تازہ تر ین

بھارت 7 دن سے آگے جنگ نہیں لڑ سکتا ، امریکی اخبار نے پول کھول دیا : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اگر ہم یہ بات کہتے تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ پاکستان انڈیا پر الزام لگا رہا ہے لیکن یہ بات امریکہ کے ایک اخبار نے کی ہے کہ جو مستند اخبار ہے اور اس کی خبریں کافی حد تک صحیح ہوتی ہیں۔ امریکی اخبار کا یہ دعویٰ جو ہے وہ اس خوفناک صورتحال کو ظاہرکرتا ہے کہ انڈیا جو ہے وہ جتنی بھی باتیں کر رہا ہے ہوا میں ہیں ان کے دعوے بھی ہوا میں ہیں اسرائیل کے کچھ لوگ اس کی واہ واہ میں شریک ہیں۔ اسرائیل کی سراغ رساں ایجنسی بھی ساتھ شامل ہے اور آج تو بڑے واضح طور پر یہ خبر آ گئی ہے جو خبریں نے پہلے دن خبر شائع کی تھی کہ اسرائیل جو ہے جو طیارے انڈیا کے گرائے گگئے تھے ان کا سامان ملا ہے اس میں سے جو چیزیں ملی ہیں اس میں اس حملے کا اور پلاننگ کا معلومات کا وہ اسرائیل سے براہ راست تعلق تھا اور آج تو واضح اورکھل کر یہ خبر آ گئی ہے کہ بھارت اور اسرائیل مل کر پاکستان پر میزائل حملہ کرنا چاہتے تے اور یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بات ظاہر ہے لیکن اسرائیل کتنی جنگ ان کی آ کر لڑے گا۔ وہ کچھ سپیشلسٹ دے سکتے ہیں کچھ انسٹرکٹر دے سکتے ہیں لیکن اسرائیل کی بڑے پیمانے پر فوج نہیں ہے وہ وہاں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑے وہ ایک مدت سے لڑتا آ رہا ہے اور یہاں آ کر انڈیا کروڑوں لوگوں کے تحفظ اور دفاع کے لئے بھی لڑائی لرے یہ ممکن نہیں وہ یقینا مدد ضرور دے گا اسلحہ سے دے گا اور اپنے پروفیشنل ماہرین سے دے گا اس سے زیادہ اسرائیل آﺅٹ آف دی وے جا کر انڈیا کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ اب بات اتنی اوپن ہو چکی ہے کہ اور آج کی سٹوری کے بعد کہ اسرائیل شریک تھا اگر پاکستان پر میزائل حملہ ہوتا تو اسرائیل بھی اس کی پلاننگ میں شریک تھا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب ضرور دیکھنا پڑے گا بہت سارے دوسرے ملکوں کو جو اس جنگ میں کبھی شامل نہیں تھے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہ آج سے 40,30,20,15 سال سے ہم یہاں سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ ہنود و یہود کو ہندوستان اور یہودی ریاست یعنی اسرائیل یہ اکٹھے ہیں ایک ساتھ ہیں اور پاکستان کا صف اول کا دشمن اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ سے تو ہمیں کوئی توقع نہیں کرنی چاہئے برطانیہ خود شریک تھا اسرائیل کے قیام میں اور امریکہ پہلے دن سے اسرائیل کا سب سے بڑا مددگار ہے اور لوگ تو کہتے ہیں کہ ایٹم بم اسرائیل کے پاس ہے وہ بھی نیوکلیئر ٹیکنالوجی مکمل طور پر جو اسباب ہے وہ امریکہ مہیا کرتا ہے امریکی اسلحہ ان کے پاس ہے امریکی ٹیکنیکل لوہا ان کے پاس ہے اور امریکہ کے بینکوں پر یہودی سرمایہ کاروں کا ہے لہٰدا امریکہ سے یہ توقع رکھتا کہ وہ اسرائیل کی مذمت کرے گا وہ ناممکن ہے مناسب نہیں ہو گا لیکن اس طرح برطانیہ سے بھی زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہیں باندھنی چاہئیں۔ لیکن دنیا جو ہے وہ صرف امریکہ اور برطانیہ کا نام نہیں ہے اور دنیا میں بے شمار ملک ہیں ابھی یہ جو پاکستان نے جو خطوط لکھے ہیں وہ ایک 168 یا 187 ممالک کو خط لکھے ہیں۔ ان کی اسمبلیوں اور پارلیمنٹس کو عمائدین کو یہ خطوط لکھے گئے ہیں جس میں یہ توجہ دلائی گئی ہے انڈیا کی انتہا پسندی کی طرف تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے نقطہ نظر سے متاثر ہونے والے ممالک کی کمی نہیں ہے یہ درست ہے وہ اتنی پاور میں نہیں ہیں وہ سپر پاور میں شمار نہیں ہوتے لیکن عددی اکثریت کے اعتبار سے ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو پاکستان کے نقطہ نظر کی حمایت کرتی ہے اورروزانہ ہمیں جو مختلف ملکوں کے عمائدین کی طرف سے عمران خان صاحب کو فون موصول ہو رہے ہیں یا جن سے عمران خان صاحب فون پر بات کر رہے ہیں ان میںکل برطانوی وزیراعظم تھریسامے بھی شامل تھیں۔ قطر کے امیر کا یہ کہنا کہ ہم حاضر ہیں انڈیا سے بات چیت کرنے کے لئے اور اس سلسلے میں ہمارا تعاون حاضر ہے اسی طرح بے شمار ملک جو ہیں وہ آہستہ آہستہ پیش کش کر رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اس دنیا کی اس ظالمانہ دوڑ میں سپر پاورز کے شکنجے میں جو ممالک ہیں وہ تو ظاہر ہے ایک سپر پاور اگر انڈیا کی مدد کر رہا ہے توہ بھی مجبور ہیں میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے اکثریتی ممالک جو ہیں انڈیا کا جھوٹ انڈیا کے سامنے آ گیا ہے انڈیا کے مبالغہ آمیز باتیں سامنے آ گئی ہیں ان کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ 300 آدمی کس جگہ پر انڈیا نے پاکستان کے دہشت گرد قرار دے کر ختم نہیں کئے ان کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ اب یہ ہم نے نہیں بلکہ امریکی ذرائع ابلاغ نے یہ کہا ہے کہ وہاں کچھ درختوں کے پتے ضرور جھلس گئے تھے اس کے سوا کوئی بڑا نقصان سامنے نہیں آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی ذرائع ابلاغ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ جو ایف 16 طیارے کی تباہی کی جو روداد ہے وہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ پاکستان جن طیاروں کی مدد سے چھوٹی سی جو جھڑپ تھی اس کا مقابلہ کیا ہے تو اس میں کسی بھی جگہ ایف 16 طیارہ استعمال نہیں ہوا امریکہ کہہ رہا ہے کوئی 300 آدمی وہاں دہشت گرد تھے جو تباہ ہوئے ہیں۔ امریکہ کہہ رہا ہے ایف 16 طیارہ استعمال ہی نہیں ہوا۔ اب اس طرح اوپر نیچے انڈیا کا جھوٹ ظاہر ہوتا جا رہا ہے اگر وہ 300 آدمی دہشت گرد بقول ان کے ختم ہوئے ہیں تو کہاں ہیں ان کی لاشیں ان کی میتیں کہاں ہیں ان کی تدفین کہاں ہوئی، 300 آدمی تھوڑے نہیں ہوتے اس کے علاوہ اگر ایف 16 استعمال ہوئے ہیں تو امریکہ جس نے ایف 16 دیئے تھے پاکستان کو جو ایک ایک طیارے کا حساب رکھتا ہے اس کو تو پتہ نہیں ہے بھارت کو کیسے پتہ چل گیا۔ ثالثی کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ روس اس سے پہلے بھی پاکستان کے ساتھ آپ کو یاد ہو گا 1965ءکی جنگ میں جو ثالثی کی پیش کش کی تھی وہ روس نے کی تھی اور مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت لعل بہادر شاستری جو تھے وہ انڈیا کے وزیراعظم تھے اور پاکستان کے صدر اس وقت ایوب خان تھے اور ذوالفقار علی بھٹو اس وقت پاکستان کے وزیرخارجہ تھے چنانچہ تاشقند میں جو اس وقت روس میں تھا اور یہ بعد میں یہ مسلمان ریاستیں آزاد ہوئی ہیں، جن کو روسی ترکستان کی ریاستیں کہتے ہیں لیکن اس وقت بھی روس نے ثالثی کی پیش کش کی تھی اور یہاں سے ایوب خان اور وہاں سے لعل بہادر شاستری بھاگتے تھے اور تاشقند میں یہ مذاکرات ہوئے تھے۔ روس جو ہے اس کے تعلقات بھارت سے بھی بہت اچھے ہیں۔ پاکستان سے بھی گزشتہ چند برسوں سے روس نے اپنے بڑے تعلقات بنائے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ روس کی ثالثی کو تو شاہ محمود قریشی نے تسلیم بھی کر لیا ہے جو میں نے ان کا 3 دن پہلے انٹرویو کیا ہے اس میں انہوں نے پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ ہم نے روس کی ثالثی کو قبول کر لیا ہے اور اب ہم منتظر ہیں کہ روس جو ہے۔ الفاظ یہ تھے کہ دیکھنا ہے کہ ماسکو اب کب بھارت سے بات کرنا ہے اور پھر ہمیں بتاتا ہے کہ بات چیت کہاں تک پہنچی ہے۔
ہم کہیں گے تو کہا جائے گا کہ ہم ایک مخالف ملک کے بارے میں کر رہے ہیں میں کوئی لفظ نہیں کہنا چاہتا لیکن یہ جو امریکی اخبار کہتا ہے جو امریکہ کی حکومت کہتی ہے جو امریکہ کی وزارت خارجہ کہتی ہے جو امریکہ کا سٹیٹ آفس کہتا ہے وہ ازخود ان چیزوں کی تکذیب اور تردید کر رہا ہے اور بھارتی دعوﺅں کی قلعی کھول رہا ہے۔
روس نے پاک بھارت تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے جسے پاکستان نے قبول کر لیا ہے اب دیکھنا ہے کہ ماسکو اس بارے دل سے کب بات کرتا ہے۔ روس نے 1965ءمیں بھی ثالث کا کردار ادا کیا تھا اور پاک بھارت مذاکرات تاشقند میں ہوئے تھے۔ نیویارک ٹائمز امریکی اخبار نے بھارت کی جنگی دھمکیوں کی قلعی کھول دی ہے۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اسرائیل بھارت کی مدد سے پاکستان پر میزائل حملہ کرانا چاہتا تھا۔ پاکستان کو چاہئے کہ اس معاملہ پر زیادہ سے زیادہ ملکوں کے ساتھ رابطہ کرے اور اپنے موقف سے آگاہ کرے۔ سپیکر قومی اسمبلی کے دنیا بھر کی پارلیمان کو لکھے گئے خط کا بھی مثبت اثر ہو گا۔ اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہے اور اسے ختم کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ پروگرام ہماری بقا کیلئے صروری ہے کہ ہمارا ازلی دشمن بھی ایٹمی طاقت رکھتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے نوبل انعام بارے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ اسے ملنا چاہئے جو مسئلہ کشمیر کو حل کرائے۔ نریندر مودی بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ کانگریس کے رہنما تیہواری نے پریس کانفرنس میں مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مودی نے او آئی سی میں بھارت کی پوزیشن خراب کی ہے جس پر انہیں جواب دینا ہو گا۔ سوشل میڈیا اور بھارتی میڈیا کا بھی ایک حصہ ان کی بات کی حمایت کر رہا ہے۔ شیخ عبداللہ کا انٹرویو بھی سوشل میڈیا پر چل رہا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ فوج کشی سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا۔ پاکستان پر الزام لگانے کی بجائے ان کشمیری نوجوانوں سے بات کیوں نہیں کی جاتی جو بھارتی فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک خاتون شاعرہ لتا حیا نے اپنی نظم میں مودی کو خوب لتاڑا اور کہا کہ میں ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کیلئے ایک مسجد تعمیر کرانا چاہتی ہں۔ ہندو دانشور کھل کر مودی کے خلاف بول رہے ہیں اس کے تعصب اور مسلم دشمنی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بھارت سے خبریں آ رہی ہیں کہ ابھی نندن کے پیچھے پڑ گئے ہیں کوئی کہتا ہے دماغی توازن درست نہیں کوئی کہتا ہے فوج سے نکال دو بہت سے لوگ نندنن کی طرف داری بھی کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی قیدی پائلٹ کی رہائی کا فیصلہ کر کے بھارت میں اپنی حمایت میں لابی بنا لی ہے۔ بھارت میں مودی مخالفت اور مودی حمایت میں بحث تیز ہو گئی ہے۔ جھوٹ بول کر خود کو بے نقاب کرنے والا مودی اب اپنے فاع میں مصروف ہے عمران خان نے جس طرح سعودی عرب سے کہہ کر قیدی رہا کرائے اسی طرح دنیا کے دیگر ملکوں کی جیلوں میں سالوں سے بند پاکستانی قیدیوں کو بھی رہا کرنا چاہئے۔ جس طرح امریکہ کا سفارتخانہ اس ملک میں موجود تمام امریکیوں کا ریکارڈ اور خیال رکھتا ہے اسی طرح پاکستانی سفارتخانوں کو بھی فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain