لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بھارتی نائب وزیرخارجہ وی کے سنگھ کا بیان جھنجلائے ہوئے ناکام اور فرسٹیڈ شخص کا ہے لگتا یہ ہے کہ مودی کی ٹیم کے ہر شخص کی یہی کیفیت ہے اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کیا کریں اور کس بات کا کیا جواب دیں لہٰذا وہ اسی طرح کے بیان دیں گے کہ پلوامہ حملے بارے جو سوال کرے اسے بم سے باندھ کر طیارے سے نیچے پھینک دینا چاہئے۔ وہ یہ جملہ استعمال کر کے اپنا غصہ اتارنا چاہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا میںتبھی جمہوریت ہے آج تو راہول گاندھی نے مودی کے خلاف بڑی زوردار پریس کانفرنس کی اور کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ ساتھ شیخ فاروق عبداللہ کی پریس کانفرنس کو دیکھیں جو گزشتہ 3 دن سے دہرائی جا رہی ہے آج بھی وہ ایک ٹی وی چینل پر گفتگوکر رہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے جو کشمیری نوجوان ہیں ان سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور بندوق سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ شیخ عبداللہ کے صاحبزادے شیخ فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں مقبوضہ کشمیر کے لیکن یہ کانگریس میں تھے اور کانگریس اس وقت مودی سرکار کے سخت مخالف ہے اور اب تو کانگریس کوشش کر رہی ہے ساری جماعتوںکے ساتھ مل کر ایک متحدہ محاذ بنانے کی تا کہ وہ اگلے الیکشن میں مودی کو جیتنے نہ دیں۔ راہول گاندھی نے الزام لگایا کہ رافیل طیاروں کی خریداری کے معاملے کی کڑیاں کہیں نہ کہیں سے مودی سرکار سے جڑتی ہیں۔ اور کرپشن کی جو فائلیں ہیں وہ دفتر خارجہ سے چوری کروائی گئی ہیں۔ اگر اس معاملے کو اٹھایا جاتا ہے یہ تو ظاہر ہے اس قسم کی بات ہے جس قسم کی بات پاکستان میں بعض سابق وزراءکے خلاف کہی جاتی تھی کہ وہ اصل ڈیل کے اعداد و شمار نہیں بیان کر رہے مختلف ملکوں سے جو ان کی ڈیل ہوتی تھیں اس طرح سے فرانس سے جو رافیل طیاروں کی ڈیل ہوئی ہے اس میں وہ فائلیں ہی گم ہو گئیں اور تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں، لگتا یہ ہے کہ مودی اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں ایک بار پھر پھنس گیا ہے اور رافیل طیاروں کا مسئلہ انہیں آج اگر ان کی حکومت ہے لیکن جب ان کی حکومت نہیں ہو گی تو ان پر جو چند بڑے بڑے الزامات لگیں گے ان میں ایک رافیل طیاروں کی خریداری کا معاملہ بھی ہے۔ اصل خبر جو آج کی بڑی ہے شاہ محمود کا کل کا بیان ہے جو اخبارات کی لیڈ ہے کہ ہمارے بروقت اقدامات سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا اگر یہ بات صحیح ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بڑے پیمانے پر جنگ ہونے والی تھی اور اللہ رحم کرے اگر ایٹمی ہتھیار بھی سامنے آ جاتے تو آدھی دنیا جو تھی ان حملوں کی زد میں آ جاتی میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت معاملہ فہمی سے بڑی طاقتوں اور دوست ممالک نے بہت مداخلت اور کردارادا کیا ہے کہ دونوں طرف جو بڑھکی ہوئی آگ تھی اس کو بجھانے میں بڑی تگ و دو سے کام لیا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان وہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے کتنے عزائم ہیں پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو استوار کرنے میں، لگتا یہی ہے کہ ان کا انڈیا پر بھی کافی اثر ہے اور ہمیں بیس ارب ڈالر کی انہوں نے سرمایہ کاری تھی مشترکہ منصوبوں میں جبکہ ایک اعداد و شمار بعض اخبارات میں شائع ہوئے ہیں جس کیں کچھ اخبارات میں 100 ارب ڈالر اور کچھ میں 200 ارب ڈالر کی فگر بنائی گئی ہے انڈیا میں سعودی رمایہ کاری کا بڑا حجم ہے لگتا یہ ہے کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ انڈیا سے بھی بات کر سکیں پاکستان سے بھی بات کر سکیں ہمارے ساتھ ان کے بہترین تعلقات ہیں چنانچہ خود شاہ محمود قریشی صاحب نے یہ کہا ہے کہ امریکہ، چین اور سعودی عرب ان ملکوں میں پیش پیش بتائے گئے جنہوں نے اس جنگ کو روکنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اورانہوں نے کافی مثبت اور تعمیری فکر کا مظاہرہ کیا۔ موجودہ سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان میں اس سلسلے کی کڑی ہے کہ جو وقتی طور پر ان کا ولی عہد کا دورہ ٹل گیا تھا وہ بھی اب دوبارہ ہو گا انڈیا میں اور یقینی طور پر پاکستان اور انڈیا کے معاملات کو بہتر بنانے میں سعودی عرب کا بہت بڑا رول سامنے آئے گا۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو اقدامات چل رہے ہیں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ اب اس کی زیادہ تگ و دو اس پر عمل کیا جا رہا ہے بھارت نے اس کے لئے امکان کا نقطہ استعمال کیا ہے بعض جو طاقتیں ہیں تنظیمیں ہیں ان کے بارے میں کہ شاید امکانی حد تک ممکنہ طور پر ان کا ہاتھ ان حملوں میں ہو سکتا ہے تو پاکستان کی حکومت نے صرف امکان کی حد تک جو خطرات کی حد تک انڈیا نے توجہ دلائی ہے ہم نے اس پر بھی فوری طور پر ایکشن لیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑنا چاہتا جس سے وہ انڈیا کی طرف سے اٹھنے والی کوئی شکایت جو ہے اس کو نظر انداز کرے، لیکن یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ میں کل بھی اور پرسوں بھی توجہ دلائی کہ دو دن سے کہہ رہا ہوں کہ ہم تو بہت کچھ کر رہے ہیں ہم نے جہادی اور کالعدم تنظیموں کے بارے میں کچھ اور مزید سخت اقدامات کر دیئے ان کی 144 کے قریب گرفتاریاں بھی کر دی گئی ہیں ان کی گاڑیاں بھی پکڑ لی گئی ہیں حتیٰ کہ ان کی جو گاڑیاں جو خدمت خلق کے سلسلے میں ڈسپنسریاں اور ہسپتال چلاتی تھیں ان کو پکڑ کر 1122 کو دے دیا گیا ہے لیکن ابھی تک وہ ڈوزئیرز انڈیا نے ہمیں بھجوائے ہم نے اس پر فوراً ایکشن لینا شروع کر دیا لیکن جو ڈوزئیرز ہم نے ملیحہ لودی کے ذریعے یو این او کے جنرل سیکرٹری کو پہنچائے تھے اور جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ انڈیا اپنی جاسوسی ہو یا پاکستان کے خلاف سازشیں ہوں اور منظم سازشیں ہوںاور پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے لئے جو کوششیں انڈیا کر رہا ہے جس میں کلبھوشن یادیو کا مسئلہ بھی شامل تھا لیکن اس سلسلے میں نہ یو این او نے کوئی قدم اٹھایا اور نہ ہی انڈیا نے ہماری ان گزارشات پر توجہ دی۔ میں نے کہا کہ کچھ دوستوں کے ذریعے بات کرنی چاہئے کہ جناب کوئی ڈوزئیرز کو بھی انڈیا نے پڑھا یا دیکھا کہ ہم نے کیا کیا شکایات پیش کی تھیں اور کیا ثبوت پیش کئے تھے اور ہم نے ان کو بلیک اینڈ وائٹ ثبوت جو تھے وہ ملحہ لودھی کے ذریعے یو این او کے سیکرٹری جنرل کو پہنچائے تھے، عالمی برادری کو چاہئے اور خاص طور پر یو این او اور ان کے ذلی اداروں کو وہ ہمارے ڈوزئیرز پر بھی توجہ دے اور اس سلسلے میں انڈیا سے پوچھا جائے کہ ہماری شکایات کا بھی نوٹس لے اس سلسلے میں بھی اقدامات نظر آنے چاہئیں جس طرح سے کہ ہمارے اقدامات دکھائی دے رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ بھارت میں بڑا طبقہ مودی حکومت کی پالیسیوں سے بیزار ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مودی پاکستان سے جنگ کروانے لگے تھے اور اگر ایٹمی جنگ ہو جاتی تو اس میں کوئی بھی زندہ نہ بچتا۔
ماڈل ٹاﺅن سانحہ پر جے آئی ٹی کے سامنے پرویز رشید، رانا ثناءاللہ اور خواجہ آصف کے پیش ہونے کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ ایک بات طے شدہ ہے کہ اس سلسلے میں شکایات سامنے آئی ہیں پرویز رشید اور خواجہ آصف اور رانا ثناءاللہ ثاحب کا چاہے گلے یا شکایت کے طور پر ہی سہی لیکن ان کا اس جے آئی ٹی میں پیش کرتا ہے کہ وہ اس کو مانتے ہیں ورنہ دوسرے سے کہہ دیتے اور سابقہ موقف پر قائم رہتے کہ ہم اسے نہیں مانتے کہ ہم نہیں پیش ہوتے۔ اپنے تحفظات رکھنے کا ان کو پورا حق حاصل ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن طاہر القادری کی جماعت کی طرف سے مسلسل خاموشی وہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک وقت میں بالکل لگتا تھا کہ دنیا ادھر کی ادھر کر دیں گے لیکن اب جناب طاہر القادری صاحب پاکستان سے اکثر باہر ہوتے ہیں وہ دوچار دن کے لئے چکر لگا کر واپس چلے جاتے ہیں ان کے نمبر ٹو سے پوچھنا چاہئے کہ جناب اگر آپ کا رویہ، طرز عمل اسی طرح سے، اتنا ٹھنڈا رہا تو پھر کوئی اُمید نہیں رکھی جا سکتی کہ آپ کی طرف سے یہ دباﺅجاری رہے گا ان کی صفوں میں مایوسی سی سی دکھائی دے رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کا یہ موقف کہ پہلے میثاق جمہوریت پر دستخط کرو پھر اپوزیشن کو سندھ پی اے سی کا چیئرمین بنائیں گے غلط ہے اگر پارلیمانی روایت کے تحت تحریک انصاف کی حکومت نے وفاق میں شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنایا ہے تو اس روایت کے تحت تحریک انصاف کے سندھ میں اپوزیشن لیڈرکو بھی چیئرمین پی اے سی بنانا چاہئے، اس معاملے کا میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے سے کوئی تعلق نہیں بنتا نہ پی پی ایسا کہنے کا کوئی جواز رکھتی ہے۔ سندھ حکومت تحفظات پیش کرنے کے بجائے واضح طور پر بتائے کہ وفاقی حکومت کا کون سا اقدام 18 ویں ترمیم کے خلاف ہے۔ میرے نزدیک یہ بڑی خبر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو تاکید کی کہ نوازشریف کو ہر طرح کی طبی سہولت دی جائے تاہم کسی قیدی کو علاج کیلئے بیرون ملک بھجوانے کی قانون میں اجازت نہیں ہے۔
