہزاروں مسلمانوں نے چند برس قبل بشیر گجر بستی کے نام سے نئی کالونی کی بنیاد رکھی تھی۔بھارتی حکومت نے بشیر گجر بستی کے مکینوں کو اپنے گھر خالی کرنے کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گھروں خالی کیا جائے تاکہ حکومت باآسانی ان گھروں کو مسمار کرسکے۔مسلمانوں نے اس بستی میں 200 سے زائد گھر آباد کیے تھے اور وادی بھر سے ہزاروں مسلمان اس بستی میں منتقل ہوئے تھے۔کشمیریوں کی جانب سے بھارتی حکومت کے اس فیصلے کو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا مسلمانوں کو جموں ریجن سے بے دخل کرنے کے منصوبے کا حصہ تصور کیا جا رہا ہے۔خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کئی ہفتوں سے بھارتی آئین کی شق 35 اے کے اخراج کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں چلنے والے مقدمے کےخلاف شدید احتجاج کیا جارہا تھا۔اسی احتجاج کے دوران دو روز قبل 25 افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ 5 نوجوانوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرکے حراست میں لیا گیا تھا۔حریت کانفرنس سمیت تمام سیاسی جماعتیں بھارتی آئین کی شق 35 اے کے حق میں شدید مظاہرے کررہی ہیں تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت اگلے سال جنوری تک ملتوی کردی ہے۔دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کارروائیوں اور تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے اعداد و شمار کے مطابق اگست میں بھارتی فوج کی کارروائیوں کے دوران نوجوانوں سمیت 34 افراد جاں بحق ہوئے۔گزشتہ ماہ قابض فوج، پیرا ملٹری اور پولیس کی جانب سے پرامن مظاہرین پر فائرنگ، پیلٹ گنز کے استعمال اور آنسو گیس کی شیلنگ سے 483 افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔یاد رہے کہ 1989 سے متعدد مسلح گروپ بھارتی فوج اور ہمالیہ کے علاقوں میں تعینات پولیس سے لڑتے آئے ہیں اور وہ پاکستان سے انضمام یا کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں۔اس لڑائی کے دوران اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، جس میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔کشمیر میں جاری اس تشدد میں گزشتہ دہائی میں کچھ کمی ضرور آئی تھی لیکن گزشتہ سال بھارتی فوج کے حریت پسندوں کے خلاف آپریشن آل آو¿ٹ کے نتیجے میں 350 اموات ہوئیں اور وادی میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
