لاہور(خبر نگار)سال 2018ء پاکستان مسلم لیگ ن پر کافی بھاری رہا۔شہباز شریف آشیانہ ہاو¿سنگ سکیم اور صاف پانی سکینڈل میں گرفتار ہوئے جس کے بعد پارٹی قائد نوازشریف کو بھی العزیزیہ ریفرنس کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ نوازشریف کی گرفتاری کے بعد پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا جبکہ پارٹی رہنماو¿ں اور کارکنان نے مریم نواز کو پارٹی کی موجودہ حالت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پارٹی کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دینے کی مخالفت کی اور مریم نواز کو پارٹی کا نیا لیڈر بنانے پر اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ شہباز شریف کو پارٹی صدر بنانے کے بعد بھی کئی رہنماو¿ں نے شہبازشریف پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور اڈیالہ جیل میں قید نوازشریف سے ہدایات لیتے رہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نض میں جتنی اہمیت نوازشریف اور ان کی ہدایات کو دی جاتی ہے ، کوئی بھی ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اب جبکہ نواز شریف العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا یافتہ اور کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں تو اپنی پارٹی کو بچانے کے لئے ان ہی کو جیل میں متحرک ہونا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے لاہور کو ایک مرتبہ پھر سے سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ نوازشریف کوٹ لکھپت جیل میں قید ہونے کے باوجود لاہور کے ساتھ ساتھ اپنی مرکز کی سیاست کو بھی چلائیں گے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو سیاسی میدان میں ہمیشہ ہی اہمیت حاصل رہی ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو اور پھر شریف خاندان نے بھی اسی شہر کو سیاسی اعتبار سے کافی اہمیت دی جس کے بعد عمران خان بھی لاہور میں اپنی رہائش گاہ سے ہی سیاسی جوڑ توڑ کرتے تھے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ نوازشریف کی اڈیالہ جیل کی بجائے لاہور جیل منتقلی سے مسلم لیگ (ن) کو بھرپور فائدہ ہو گا۔ لیکن اس کے لیے خود نواز شریف کو ہی متحرک ہونا ہو گا اور آگے بڑھ کر اپنی پارٹی کے لیے کچھ سوچنا ہو گا۔ اندرونی اختلافات کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) تقسیم ہو چکی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور میں رہ کر کیا نوازشریف اپنی جماعت کو مزید تقسیم ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔دوسری جانب والد کی سزا سے چند گھنٹے قبل مائیکوربلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک بار پھر سے متحرک ہو کر مریم نواز نے بھی یہ تاثر دیا ہے کہ وہ ایک مرتبہ ہھر سے متحرک ہونے والی ہیں۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ ن کو مزید تقسیم ہونے سے بچانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی آپسی تلخیاں بھلا کر پارٹی کو یکجا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس سے کسی ایک گروپ یا شخص کو نہیں بلکہ یقیناً مجموعی طور پر پارٹی کو ہی فائدہ پہنچے گا جو مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مستقبل کے لئے اچھا ثابت ہو گا۔
