تازہ تر ین

اچانک توسیع …. اہم ترین خبر

لاہور (سیاسی رپورٹر) معلوم ہوا ہے کہ اگر عین وقت پر جنرل راحیل شریف کو اچانک توسیع دینے کا فیصلہ نہ ہوا تو یہ بات طے ہو چکی ہے کہ جنرل راحیل شریف 29 نومبر کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے۔ اور سنیارٹی کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ نئے آرمی چیف ہوں گے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف بھی اشارہ دے چکے ہیں اور سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ تو کھل کر یہ کہہ چکے ہیں کہ جنرل راحیل شریف ازخود ایک سال کی توسیع سے انکار کر چکے ہیں اور مشاہد اللہ کے بقول کہ وہ اپنے قول کے پکے انسان ہیں لہٰذا یقینا ریٹائرمنٹ کو ترجیح دیں گے۔ دوسری طرف فوج کے علاوہ سیاسی حلقے بھی اس بات پر حیران ہیںکہ آرمی چیف کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود نے جو راحیل شریف کے ساتھ ہی 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں نے روایت کے مطابق الوداعی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف سے نہ صرف الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں شروع کیا گیا بلکہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جن مقامات پر جانا ضروری تھا وہاں سے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ آرمی چیف کے آخری دورے کی نہ تو اطلاع ملی ہے اور نہ ہی مقامی طور پر کسی بھی جگہ کوئی تیاری نظر آرہی ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف سے مکمل خاموشی ہے اور الوداعی ملاقاتوں کی چونکہ تیاری بھی نہیں شروع کی گئی لہٰذا ابھی تک بعض حلقوں کو امید ہے کہ اچانک انہیں ایک سال کی توسیع دے دی جائے گی۔ شاید اوپر کے 4 عہدیداروں کی مدت ملازمت 3 کی بجائے 4 سال کر دی جائے گی۔ لیکن دوسری طرف ہمارے ذرائع کے مطابق نئے آرمی چیف کے لئے نام کم و بیش فائنل ہو چکے ہیں اور جیسا کہ خبریں نے اپنی سابقہ اشاعتوں میں بھی انکشاف کیا تھا کہ سنیارٹی کے اعتبار سے پہلے نمبر پر موجود لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو آرمی چیف کی بجائے لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کی جگہ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کیا جائے گا۔ ان کے بعد لیفٹینٹ جنرل اشفاق ندیم، لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام زیر غور ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے ذاتی طور پر جنرل راحیل شریف ملتان کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم کو پسند کرتے ہیں۔ جو انتہائی سخت گیر، ڈسپلن پر سو فیصد عمل کرنے والے افسر سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم ریٹائرڈ فوجی حلقوں کے علاوہ سیاسی حلقے سنیارٹی کے اعتبار سے چھٹے نمبر لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لے رہے ہیں۔ دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں حاص طور پر یہ کہانیاں مشہور ہیں جب اسلام آباد میں کنٹینروں کی جنگ جاری تھی تو کور کمانڈرز کے مختلف اجلاسوں میں جن جرنیلوں نے کھل کر اور بڑی سختی کے ساتھ فوج کی طرف کسی قسم کی مداخلت کو مکمل طور پر رد کیا تھا ان میں لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام سرفہرست ہے۔ یوں تو سارے کور کمانڈرز نظم و ضبط کے پابند اور آئینی اور قانونی دائرے کے اندر فوج کو رکھنے کے حامی تھے اور ہیں لیکن باجوہ صاحب کا نام کسی نہ کسی طرح اس حوالے سے نہ صرف باہر آیا بلکہ سیاسی حلقوں نے کور کمانڈروں کو نہ صرف سراہا گیا کہ پاک فوج حکومت اور سیاست میں مداخلت کو کسی طرح بھی پسند نہیں کرتی تاہم لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ اس سوچ کی علامت بن کر سامنے آئے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی حلقے زوروشور سے ان کا نام لیتے ہیں اور اپنی پسندیدگی کو چھپاتے بھی نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنتے ہیں تو باقی پانچ لیفٹیننٹ جنرل حضرات بچتے ہیں جن میں دو کے آگے انگریزی کا لفظ Not Considered کا لفظ لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ بعض تکنیکی وجوہات کی بنا پر آرمی چیف کے معیار پر پورا نہیں اُترتے۔ جبکہ اشفاق ندیم جنہیں انتہائی سخت اور سو فیصد ڈسپلن کے حامل افسر سمجھا جاتا ہے شاید سیاسی مصلحتوں کی بنا پر منتخب نہ کئے جائیں جبکہ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے بھی سیاسی حکومت کے لئے موزوں شخصیت ہو سکتے ہیں واضح رہے کہ ان کا کوئی براہ راست تعلق سپریم کورٹ کے سابق جسٹس خلیل رمدے سے نہیں ہے جنہیں مسلم لیگ ن کے کیمپ کا جج سمجھا جاتا ہے اور 2013ءکے الیکشن میں بھی انہیں نوازشریف کیمپ کی طرف سے ایک ریٹائرڈ جسٹس کے طور پر اہم ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں اور جو نواز حکومت کے ایک سابق اٹارنی جنرل چودھری محمد فاروق مرحوم کے بھائی ہیں تاہم لیفٹیننٹ جنرل جاویداقبال رمدے، خلیل رمدے ہی کی طرح آرائیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور خلیل رمدے سے ان کی دور کی رشتے داری ہو سکتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اچھے فرض شناس اور محنتی جرنیل تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر خالصتاً وزیراعظم پاکستان کی صوابدید ہے تاہم اس کا طریق کار یہ ہے کہ فوج میں ملٹری سیکرٹری برانج کے شعبے سے جس کا سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے ایک سمری آرمی چیف کو بھیجی جاتی ہے جن میں نئے آرمی چیف بننے کے لئے چھ ناموں کی سفارش کی جاتی ہے۔ آرمی چیف اس فہرست میں قاعدے اور روایت کے مطابق کوئی تبدیلی، ترمیم نہیں کر سکتے اور وہ اسے وزارت دفاع میں ڈیفنس سیکرٹری کو بھیجنے کے پابند ہوتے ہیں۔ تاہم ماضی میں بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ آرمی چیف نے ذاتی طور پر کسی موزوں جرنیل کا نام پیش کیا جسے قبول کر لیا گیا۔ ڈیفنس سیکرٹری وزیر دفاع کی معرفت یہ سمری وزیراعظم کو ارسال کرتا ہے اور وزیراعظم اس فہرست میں سے جسے مناسب سمجھے منتخب کرتے ہیں اس ضمن میں روایت یہی رہی ہے کہ سینئر یا جونیئر کو نہیں دیکھا جاتا۔ مثلاً جنرل کیانی کے زمانہ میں جنرل راحیل شریف سینئر ترین نہیں تھے اور ذوالفقار بھٹو کے زمانے میں جنرل ضیاءالحق بھی سینئر ترین شمار نہیں کئے جاتے تھے۔ وزیراعظم ہو یا فوجی اور وردی میں چیف ایگزیکٹو یا صدر یا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یہ نام منتخب کرتا ہے چنانچہ جنرل راحیل شریف ذاتی سطح پر چاہیں تو شاید کسی نام کی وزیراعظم سے سفارش کر سکتے یا مشورہ دے سکتے ہیں لیکن اس سفارش یا مشورہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی وزیراعظم نوازشریف 6 لوگوں کی فہرست میں جن میں سے دو پہلے ہی غیر موزوں قرار دیئے جا چکے ہیں باقی 4 لیفٹیننٹ جرنیلوں میں سے ایک کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور کسی دوسرے کو آرمی چیف منتخب کر کے فائنل منظوری کے لئے یہ سمری صدر مملکت کو بھیجیں گے جو وزیراعظم کے انتخاب کردہ نام کی حتمی منظوری دے کر دستخط کرے گا تاہم یہ امر واضح رہے کہ صدر وزیراعظم کے منتخب کردہ نام کو منظور کرنے کا آئینی اور قانونی طور پر پابند ہے۔ یہ معاملہ اب آخری مراحل میں ہے اور چند روز میں اس کا طے کیا جانا ضروری ہے لہٰذا اگر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اگر عین وقت پر توسیع نہیں دی جاتی یا وہ توسیع لینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو یہ امر یقینی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات، لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کی جگہ لیں گے جنہوں نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی حیثیت سے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں جنرل اشفاق ندیم کی بجائے سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائی تقویت پکڑ رہی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ ہی وزیراعظم کی پسند ہوں گے۔ تاہم لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے پر بھی سوچا جا سکتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل جاوید باجوہ کو ترجیح دینے کی خبریں عام ہیں۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہہ یہ بھی ہو سکتا ہے جنرل اشفاق ندیم ایک خفیہ ہتھیار کی طرح سامنے آئیں اور وزیراعظم ان کا اعلان کر دیں۔ تاہم امکان اس کا امکان کم کہا جا رہا ہے۔ پاک فوج کے متعلقہ شبہ جسے ملٹری سیکرٹری برانچ نے ابھی تک کوئی سمری ارسال نہیں کی لیکن اگر وزیراعظم چاہیں تو یہ کام دو گھنٹے میں ہو سکتا ہے کیونکہ ضروری کارروائی ہر وقت تیار رہتی ہے اور ایک ہی دن میں کارروائی انجام دی جا سکتی ہے۔ ادھر یہ قیاس آرائیاں بھی زوروں پر ہیں اگر آرمی چیف نے 29 نومبر کو گھر جانے کا فیصلہ کر لیا تو وہ لاہور واپس آ جائیں گے جہاں ان کا ذاتی گھر زیر تعمیر ہے لیکن یہ خبریں تیزی سے گردش کر رہی ہیں کہ جیسا کہ خبریں نے ایک بار پہلے بھی یہ انکشاف کیا تھا کہ آرمی چیف فوج سے فارغ ہو گئے تو سعودی عرب کے وزیر دفاع کی طرف سے انہیں تحریری طور پر آفر موصول ہو چکی ہے کہ وہ 34 ملکوں کی مشترکہ اسلامی فوج کی سربراہی سنبھالیں بالخصوص سعودی افواج کی تنظیم نو کی نگرانی کریں جو موجودہ وقت میں بھارت کے بعد پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر دفاعی سازو سامان خریدنے پر بھاری بجٹ خرچ کر رہی ہے اور جنرل راحیل شریف کے تجربے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف ان کی خدمات کا پوری دنیا میں اعتراف کیا جا رہا ہے۔ یوں بھی سعودی عرب میں یکے بعد دیگرے ہونے والے واقعات کے پیش نظر سعودی لیڈروں کی خواہش ہے کہ وہ جلد از جلد جنرل راحیل شریف کو اس عہدے کیلئے راضی کر لیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain