لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کی اہم بات وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ اعتراف تھا کہ جنگ میں کشیدگی کچھ کم ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ان ملکوں کا نام لیا جن کی کوششیں اس ضمن میں قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے امریکہ، چین کے علاوہ سعودی عرب اور اس کے علاوہ بعض دیگر ممالک کا بھی ذکر کیا اور سعودی عرب کی خاص طور پر کاوشوں کو بھی سراہا اور اب تک ایٹمی جنگ میں نہ بدلنے کی وجہ بھی ایک یہی بعض بڑے ممالک دو تھے وہ اس صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے کہ کہیں دونوں ایٹمی ملک جو ہیں یہ لڑائی جو ہے وہ بڑھ کر ایٹمی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ مودی نے اپنے لئے جو رول متعین کیا ہے وہ غالباً الیکشن کے پیش نظر ایک جنگجو ہیرو کا کردار تھا جو انڈین فلموں کی طرح سے وہ بھی سلمان خان بننا چاہتے تھے کہ بیک وقت ساروں کو پچھاڑ دیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا کیونکہ ان کی یکے بعد دیگرے دو تین اقدامات ایسے تھے کہ جس میں ان کی بدنامی ہوئی اوران کی کریڈیبلٹی متاثر ہوئی ان پر اعتماد مجروح ہوا اور ملک کے اندنر بہت سی اختلافی آوازیں بھی اٹھیں اور اپوزیشن کو بہانہ مل گیا اس بات کا کہ مودی صاحب جو ہیں وہ امن کے دشمن ہیں تو میں سمجھتا ہوںکہ یہ امیج کسی حاکم کےلئے مملکت کے سربراہ کے لئے خاص طور پر جب وہ حکومت اور ملک ایٹمی صلاحیت کی مالک بھی ہو کیونکہ سو دفعہ سوچنا پڑتا ہے جنگ کرتے وقت کہ کہیں یہ ایٹمی جنگ نہ بن جائے۔ اور ایٹمی ہتھیاروں کا کام آنا جس طرح سے خبریں چلی تھیں کہ میزائل پھینکے جا رہے تھے کراچی اور بہاولپور میں اور جس طرح سے یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان نے بھی 6 ٹارگٹ اپنے مخصوص کر لئے تھے پر کسی وجہ سے جو بھارت کی طرف سے جو پیش قدمی نہیں وہ نہ ہو سکی اس لئے یہ پیش بندی بھی جو تھے وہ ضائع گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے بجائے ہیرو بننے کے اس وقت اپنے اوپر قابو پانے کی ضرورت ہے اور دوسرے کو کم از کم مشتعل کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں مودی اور عمران خان صاحب کے درمیان موازنہ کیا جائے تو عمران خان ایک کھلنڈرے نوجوان کے کانسپٹ سے باہر آئے ہیں اور انہوں نے ایک دانشمندی کا ثبوت دیا ہے اور انتہائی ٹھنڈے مزاج سے معاملات کو لیا ہے جبکہ مودی صاحب نے جگہ بہ جگہ اپنے جنگجو ہونے کا اور اپنے لڑاکا ہونے کا اور اپنے طاقت کے نشے میں چور ہونے کا ثبوت دیا ہے جس کو اللہ کو شاید منظور نہیں تھا۔ اور ان کا غرور خاک میں مل گیا۔ معلوم ہوتا ہے اب بھارت نے جتنی تنقید اس پر ہوئی ہے بین الاقوامی میڈیا پر بالخصوص اس کے پیش نظر پالیسی اختیار کی ہے اپنی سٹیٹ پالیسی کے تحت وہ خود پر اٹھنے والے سوالات کا جواب نہیں دے رہا۔ کیونکہ جب بھارت سے ایف 16 کو تباہ کرنے، بالاکوٹ میں 300 بندے مارنے کے شواہد مانگے جاتے ہیں تو پھر ان کے پاس جواب نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے جب بات جھوٹ کہی گئی ہو پھر جھوٹ کا نتارا بھی ہو جاتا ہے لہٰذا انڈیا خاموش ہے اور بین الاقوامی میڈیا کے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے اور ابب یہ بات ظاہر ہو رہی ہے انڈیا کو اپنے جھوٹ ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ انڈیا کی پچھلے دنوں کی خاموشی کی پالیسی ہے اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں۔ جیسا کہ ایک مرتبہ ان کی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں سے خطاب کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنے ہی ملک کے اخبار نویسوں کے سوالوں کے جواب نہ دے سکے اور پریس کانفرنس اور مصوری چھوڑ کر چلے گئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنی بات ثابت کرنے کا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بڑے اخبارات نے سب سے پہلے لندن کے اخبار انڈی پینڈنٹ نے یہ سٹوری چھاپی کہ جو انڈیا کی طرف سے اٹیک ہوا اس میں بھی بتایا کہ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ سے یہ حملہ ہوا۔ اس کے بعد نیویارک ٹائمز نے تو انڈیا کی افواج کی صلاحیت کے پرخچے اڑا دیئے کہ 10 دن سے زیادہ اور 6 دن سے اوپر ہتھیار اس پوزیشن میں نہیں ہیں وہ ایک بھی جنگ لڑ سکیں۔ اس کے بعد آخر میں واشنگٹن پوسٹ کے اپنا ڈال دیا اور کہا کہ ایف 16 کی شمولیت سے انکار کیا اور یہ بھی کہا کہ بالا کوٹ میں 300 افراد کی تباہی کے کوئی آثار نہ تھے۔ اس طرح سے ان تینوں اخبارات نے جو صف اول کے اخبار مانے جاتے ہیں ان تینوں نے بھارتی موقف کی تردید کی۔
نوازشریف صاحب کو انجائنا کی تکلیف کے حوالے سے خبر پر بات کرتے ضیا شاہد نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا علاج پرائیویٹ ڈاکٹرز کے ذریعے ہو جائے مثلاً کہا جاتا ہے کہ جو شریف میڈیکل سٹی ہے اس میں منتقل ہونا چاہتے ہیں یا اتفاق ہسپتال منتقل ہونا چاہتے ہیں اگر وہ پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے تو بھی، اول تو وہ انگلینڈ میں جس ڈاکٹر نے پہلے ان کا آپریشن کیا تھا اسی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتے ہیں لیکن سرکاری قواعد ایسے ہیں کہ ان کو سزا ہو چکی ہے وہ اس وقت قیدی ہیں اور کسی قیدی کو علاج کی سہولتوں کےلئے نہ تو باہر جانے کی یا بھیجنے کی کوئی روایت موجود ہے نہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے البتہ ایک ہی کام ہو سکتا ہے بلکہ میری اپنی درخواست ہو گی ہم سب کی خواہش ہے نوازشریف تندرست و توانا رہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو بخیر و خوبی رکھے لیکن لاہور میں دل کے امراض کے ہسپتال انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیا لوجی سب سے بہترین ہسپتال ہے جس میں 24 گھنٹے دل کے مریضوں کی ہی دیکھ بھال ہوتی ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں ضد چھوڑ کر اس میں داخلے پر آمادگی کا اظہار کرنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ دیر کرنے سے کوئی معاملات بگڑ جائیں جس طرح سے رات دیر تک انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی والے بھی کہتے رہے کہ ہم پوری طرح سے تیار ہیں نواز شریف صاحب اگر یہاں آتے ہیں تو ہم ان کا مکمل علاج کروانے کے لئے ہم مکمل طور پر تیاری کر چکے ہیں لیکن نوازشریف صاحب نے رات گئے تک بھی اس بات سے انکار کیا کل جو ملاقات ہوئی ہے شہباز شریف کی اپنے بڑے بھائی سے اس میں بھی انہوں نے ایک طرف تو یہ کہا ہے کہ ان کی طبیعت بہت سنگین طور پر خراب ہے دوسری طرف یہ کہا ہے کہ اگر کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت جو ایسٹریکٹ کا لفظ استعمال ہوا ہے اصل میں ملکی قوانین جو ہیں وہ اس کی اجازت نہیں دیتے کہ میڈیکل بورڈ کے مشورے کے بغیر ان کو کس جگہ پر لے جایا جائے۔ اور میڈیکل بورڈ پہلے بھی مشورہ دے چکا ہے کہ انہیں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیا لوجی میں منتقل کر دیا جائے۔ اگر ان کو دل کی تکلیف ہے تو۔ ہماری سب کی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نوازشریف صاحب کو صحت یاب کرے۔ اللہ تعالیٰ ان کی کسی بھی قسم کے خطرے سے محفوظ رکھے تاہم یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب لاہور میں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سب سے بڑا ہسپتال ہے اور نوازشریف کو دل کی تکلیف ہے تو اب معلوم ہوا ہے کہ انجائنا کا بھی اٹیک ہوا ہے لہٰذا جب تک کوئی فائنل فیصلہ نہ ہو جائے یعنی ان کے باہر جانے کا جس کے لئے ملکی قوانین اجازت دیتے ہیں یا نہیں دیتے علیحدہ بحث ہے اس وقت تک آپ لوگ بھی پارٹی لیول پر کوشش کریں کہ نوازشریف صاحب لاہور میں دل کے بہترین ہسپتال سے دل کا مرض ایسا ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی جو کوتاہی نہیں کی جا سکتی اللہ تعالیٰ ان کو صحت یاب کرے اور ہماری دُعا ہے کہ آپ لوگ ان کو اس بات پر قائل کریں کہ لاہور میں جو بھی سہولیات ہیں جس میں خود اتفاق ہسپتال شامل ہے شریف میڈیکل سٹی ہے جہاں جہاں بھی ان کی تسلی کے مطابق سہولت موجود ہے ان کو سہولت ملنی چاہئے اور کسی بھی طور پر ان کو کوئی ایسی تکلیف لاحق نہیں ہونی چاہئے جو معاملہ خطرناک ثابت ہو۔
نوازشریف کو پاکستان میں میسر طبی سہولیات سے فائدہ اٹھانا اور فوری اپنا علاج کرانا چاہئے علاج نہ کرانے کی ضد نہیں کرنی چاہئے، تمام سینئر لیگی قیادت کو چاہئے کہ نوازشریف کو علاج کرانے کیلئے قائم کریں۔ ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ نواز دور میں ہوا اور کئے گئے، یہ فیصلہ سول و عسکری قیادت نے مل کر کیا، نوازشریف وزیراعظم تھے اس لئے کریڈٹ ان کو جاتا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کم ہوتی نظر آ رہی ہے، دُعا گو ہوں کہ یہ مکمل ختم ہو جائے وزیرخارجہ سفارتکار کو دلی بھیجنے کا بیان خوش آئند ہے۔ امریکہ اور ویت نام میں جنگ کے دوران دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بحال رہے ہیں اور مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک جانب جنگ جاری تھی تو دوسری جانب سفارتکاری جاری تھی صلح کی بات ہو رہی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان متوقع ایٹمی جنگ سے بچاﺅ کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ملک سفارتکاروں کے ذریعے خطرناک حالات پر قابو پائیں اور جنگ کا دائرہ کار بڑھنے نہ دیں اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کو برا بھلا کہنے کی بجائے دونوں ملک صلح کی جانب آئیں اور بلاوجہ اشتعال سے بچیں۔ وفاقی حکومت کا دانشمندانہ اقدام ہے کہ کالعدم تنظیموں کے پکڑے گئے افراد کی تحقیقات ہوں اور جو کلیئر ہوں انہیں رہا کر دیا جائے۔ پاکستان نے کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کر کے اپنی نیک نیتی ثابت کی ہے۔ بھارت کو بھی جارحانہ بیانات سے گریز اور انتہا پسندوں کو پکڑنا چاہئے جس میں مودی کی پارٹی بھی شامل ہے۔ ہاﺅسنگ سیکٹر میں چینی کمپنی کا آنا خوش آئند ہے، وہ تعمیرات کرے گی تو اس سے عوام کو فائدہ ہو گا۔ چینی کمپنی کی کارکردگی بہتر ہو گی اور لوٹ کھسوٹ کا وہ بازار گرم نہ ہو گا جو یہاں کے ٹھیکیداری نظام میں پایا جاتا ہے۔ بہاولنگر میں زمیندار کا 5 سالہ بچی پر تشدد افسوسناک ہے کسی کو اس طرح کی حرکت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ملزم کیخلاف فوری کارروائی ہونی چاہئے۔
