تازہ تر ین

سیوریج پانی میں پولیو وائرس تشویشناک ، مستقبل میں معذور نسلیں پیدا ہونگی : ضیا شاہد ، بھارت طالبان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لینا چاہتا : عابدہ حسین ، حکومت کی ذمہ داری اسحاق ڈار کی واپسی کیلئے برطانیہ سے بات کرے : بریگیڈئیر (ر ) فاروق حمید ،مودی حکومت پاکستان دشمنی کو الیکشن جیتنے کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے : عبداللہ گل ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ افغانستان کے بارے میں موجودہ حکومت کی پالیسی جس طرح سے عمران خان کی حکومت نے کوشش کی اور جس طرح سے ابوظہبی میں امریکہ سے مذاکرات بھی طالبان سے چل رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتاہے کہ معاملات سلجھنے کی طرف چل رہے ہیں اور اب جنگ کا فوری خطرہ نہیں ہے اس پر کور کمانڈرز کانفرنس میں اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے جب تک ابوظہبی میں ہونے والے مذاکرات کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں ااتا۔ مذاکرات چل رہے ہیں لیکن کسی قسم کی کوئی چیز ابھی سامنے نہیں آئی۔ نہ تو فریقین کا کوئی طرز عمل سامنے آیا ہے کہ امریکہ نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہو یا طالبان نے کہا ہو کہ ہم نہیں بات کرتے۔ بات چیت چل رہی ہے اس لئے دیکھو اور انتظار کرو والی صورت حال ہے۔ دیکھنا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ٹرمپ نے نیٹو فورسز کے سربراہ سے کہا تھا مذاکرات کا نتیجہ کچھ ہو سکتا ہے ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں اس کا مطلب ہے کہ مذاکرات ناکامی کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ یہ ناکام بھی ہو سکتے ہیں چونکہ ابھی ناکامی کی کوئی اطلاع نہیں اس لئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ جاری ہیں۔ مذاکرات جاری رہنا بھی ایک امید والی بات ہوتی ہے۔ کیونکہ مذاکرات کو ختم ہونا ہو تو کسی بھی سٹیج پر ایک فریق جو ہے وہ سخت موقف اختیار کر کے دوسرے فریق کو انکار کر سکتا ہے یا بات چیت بھی جاری رکھنے سے انکار کر سکتا ہے۔ پہلے بھی ایسے معاملات زیر بحث آئے ہیں کہ جس میں خواہ حکومت میں تھے یا حکومت میں نہیں تھے اپوزیشن میں تھے اگر کسی نے اپنی جائیداد چھپائی ہو تو اس کو صادق اور امین کی تعریف سے نکالا جا سکتا ہے اوراگر صادق اور امین کوئی نہیں رہتا یعنی امانت دار نہیں صادق نہیں ہے یعنی سچ نہیں بولتا تو اسکو نااہل کیا جا سکتا ہے اب اعظم سواتی کے بارے میں کیا کہا کہ 101 کنال زمین جو ہے اس کی موجودگی کا انہوں نے کس جگہ اپنے کاغذات میں ذکر نہیں کیا چنانچہ اگر اس بنیاد پر ان کو ٹرائل کیا جائے اور ثابت ہو جائے کہ انہوں نے بغیر کسی وجہ کے چھپایا ہے تو پھر نااہل بھی ہو سکتے تھے اور ان کی سینٹ کی سیٹ بھی ختم ہو سکتی ہے۔ جب انہوں نے استعفیٰ دیا تھا تو تحریک انصاف والوں نے کہا تھا کہ اور ان کی لیڈر شپ کے قریبی حلقوں نے کہا تھا کہ اگر ان کے اوپر کوئی چیز ثابت نہ ہوئی یعنی اگر یہ 101 کنال اراضی والی موجودگی بھی کہ ان کے اثاثے ہیں کہیں ظاہر نہیں کئے گئے تھے اگر یہ نہ ہوتا تو وہ اس کو واپس بھی لے لیتے دوبارہ حکومت میں لے لیتے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ 101 کنال زمین جو ہے یہ ان کے حلق میں ہڈی کی طرح پھنس گئی ہے۔ استعفے اکثر بڑی بڑی مدت تک محفوظ رکھے جاتے ہیں جب تک کوئی فائنل فیصلہ نہیں ہو جاتا تھا۔
اسحق ڈار کی وطن واپسی کے حوالے سے بھی ایک کیس کی سماعت ہوئی ہے جس پر چیف جسٹس صاحب نے استفسار کیا ہے کہ لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود اسحق ڈار کو وطن لانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جا سکا۔ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ عدالت نے یہ الفاظ استفسار کئے ہیں کہ اس میں صرف خط و کتابت کے اور کچھ نہیں ہوا۔ حکومت نے تو خط لکھ دیا اور جواب میں خط آ گیا مگر عدالت اس حوالے سے ٹھوس ثبوت مانگتی ہے۔ حکومت کو اس بارے واضح طور پر بتانا پڑے گا کہ جو باہمی معاہدات ہوئے تھے اس کے باوجود ہم اس کو لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ تو پھر یہ عدالت اس مسئلے کو ٹھپ کر سکتی ہے۔ عدالت کا دائرہ اختیار پاکستان کے اندر ہے۔ پاکستان سے باہر برطانیہ میں بیٹھے ہوئے وزیراعظم برطانیہ کو یا وزیر داخلہ برطانیہ کو کس طور پر عدالت مخاطب بھی نہیں کر سکتی۔ پرویز رشید، عطاءالحق قاسمی، اسحق ڈار، فواد حسن فواد کو جو جرمانہ عائد کیا گیا تھا اس کیس کی سماعت ہوئی کہ ان کی جانب سے ایک پیسہ بھی نہیں جمع کرایا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کو دوبارہ سے نوٹس کئے جائیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ان کو دو ماہ کی مہلت دی گئی تھی۔ ان دو ماہ کے دوران تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی تھی۔ عطاءالحق قاسمی نے اینکر کامران خان سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ میں تو پھر جیل ہی جاﺅں گا۔ ہاں البتہ ان کو جو نوٹسدیئے گئے ہیں آج کے جواب میں جو کہیں گے وہ عدالت میں جواب کنسیڈر ہو گا۔ پرویزرشید، عطاءالحق قاسمی کو، اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد کو بھی ہوا تھا۔ ان چاروں جرمانوں کے جواب میں اب وہ جو کچھ کہیں گے اس کو عدالت میں جواب تسلیم کر کے عدالت اس پر غور کرے گی۔ میں سمجھتا ہو ںکہ ریکوری کے سسٹم میں ہمیشہ مدت دی جاتی ہے اس مدت کے اندر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی ان کو بھی جو مدت دی گئی تھی اگر مدت گزر چکی ہے تو عدالت دوبارہ نوٹس کر سکتی ہے اور وہ مدت گزر گئی ہے تو عدالت گرفتار بھی کر سکتی ہے۔
تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں پرانا مسئلہ ہے جو پہلے کراچی میں سامنے آیا۔ عدالت نے فیسیں کم کرنے کا کہالیکن نہ کی گئیں۔ اب لاہور میں بھی ایسا ہی نظر آ رہا ہے کہ عدالت کے حکم کے باوجود ادارے فیسیں کم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ عدالت ابھی اس معاملے پر زیادہ زور نہیں دے رہی وگرنہ وہ اپنے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر گرفتاری کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ عدالت اپنے کسی بھی حکم پر عملدراامد کرانے کی طاقت رکھتی ہے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود کا کام صرف پی ایم ہاﺅس کو یونیورسٹی بنانا نہیں تھا بلکہ وزیراعظم نے یکساں نظام تعلیم پر جو بار بار زور دیا ہے اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے امریکہ کو ٹکا سا جواب دے دیا ہے کہ وہ طالبان سے نہیں لڑ سکتا، امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس جواب پر چپ سادھ لی ہے اور کسی غصے کا اظہار نہیں کیا بلکہ ٹرمپ اور مودی نے آپس میں مزید تعاون بڑھانے پر غور کیا ہے۔ طالبان سے جنگ سے انکار کرنے والا بھارات کشمیر میں نہتے شہریوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے اب اطلاع ہے کہ کشمیر میں سبز رنگ بنانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے کہ اس سے پاکستان کا پرچم بنایا جاتا ہے۔ بھارت سبز رنگ کو کہاں کہاں سے مٹائے گا کہ یہ رنگ تو ہریالی کی صورت پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے شروع سے ہی یہ موقف اپنا رکھا ہے کہ کسی پرائی جنگ میں نہیں کودیں گے۔ ابوظہبی میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات کو ایک طرح سے عمران خان کی ااشیر باد حاصل ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کر کے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا، اب جس فورس کو آپ بات کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اس سے خود تو نہیں لڑ سکتے۔ عمران خان نے اچھی پالیسی اپنائی ہے، پاکستان خود افغانستان میں امن چاہتا ہے جو صرف اس صورت ممکن ہے کہ امریکہ نہ صرف طالبان سے مذاکرات کرے بلکہ اسے کسی حتمی نتیجہ تک بھی پہنچائے۔ مذاکرات کا ختم نہ ہونا بتا رہا ہے کہ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے بڑی تعداد میں بچے معذور پیدا ہو رہے ہیں یا پیدائش کے بعد پولیس کا شکار ہو کر معذور ہو رہے ہیں۔ آنے والی نسل کو پولیو سے بچانے کیلئے اس مسئلہ پر خاصی توجہ دینا ہو گی۔ اب بھی پولیو ٹیموں کی بعض علاقوں تک رسائی نہیں اور بعض جگہ والدین بچوں کو قطرے نہیں پلانے دیتے اس وجہ سے بھی یہ بیماری بڑھ رہی ہے۔ سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کا پایا جانا انتہائی تشویشناک ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔
دفاعی تجزیہ کار عبداللہ گل نے کہا کہ وزیراعظم اور حکومت نے بھارت کے حوالے سے مناسب پالیسی اپنا رکھی ہے۔ بھارت میں الیکشن جاری ہیں مودی کو 5 صوبوں میں شکست ہوچکی ہے کرپشن کے میگا سکینڈل بھی سامنے آ رہے ہیں اس لئے پاکستان مخالف نعرہ لگانا مودی کے لئے بہت ضروری ہو چکا ہے۔ مودی حکومت سازش کے ذریعے چاہتا ہے کہ پاکستان اسے کوئی ایسا موقع دے جسے بہانہ بنا کر وہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں آ جائے۔ وزیراعظم عمران خان کا امن کا پیغام اچھا ہے، آرمی چیف نے بھی امن کی بات کی۔ پاکستان ہر قسم کا جواب دینا جانتا ہے تاہم وہ ذمہ دار ایٹمی ریاست ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ بھارت کو افغانستان میں اپنے کھربوں ڈوبتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ امریکہ تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ ایک تقریب میں امریکی اور بھارتی سفیر سے ملاقات ہوئی، ان کی باتوں سے واضح ہو رہا تھا کہ ان کے افغانستان میں دن تھوڑے ہیں ایسا ہونے کی صورت میں پاکستان کی وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی اور تاپی منصوبہ کی باگیں ہاتھ میں آ جائیں گی اور یہی غم بھارت کو کھائے جا رہا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ میں حالیہ ہونے والا معاہدہ اسحق ڈار کی وطن واپس لانے کی جانب پہلا قدم ہے سپریم کورٹ نے اسحق ڈار کو واپس لانے کا کہا ہے اس لئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ برطانوی حکومت سے بات کرے۔ اسحق ڈار نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی بھی درخواست دے رکھی ہے ان کو واپس لانے میں مسائل تو ہیں تاہم دیکھنا ہے کہ حکومت، وزارت داخلہ اور نیب ڈار کو واپس لانے میں کب کامیاب ہوتے ہیں۔ الطاف حسین، حسن و حسین نواز، علی عمران یہ سب قانون کے بگھوڑے ہیں جنہوں نے برطانیہ میں پناہ لے رکھی ہے، حکومت یقینا ان سب قانون کے مجرموں کو واپسلانے کیلئے اقدامات کر رہی ہو گی۔ آنے والے مہینوں میں حکومت قومی سلامتی کے ادارے اگر اپنا رول ادا کرتے ہیں تو شاید ان سب کو واپسلانے میں کامیاب رہیں گے۔ قومی خزانہ لوٹنے والوں سے ایک ایک پائی کا حساب لینا ہو گا۔ حمزہ شہباز کے خلاف نیب کارروائی کرے گی۔ ایف آئی اے نے ان کی لندن فرار ہونے کی کوشش کو ناکام بنایا۔ قومی خزانے کو لوٹنے والا کوئی شخص بھی اب بیرون ملک فرار نہیں ہو سکتا۔
سابق سفیر عابدہ حسین نے کہا کہ بھارت کی پالیسی ہمیشہ ہی دوغلی رہی ہے، وہ کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہے۔ بھارت طالبان کے خلاف کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لینا چاہتا اور خود کو بے نقاب بھی نہیں ہونے دینا چاہتا۔ سنجیدگی سے دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ بھارت کا طالبان پر کوئی اثرورسوخ نہیں ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain