لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا لیکن اب خاص طور پر قطر کے ذمہ دار ترین شخصیت پاکستان آئی تھیں اس کے بعد یہ افواہیں دوبارہ شروع ہوئی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ پیش کش یہ ہوئی ہے کہ آپ اتنے پیسے لے لیں اور ان کو جانے دیں اور اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ نہیں جی مسئلہ پیسے لینے سے زیادہ یہ ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ پیسے کس مقصد کے لئے جمع کروا رہے ہیں اور تسلیم کریں کہ ہم نے غلطی کی ہے اور ہم نے یہ کرپشن کے پیسے تھے اور ہم جمع کروا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ معاملہ اس وجہ سے پچھلے کافی دنوں سے اٹکا ہوا ہے اور عمران خان کا دوبارہ اصرار کہ باتت نہیں مانی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بات صحیح ہے۔ میں اس سلسلے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن آثار یہی ہیں چیزیں جس طر جاتی دکھائی دے رہی ہیں بالآخر وہ جا کر رہیں گی۔ میں نہیں سمجھتا معاملہ ڈیل کی طرف جائے ڈیل پاکستان کے عوام کی جو کمٹمنٹ ہے عدلیہ کی، احتساب کی کمٹمنٹ ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے اگر پیسے دینے ہیں تو پیسے دیں اور رسید کٹوائیں اور فارغ ہوں۔ پلی بار گیننگ کا مقصد یہ ہوتاہے کہ میں محمد رشید ولد عبدالرحمن یہ تسلیم کر لیا کہ میں نے قوم کا اتنا پیسہ کھایا غیر قانونی طور پر پیسہ کمایا میں سارے پیسے بمعہ ہرجانہ جو ہے جمع کروا رہا ہوں۔ضیا شاہد نے احسن اقبال سے سوال کیا ہے کہ کچھ دنوں سے آپ کے کیسز کی باتت شروع ہوئی جہاں تتک مجھے یاد پڑتا ہے میں خود سابق صدر ممنون صاحب سے ملنے گیا تھا نارووال تو وہ آپ کے سپورٹس کمپلیکس سے ہی واپس آئے تھے اور بہت تعریف کر رہے تھے کہ ایک بہت زبردست وینچر ہوا لیکن دو دن بعد ہی یہ خبریں آ گئی کہ حالانکہ اس وقت صدر اپنی سیٹ پر تھے کہ وہاں ہو گئی ہے تو یہ تو بڑی عجیب سی بات لگتی ہے آپ تو بڑے سیانے اور سمجھدار آدمی ہیں آپ کے حلقے میں ایسا کام جس کا سارا کریڈٹ بھی آپ کو ہی جا رہا تھا اس ہی کیوں اس قسم کی شکایات پیدا ہوئیں۔ سرے سے اس منصوبے کو ختم کرنا پڑا ہے۔ مسلم لیگ ن کی بات صحیح ہے کہ وزیراعظم عمران خان نام بتائیں کہ کس سے این آر او مانگا گیا ہے ضیا شاہد نے کہا کہ پی ی آئی کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ بتائیں کہ کس نے کہا تھا۔لائن آف کنٹرول پر چھمب سیکٹر میں دھماکہ کیا گیا ضیا شاہد نے کہا یہ تو ایک صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف جو قوتیں سرگرم عمل رہی ہیں اس میں انڈیا کی سیکرٹ سروس کے علاوہ خاد یعنی افغانستان کی سیکرٹ سروس بھی ملوث ہے۔ انڈیا الیکشن سے پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹ نہیں چاہئیں عملی صورت حال بھی یہی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو اور بعض اقلیتوں کو آنے ہی نہیں دیا اور اسمبلیوں تک پہنچتے ہی نہیں۔ انڈیا کے اگلے 5 سال کیسے ہوں گے کشمیر میں تو الیکشن کے نام پر وہ ڈرامہ بھی نہ کر سکے۔ سوال ہے کیا بھارت کو اب بھی دنیا کی سب سے جمہوریت کہا جا سکتا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ملکوں کے درمیان جو ڈپلومیسی ہے یہ بھی ایک دن کی بات نہیں ہوتی نہ ہی کوئی اس کا فوری نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ ایمنسٹی سکیم کے تحت آج نہیں تو کل پکڑے جانا ہے اس لئے کہ اس ملک میں ایک فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے ایک تو یہ ہے کہ بدعنوانوں بددیانتوں اور کرپٹ لوگوں کے ساتھ چمٹے رہیں اور اپنے ملک کا بقیہ ستیا ناس کر دیں دوسرا یہ کہ بہت مشکلات ہیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں اس کے باوجود کوشش کریں کہ ایک ملکی جدوجہد کر کے ہم اس راستے کوو روکیں جس راستے پر آج تک ہماری قوم کے اکثر لوگ چل رہے تھے میں یہ سمجھتا ہوں جب پاکستان کے لوگوں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ ایک اچھا ملک بنانا چاہئے اور ایک منصفانہ معاشرہ بنانا چاہتے ہیں لہٰذا یقینا مشکلات رفتہ رفتہ دور ہوتی چلی جائیں گی۔ اس کے لئے فضا ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ چودھری تنویر کی 6 ہزار بے نامی جائیداد ضبط کی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اصولی طور پر حکومت ایک بات کہتی ہے اپوزیشن دوسری بات کہتی ہے ضروری یہ ہے کہ اب ایسے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنیں جو یہ جائزہ لے سکیں کہ اس سکیم کا کیا فائدہ ہوا ہے اعداد و شمار سامنے آنے چاہئیں۔ بلکہ ایف بی آر تو دینے چاہئیں کہ یہ ہم نے کیا ہے یہ کامیابی ہوئی ہے۔ کاموں میں کامیابی بھی ہوتی ہے ناکامی بھی ہو جاتی ہے لیکن سامنے آنا چاہئے، ہر چیز کو انگوٹھے کے نیچے چھپا دینا غلط ہو گا۔ اس سوال کے جواب میں ہر کارروائی میں ہر کرپشن میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے لوگ ہی سامنے کیوں آ رہے ہیں اس بارے میں بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بہت سارے معاملات میں ابھی تک شفافیت نہیں ہے اور جب تک شفافیت نہیں ہو گی کسی مسئلے پر۔ لین دین میں نہیں ہو گی احتساب میں نہیں ہو گی پکڑ دھکڑ میں نہیں ہو گی کیا وجہ ہے ایک ہی قسم کا ملزم بیٹھا ہوا ہے دوسرے قسم کا ملزم دیوار کے پیچھے چھپا ہوا ہے جرم ان کا ایک ہی ہے بعض اوقات تو عالم یہ ہے دو بھائی ہیں تو ایک بھائی اندر بیٹھا ہے دوسرا باہر عیش کر رہا ہے حالانکہ ان کا بیگ ایک ہے میں سمجھتا ہوں کہ آہستہ آہستہ یہ خامیاں دور کر لی جائیں گی تو کافی فرق پڑے گا۔ کیا یہ دعویٰ کہ مشکل وقت ختم ہو چکا ہے اب ہم پٹڑی پر چڑھ چکے ہیں ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی۔ملک کی معاشی صورتحال ابھی اتنی بہتر نہیں ہے۔ ہمیں مزید سخت معاشی حالات کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ رانا ثنائ کا منشیات کیس میں پکڑے جانا افسوسناک ہے اے این ایف کا دعویٰ ہے کہ ٹھوس ثبوت موجود ہیں اس لئے جسمانی ریمانڈ کی بھی ضرورت نہیں ہے اگر صورتحال واقعی ایسی ہے کہ ن لیگ کے لئے بہت مشکل حالات سامنے آئیں گے۔ اس کیس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئے تاہم ملزم کو صفائی ک پورا موقع ملنا چاہئے۔ رانا ثنا کی طبی مسائل میں تو انہیں اس حوالے سے سہولتیں دینی چاہئیں۔ سانحہ ماڈل ٹا?ن جس روز بپا ہوا میں بھی وہاں گیا اور نہتے شہریوں پر ہونے والے ظلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس وقت ہی میرے دل سے آواز آئی کہ اس ظلم کا حساب دینا ہو گا۔ راجہ پرویز نے صحت جرم سے انکار کیا ہے ابھی تو اس کیس میں اور بہت سے نام سامنے آئیں گے۔ ہم سب کو عدالتی نظام پر مکمل اعتماد ہونا چاہئے ایئرپورٹ پر دو افراد کا قتل افسوسناک ہے اس پر بڑے سوالات اٹھتے ہیں کہ قاتل دو سال سے پلاننگ کر رہا تھا سکیورٹی ادارے کہاں تھے۔
