تازہ تر ین

مجھے لازماََ اقرار کرلینا چاہیے کہ میں مدھوبالا کی کشش میں مبتلا تھا

 اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ نرگس ایک بے حد اہل اداکارہ تھی جس میں ہر فلم کے ساتھ بہتری آرہی تھی، میں بخوبی اندازہ کرسکتا تھا کہ اس وقت اس میں بے تحاشہ بہتری آچکی تھی جب ہم محبوب خان کی” انداز“(1949) میں کام کرنے کیلئے منتخب کئے گئے تھے” انداز“ میں کام کرنا ایک پرمسرت تجربہ تھا کیونکہ راج کپور بھی اس فلم میں موجود تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے خالصہ کالج کا زمانہ واپس آچکا تھا، راج اور نرگس اس انداز سے کام کرتے تھے جو ان کے سین کیلئے ایک اچھی مساوات بناتا تھا اور نرگس کے ساتھ کام کرنے کا میرا انداز بھی ایک اچھی مساوات کا حامل تھا۔نرگس اور راج وہ احساسات اجاگر کرتے تھے جن کا مطالبہ ان سے کیا جاتا تھا اور اس کے نتیجے میں وہ آسانی کے ساتھ اپنے سین کرتے تھے، میں اس آسانی کے حصول میں مدھو بالاکے ساتھ” ترانہ“(1951) میں کامیاب ہوا، جو کئی وجوہات کی بنا پر میرے کیریئر کے ابتدائی برسوں کی یادگار فلموں میں سے ایک رہی ہے، وہ بے ساختہ اپنے رد عمل کا اظہار کرتھی تھی، وہ ایک ایسی اداکارہ تھی جوا سکرپٹ کے مطالبے پر پورا اترتی تھی۔ میں محبوب صاحب کے ساتھ آرام دہ محسوس کرتا تھا، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ کوئی بھی آرام دہ اور پرسکون محسوس کرنے کا آغاز کرتا ہے جیسے کہ وہ انہیں مدتوں سے جانتا ہے۔ میں نے ”شبنم“(1949) کی کامیابی کے بعد اپنی اولین گاڑی خریدی تھی ۔ ”آزاد“ کی کامیابی نے مجھے کامیابی کا حقیقی شعور بخشاتھا۔ اور میں اس شہر میں اپنی ذاتی رہائش کا حامل بننے کی بابت سوچنے لگاتھا جس کی میرے دل میں بطور آبائی سرزمین خصوصی جگہ تھی۔ اور اپنی جائے پیدائش پشاور کے ساتھ میرے جذباتی وابستگی تھی جوشمال مغربی صوبہ سرحد میںواقع تھا۔اس دور میں بھی اخبارات معروف اداکاروں اور اداکاراو¿ںکی جذباتی وابستگی کی بوسونگھتے پھرتے تھے اربات کو بڑھا چڑھاکر نشر کرتے تھے ، آج کی طرح اس دورمیں بھی ایسے معروف اداکار ان کا نشانہ بنتے تھے جو بہت زیادہ پرستاروں کے حامل ہوتے تھے اور جن کی ذاتی زندگیاں ان کے قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوتی تھیں ۔کیا میں مدھو بالا کی محبت میں گرفتار تھا جیسا کہ اس وقت کے اخبارات اور رسائل نے خبریں چھاپی تھیں؟ مجھے لازماً یہ اقرار کرنا چاہیے کہ میں اس کی کشش میں مبتلا تھا…. اور یہ کشش اس وجہ سے تھی کہ وہ ایک عمدہ شریک اداکارہ تھی اور یہ کشش اس وجہ سے بھی تھیں کہ وہ ایک ایسا فرد تھی جس میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی تھیں جو میں اس دور میں اور اس عمر میں ایک عورت میں دیکھنا چاہتا تھا….ہمارے ناظرین ”ترانہ“ میں ہمارے جوڑے کی تعریف کرتے تھے اور ہمارے کام کے تعلقات گرم جوشی کے حامل تھے…. وہ مجھے میرے شرمیلے پن سے باہر نکال سکتی تھی…. اس نے وہ خلاپر کردیا تھا جو پر ہونے کے لیے چیخ و پکار کررہا تھا….مغل اعظم میں ہمارے جوڑے کا اعلان ہیجان خیز اور سنسنی خیز تھا…. یہ 1950ءکی دہائی کا آغاز تھا اور یہ خبر اس لیے ہیجان خیز اور سنسنی خیز تھی کیونکہ ہماری جذباتی وابستگی کی افواہیں گردش کر رہی تھیں….درحقیقت کے آصف (فلم کے ہدایتکار) کی خوشی اس تشہیر کی وجہ سے دیدنی تھی….کے آصف میرے لیے مدھو بالا کے حساسات سے آشنا تھا…. کیونکہ اس نے ایک مرتبہ اس کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران اس کا انکشاف کیا تھا اور وہ میری فطرت سے بھی بخوبی واقف تھا۔وہ جانتا تھا کہ میں ایک ایسا شخص تھا جو اہم ذاتی یا پیشہ وارانہ فیصلوں کے حوالے سے جلد بازی نہ کرتا تھا۔ اس نے اسے مشورہ دیا کہ ایک باعزت اور بااصول پٹھان کو رام کرنے کے لیے اسے جسمانی قربت میں گھسیٹا جائے….میں محسوس کرتا ہوں اس نے وہ کچھ کیا جو کچھ ایک خود غرض ہدایت کار اپنے مفاد کی خاطر کرتا ہے…. میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ آصف اس وقت بڑی سنجیدگی کے ساتھ صورت حال کو سنبھالا دینے کی کوشش کر رہاتھا۔ جب ہمارے درمیان صورت حال مخدوش ہو چکی تھی…. اس کے باپ کا شکریہ جس نے ایک مجوزہ شادی کو ایک کاروباری قسمت آزمائی بنانے کی کوشش کی…. نتیجہ یہ تھا کہ مغل اعظم کی نصف پروڈکشن تک حتیٰ کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بات بھی نہیں کر رہے تھے…. کلاسیک سین جو ہ ہمارے درمیان آتےتھے….انہوں نے لاکھوں تصورات کو آگ لگا دی…. اس وقت فلمایا گیا جبکہ ہم حتیٰ کہ ایک دوسرے کے ساتھ سلام دعا لینا بھی ترک کر چکے تھے…. یہ فلم کی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا اور دونوں اداکار خراج تحسین کے مستحق تھے جنہوں نے اپنے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہدایت کی توقعات کے عین مطابق فلمی مناظر کی عکسبندی بخوبی کروائی۔ ( جاری ہے)


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain