تازہ تر ین

بھارتی بحری جارحیت بھی ناکام، پاکستان نے پھر دفاعی برتری ثابت کر دی ؛معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے مسلسل کوشش ہو رہی ہے کہ تناﺅ کی بجائے بھارت کو صلح صفائی سے آگے بڑھ کے روکا جائے اس قسم کی جو مثال کے طور پر فضائی قوت کے بعد اب بحری قوت کو سامنے لانا اور ایٹمی آبدوز کو پاکستان کی کراچی کی بندرگاہ داخل کرنے کی کوشش کرنا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا کے عزائم جارحیت سے باز آنے کاکوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پورے طریقے سے ان کا ترکش کا آخری تیر بھی ٹل نہیں جائے گا وہ اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ کافی دیر سے بھارت نے کوشش کی تھی رافیل طیارے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس طرح سے امریکہ نے ایف 16 طیارے بنائے تھے اس طرح سے بھی رافیل کے نام طیارے بنائے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ رافیل کی جو کوالٹی اور ولاسٹی ہے اس میں وہ ایف 16 سے اور اسی طرح انڈیا جو تجربہ کر چکا ہے اس میں جو طیارے انہوں نے استعمال کر لئے ہیں وہ ثابت ہوا ہے کہ شاید وہ اپ ٹو مارک نہیں تھے اسی طرح امریکہ کا پریس جو ہے وہ پیچھے پڑا ہوا ہے نیویارک ٹائمز کے بعد واشنگٹن پوسٹ نے بھی یہ سٹوری دی ہے یہ دوسرا بڑا اخبار امریکہ کا ہے اور جو دارالحکومت واشنگٹن سے شائع ہوتاہے اس نے بھی یہ لکھا ہے کہ جو انڈیا کے پاس ہتھیار ہیں وہ فضائی نقطہ نظر سے زیادہ موثر نہیں ہیں۔
ضیا شاہد نے وائس ایڈمرل (ر) تسلیم سے سوال کیا کہ فضائی جنگ میں ایک پسپائی کے بعد آج پہلی مرتبہ بھارت نے نیوی کا رخ کیا ہے انڈیا نے اور جس طرح سے اس کی ایٹمی آبدوز جو ہے وہ اپنی حدود سے کراس کر کے پاکستانی علاقے میں داخل ہوئی تھی جس کو روک دیا گیا تھا اس کو اشارہ دیا گیا کہ واپس چلی جائے اور پھر وہ واپس چلی گئی جس طرح فضائی قوت میں پاکستان کے پاس جو طیارے وہ کوالٹی اور کارکردگی کے اعتبار سے انڈین طیاروں سے شاید بہتر ہیں اس کا اندازہ بھی ہوتا جا رہا ہے اور نیویارک ٹائمز نے اپنی سٹوری میں اسلحہ کی دوڑ بارے کوائف چھاپے ہیں اور آج واشنگٹن پوسٹ نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ امریکہ کے دو اخبارات نے باقاعدہ یہ کہا ہے کہ انڈیا کے پاس جو اسلحہ ہے خاص طور پر فضائی قوت میں وہ شاید اتنا بہتر نہیں ہے اس کو کچھ وقت لگے گا پاکستان کے معیار تک پہنچنے میں۔ نیوی کے بارے میں میری معلومات ذاتی طور پر نہیں ہیں میں چاہوں گا نیوی کا بھی کچھ جائزہ سامنے آ جائے کہ انڈیا کی نیوی جو ہے پاکستان کی نیوی کے مقابلے میں کس طرح زیادہ بہتر ہے یا ہم کس حد تک تیار ہیں کم از کم اپنے دفاعی نقطہ نظر سے کچھ اس پر روشنی ڈالئے گا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ابھی نندن جو کچھ کہا ہے کہ وہ شاید نیک نیتی سے اپنے ملک کو صحیح مشورہ دیا ہو گا لیکن جنگ کی فضا میں اس قسم کی کسی سپاہی سے بات کرنا اس لئے ایک بڑی تعداد میں لوگ جو ہیں وہ وہاں بڑی تعداد میں لوگ ان کے خلاف ہیں اور خاص طور پر ان کا یہ نقطہ نظر کہ جب اس نے کہا کہ پاکستان سے جنگ نہیں بات چیت ہونی چاہئے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے طریقے سے آن گراﺅنڈ کرنے کی کوشش کریں گے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بارے میں سٹوری مشہور کر دی جائے کہ ان کا ذہنی توازن درست نہیں رہا۔ آگے چل کر کیا ہوتا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے ہم کوشش تو کریں گے اپنی پوری، لیکن جو پہلا ری ایکشن جو ہوا ہے وہ کچھ اچھا نہیں ہے اور انڈیا کی جو ایک طرح سے طمانچہ پڑا ہے کہ ان کے دونوں دعوے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں ان کے 300 لوگوں کو مارنے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے ان کا ایف 16 طیارہ گرانے کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا ان کا اس علاقے میں کوئی مار دھاڑ کرناغلط ثابت ہوا ہے امریکی سیٹلائٹ کے ماہرین نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ وہاں کچھ درختوں کے پتے جھلسنے کے سوا وہاں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہو ںکہ پہلا ری ایکشن تو انڈیا میں کچھ اچھا نہیں ہے۔ آج تو مودی نے خود تسلیم کر لیا ہے مودی نے کہا ہے کہ اس نے ریڈیو پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے حالانکہ ریڈیو تو جو ہے وہ ایک آرگن ہے جو خبر آئے گی وہی اس کو آگے نشر کرے گا لیکن جتنی خبریں باﺅنس بیک کر چکی ہیں انڈیا کی جسے ایف16 والا قصہ جیسے 300 آدمیوں کی ہلاکت، جس طرح اوپر نیچے اس علاقے میں ہر طرف تباہی کے جھوٹے قصے یہ ساری چیزیں غلط ثابت ہوئی ہیں اور اب اس کو محسوس ہو رہا ہے کہ ریڈیو پاکستان جو ہے وہ دراصل صحیح خبریں دے رہا ہے اب تک ایک بھی ہماری خبر ایسی نہیں ہے جو ہم نے آفیشلی جو درشنی لیا ہو جو حقائق ہوں خبر کے حقائق سے مختلف ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آدمی سچ بولنا چاہئے آخر کار سچ کی فتح ہوتی ہے۔ انڈیا کے سامنے حقائق سامنے آ رہے ہیں جس طرح انٹرنیشنل پریس اس کو کوریج دے رہا ہے اور جس طرح سے اس کا ایک ایک جھوٹ آتا جا رہا ہے۔ انڈیا خود اپنے دام میں پھنس رہا ہے انڈیا اپنے ہی جال میں پھنس گیا ہے۔
ضیا شاہد نے 1965ءکی جنگ میں انڈیا نے ریڈیو پاکستان کے بارے میں بڑا زہر اگلا تھا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں نے اس زمانے میں پڑھا تھا کہ انہوں نے ہمارے ریڈیو کے ایک نیوز کاسٹر شکیل احمد کو جو بڑے جوش و جذبے کے ساتھ خبریں پڑھتے تھے جو پاکستان کے جنگی طیارے انڈیا کے علاقوں میں پرواز کرتے تھے ان کے بارے یہ کہتے تھے کہ آج انہوں نے ہلواڑو کا ہلواڑہ بنا دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ شکیل احمد کو دشمن نمبر ایک قرار دیا تھا اس وقت آکاش وانی نے جو انڈیا کے ریڈیو کا نام ہے۔ آج ایک بار مودی نے ایک بار ریڈیو پاکستان کا گلہ کرنا یا اس کو دشمن ایک قرار دینا خود انڈین میڈیا کی شکست ہے اور انڈین میڈیا نے اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں جس طرح انڈین میڈیا پھنس گیا ہے اور پوری دنیا میں اس کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ انہوں نے اوپرنیچے جھوٹ بولے اورجب ان کا پول کھل گیا۔ آج بھی ریڈیو پاکستان کو مودی کا بھارت کا دشمن نمبر ایک قرار دینا مجھے 1965ءکی جنگ یاد آ گئی۔ جس میں شکیل احمد جو نیوز کاسٹر تھے پاکستان کے انن کو انہوں نے بھارت کو نمبر ایک دشمن قرار دیا تھا۔ حالانکہ وہ خبریں پڑھتے تھے البتہ خبریں بڑے جوش جذبے سے پڑھتے تھے۔ انڈیا پاکستان سے 5 گنا بڑا ہے لیکن ہماری فوج کی، فضائیہ کی، نیوی کی پیشہ وارانہ صلاحیت کے اعتبار سے اللہ کے فضل سے ہم ان کے برابر کی چوٹ رکھتے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن یہ امداد اخلاقی سیاسی اور سفارتی سطح پر ہونی چاہئے۔ کسی بھی طریقے سے ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری بعض کالعدم تنظیموں کو نشانہ بنایا جائے اور ان کے بارے میں ثبوت پیش کئے جائیں کہ یہ کشمیر میں کس قسم کی دراندازی کر رہے ہیں عمران خان کی حکومت کا یہ اقدام ثابت کرے گا کہ ہم پرامن قوم ہیں ہم ہرگز نہیں چہتے کہ اپنے پڑوسی ملک میں کسی جگہ پرجا کر اس قسم کی دراندازی کی جائے جس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ ہم سفارتی اور سیاسی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے کاز کو بلند کرتے رہیں گے۔ آج تو اتنا بڑا واقعہ ہے کہ پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کا ایک جملہ جس میں انہوں نے گائے کے بارے میں کوئی جملہ کہا تھا اوراس کو نہ صرف جب ہمارے ایک ہندو رکن قومی اسمبلی نے اس کی طرف توجہ دلائی عمران خان صاحب کی تو عمران خان صاحب نے اپنے وزیر سے استعفیٰ لے لیا اور کہا جاتا ہے کہ اس کی جگہ وہ ایک وزیراطلاعات لائیں گے انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوںکہ پاکستان میں اقلیتوں کے مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچانے کے لئے کوئی جملہ استعمال کیا جائے۔ ان کی جگہ صمصام بخاری کا نام لیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ ایک جذباتی فضا ہے اس میں بہت سوچ سمجھ کر الفاظ کا استعمال ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان کے اندر خاص طور پر سندھ اور کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر ہندو آبادی موجود ہے اور اس لئے ہمیں کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انڈیا میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لئے بہت برے طریقے سے مذہبی جذبات کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب ہمیں وہ بات اچھی نہیں لگتی تو ہم اپنے طور پر دیکھیں کہ جو ہمارے یہاں جو ہندو ہیں ان کو کوئی جملہ اچھا نہیں لگے گا جس میں ان کے جذبات کو مجروح کیا جائے۔ یہ عمران خان کا دانش مندانہ فیصلہ ہے جس طرح ابھی نندن کا چھوڑنا یہ بھی ایک ایسی ہی بات تھی جس کو بظاہر سمجھا گیا کہ وہ پاکستان کی کمزوری ہے لیکن پوری دنیا میں اس کو سراہا گیا۔ ہمارے چیف جسٹس دوست صاحب نے ایک بڑی شخصیت سے نوٹس لیا ہے اور نارووال سیشن جج کو ایک کیس واپس بھیجا ہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جو شخص جھوٹی گواہی دیتا ہے اس کو سختی کے ساتھ اس کو پکڑا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظام اسلام کی بنیاد ہی سچی گواہی پر ہے اگر گواہ جھوٹا ہے اس پر جو عمارت اس پر تعمیر ہوئی ہے وہ ساری کی ساری جھوٹی ہے۔ عمران خان نے اس کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچ کا سفر ہی نئے پاکستان کا سفر ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain