تازہ تر ین

پینٹا گان کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ٹرمپ کی پالیسی سے متفق نہیں ، حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نہ مان کر دلیری دکھائی : ضیا شاہد، حکومت توہین مذہب کیخلاف قرار داد دلائے ، تمام جماعتیں ساتھ کھڑی ہونگی : مولاناراغب ، ٹرمپ بہکے بہکے بیان دیتے ہیں ، پینٹا گان کے موقف کو اہمیت دینا ہو گی : سیدہ عابدہ حسین ، چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان نے مذہب کی توہین پر عالمی قانون بنانے کیلئے جو بات کی ہے وہ صرف اسلام کیلئے نہیں بلکہ تمام مذاہب کیلئے ہے۔ سب س کی حمایت کریں گے۔ آج تک کسی حکومت نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ یو این او میں معاملہ لے کر جانے کی باتیں ہوتی رہیں لیکن لے کر نہیں گئے۔ ڈنمارک و ہالینڈ نے گستاخانہ خاکے چھاپے، جب ان سے احتجاج کرتے تھے تو ان کی حکومتیں یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتی تھیں کہ ہمارے ہاں آزادی صحافت و اظہار ہے لہٰذا ہم کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ آزادی اظہار یہ نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ ہوتا ہے کہ کسی ملک یا غیر ملکی معاملہ پر کوئی اپنی رائے دے سکتا ہے لیکن کسی مذہب کے بارے میں نہیں۔ کسی مذہب کی توہین کرنے کا آزادی رائے سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہب ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ کسی کے دن کی توہین نہیں ہونی چاہئے۔ دنیا بھر میں امن، استحکام، رواداری کا ماحول پیدا کرنے کیلئے مذہب کی توہین کے جواب سے عالمی قانون بنانا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکوومت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اس نے آئی ایم ایف کے مسئلے پر جرا¿ت، ہمت و بہادری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا امریکی قانون میں شخصی بادشاہت نہیں، صدر آئین و اداروںکا پابند ہوتا ہے۔ مسلسل کہتا رہا ہوں کہ ٹرمپ جو مسلمانوں کو دھمکیاں دیتا رہا اس پر عملدرآمد نہیں کر سکتا کیونکہ بات ہی غیر قانونی ہے۔ اب پینٹاگون اور وزارت دفاع سے واضح بیان آ گیا ہے کہ پاکستان سے مل کر دہشتگردی کے خاتمے کی کوشش جاری رکھیں گے جبکہ امریکی صدر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ضرورت نہیں پاکستان نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا۔ صدر ٹرمپ کے پاس اب پہلے والی قوت نہیں رہی۔ 2 میں سے ایک ایوان میں وہ ہار چکے جہاں جیتے ہیں وہاں بھی صرف 4 ووٹوں سے جیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا شمار غریب ملکوں میں ہوتا ہے، قرضے لینے کیلئے عالمی اداروں کے پاس جانا پڑتا ہے لیکن اس دفعہ حکومت نے بڑی بہادری و جرا¿ت کے ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط سے انکار کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے چین سے معاہدات کی تفصیلات دیں اور قرضے کی رقم سی پیک منصوبے پر خرچ نہیں کریں گے یہ دونوں شرائط تذلیل آمیز تھیں جو کسی بھی آزاد ملک کے شایان شان نہیں تھیں۔ آئی ایم ایف نے قرضہ دینا ہے وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ بجلی و گیس کی قیمت بڑھا دیں، ٹیکس میں اضافہ کر دیں لیکن ہماری خارجہ و داخلہ پالیسی میں مداخلت کرنے کا اس کو کوئی حق نہیں۔ عمران خان کو سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے جس طرح آئی ایم ایف کو انکار کیا اس کے لئے بھی بڑا دل و گرودہ چاہئے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ حکومتیں جو ہر سال قرضہ لیتی رہیں وہ نہ مانے کیا کیا معلومات فراہم کرتی رہیں۔ سابق حکمران اگر ایسی باتیں مانتے رہے ہیں تو زیادتی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ ملائیشیا کو بڑی اہمیت دیتا ہوں۔ مہاتیر محمد نے کیا معاشی پالیسیز کی تھیں جن کی بنیاد پر اپنے ملک کو اتنی ترقی دی؟ مسلمان ملکوں کو سارے دباﺅ کے باوجود ان سے سیکھنا چاہئے۔ میرے خیال میں عمران خان ان سے اس بارے میں ضرور پوچھیں گے۔ مفید مشورے مل سکتے ہیں۔ ملائیشیا وہ واحد ملک ہے جس کے مہاگیر محمد نے چین پر اعتراض کیا تھا کہ سی پیک منصوبے پر تمام لیبر چائنہ کی کیوں ہے؟ لوکل لیبر فورس کیوں استعمال نہیں کی جاتی؟ پاکستان میں کسی اخبار نے یہ خبر نہیں چھاپی صرف خبریں نے شائع کی تھی کہ پاکستان میں بھی چائنہ اپنی لیبر فورس استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید ہا کہ مجھے ماہر معیاشیات نے بتایا تھا کہ ہمارے ہاں امپورٹ و ایکسپورٹ میں توازن درست نہیں۔ ملائیشیا ہم کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا صرف پام آئل ایکسپورٹ کرتا ہے۔ ان سے بات کی جا سکتی ہے کہ آپ بھی ہم سے کچھ ایکسپورٹ کروائیں۔ سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ نے کہا کہ مہاتیر محمد کے ساتھ دوستی کے تعلقات ہیں۔ پاکستان سے بھی ایکسپورٹ ملائیشیا جائیں تو توازن پیدا ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم کے دورے کے دوران اصل بات اسی پر ہو گی کہ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں توازن کو ٹھیک کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی آئی ایم ایف سے بات جاری ہے، اس میں ٹائم لگتا ہے۔ اگر ہمیں سعودی عرب، چین، ملائیشیا، یو اے ای وغیرہ سے کوئی سپورٹ نظر آتی ہے تو ہمارے پاس بھی ابھی وقت ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ فوری نہیں بلکہ اچھے معاہدے کی ضرورت ہے۔ ہم نے معیشتکو بہتر کرنا ہے۔ سرمایہ کاری ملک میں لانی ہے اگر اس پر انٹرسٹ بڑھا دیں گے تو سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔ سینئرقانون دان علی ظفر نے کہا کہ لوٹی دوسلت باہر سے واپس لانے کا قانون موجود ہے۔ کمیٹی پر کمیٹی بنانے کا جواز نظر نہیں آتا۔ ٹیکس چھپا کر یا کرپشن و غیر قانونی پیسے سے پراپرٹی بنانے پر مختلف قانون موجود ہیں۔ قانون موجود ہے ہم اس کو نافذ نہیں کر سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوٹی دولت کی واپسی کے لئے اب نئی کمیٹی بنانا تو نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ ہمیں پہلے مسائل کی شناخت کرنی چاہئے پھر اس کا حل ڈھونڈیں۔ پہلے یہ شناخت کرنے کی ضرورت ہے کہ غیر قانونی طور پر جائیداد کیوں اور کس طرح بنتی ہے تب تک ہم اس کا حل نہیں ڈھونڈ سکتے۔مذہبی سکالر علامہ راغب نعیمی نے کہا کہ جب ڈنمارک نے نازیبا خاکے چھاپے تھے، اس وقت بھی امت مسلمہ خاص طور پر پاکستان میں علماءکی جانب سے یہی تجویز تھی کہ اس حوالے سے عالمی سطح پر قانون سازی کرنی چاہئے۔ حضور کے جواب سے گستاخانہ خاکے، تحریر یا کوئی بھی چیز ہو، ہم بطور مسلمان اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین سے پچھلے دنوں ایک ایسی خاتون کی سزا کو بحال رکھا جس نے حضور کی شان ہیں نعوذ باللہ گستاخی کرنے کی غرض سے بڑے فورم و کانفرنسز منعقد کی تھیں۔ یہ قانون بھی آزادی اظہار کے نام پر یہ سب کر رہی تھی لیکن یورپ نے مسلمانوں کے موقف کو تسلیم کیا۔ اب برف پگھل رہی ہے۔ حکومت مذہب کی توہین پر قانون سازی کے لئے عالمی سطح پر بھرپور کوشش کرے، علماءکا تعاون ان کے ساتھ رہے گا۔سابق سفیر سیدہ عابدہ حسین نے کہا ہے کہ امریکی سٹیبلشمنٹ نے دہشتگردی کے حاتمے کیلئے پاکستان سے مل کر کوششیں جاری رکھنے کی وضاحت کی ہے، انہوں نے صدر سے اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا صدر ٹرمپ اکثر خارجہ امور میں بہکے بہکے بیان دیتے رہے ہیں لیکن ان کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے اس کی جگہ سٹیبلشمنٹ کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain