تازہ تر ین

بھتہ نہ دینے پر نوجوان پر برہنہ کر کے تشدد ، افسوس امیروں کے بچے بھی پیسے کی ہوس میں مبتلا : ضیا شاہد ، تشدد کرنےوالوں کی عمریں 20 ، 22 سال، بھتہ مانگنا تشویشناک:کنیز فاطمہ کی چینل ۵ کے پروگرام ” ہیومن رائٹس “ میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) فیصل آباد میں تھانہ منصور آباد کے علاقے میں بیس سالہ ملزم ثاقب بلال اور نامعلوم ساتھی اپنے محلے دار سولہ احتشام کو بھتہ نہ دینے پر کرکٹ کھیلنے کے بہانے گھر سے بلا کر قریبی سکول لے گئے جہاں احتشام کو برہنہ کر کے بلوں اور راڈوں سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا مونچھیں اور بھنویں مونڈھنے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ چینل فائیو کے پرگرام ہیومین رائٹس واچ کے مطابق متاثرہ لڑکے کے والد طاہر کی مد عیت میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج تو درج ہوا لیکن بااثر سکول مالک کے بچوں کے خلاف پولیس کارروائی سے گریزاں ہے اور صلح کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔دوسرا واقعہ ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی کا ہے بااثر پٹواری حنیف اور اس کی بیوی نے گھریلو ملازمہ اقصی کو تشدد کا نشانہ بناڈالا بچی کا والد فوت ہو گیا ہے بچی نے بتایا تین ماہ سے گھر میں قید کیا ہوا ہے ماں سے بھی ملنے نہیں دیا جاتا ہے۔موقع ملنے پر بچی گھر سے فرار ہو گئی۔ بچی کی ماں نے بتایا کہ پہلے میں بھی پٹواری کے گھر کام کرتی تھی میری بچی پر پٹواری کی بیوی نے زیورات چوری کا الزام بھی لگایا۔خبریں میں خبر لگنے پر متعلقہ تھانے نے پٹواری حنیف اور اس کی بیوی کے خلاف بچی کے بھائی عمر کی مدعیت میںایف آئی آر تو درج کی لیکن کارروائی نہ کی عمر نے بتایا ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔بچی نے چینل فائیو کو بتایا مجھ پر بڑا ظلم کیا گیا حکومت انصاف دے۔چیئرپرسن برائے وومن پروٹیکشن اتھارٹی پنچاب کنیز فاطمہ نے کہا ہے کہ ضیاشاہد خود بہت بڑا انسٹیٹیوٹ ہیں ان جیسے لیجنڈ کی موجودگی میں یہی کہوں گی کوئی ایسا پلان کریں کہ ہم ایسے واقعات کے خلاف پنجاب کی سطح پر مہم شروع کریں۔ ملزمان کی عمریں بیس سال ہیں اتنی کم عمری میں بھتہ مانگنا معاشرے کے لئے تشویش ناک ہے کتنا کریمنل مائنڈ ہے۔اگر کوئی پیسہ نہیں دے رہا تو کیا اس پر تشدد کیا جائے گا متاثرہ بچے کی شخصیت اس واقعے سے بہت متاثر ہوئی ہو گی اس کے والدین بھی اتنے مضبوط نہیں۔ریاست کو چاہئے متاثرہ فیملی کو سپورٹ کرے یہ معاملہ رفع دفع نہیں ہونا چاہئے تاکہ باقی لوگوں کو عبرت ہو۔لڑکے پر بے پناہ تشدد کیا گیا سول سوسائٹی کو بھی کردار ادا کرنا پڑے گا۔بطور پاکستان سب کردار ادا کریں وگرنہ ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ساہیوال واقعے پر انہوں نے کہا جو بچے گھروں میں کام کرتے ہیں بے چارے بڑے مجبور ہوتے ہیں کام لینے والوں کو خوف خدا ہونا چاہئے آخر گھروں میں کام کرنے والے بھی انسانوں کے بچے ہیں۔ہم موجودہ واقعے کے خلاف آواز اٹھائیں گے اقصی کو انصاف دلائیں گے۔چودہ پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کو گھروں میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔اگر چوری ہوئی ہے تو مارنے کا لائسنس کسی کے پاس نہیں قانونی کارروائی کی جائے۔لوگوں کو شعور دیا جائے ادارے موجود ہیں وہاں شکایت کریں۔سینئر صحافی ضیاشاہد نے کہا کہ ایسے واقعات کے خلاف مہم چلانے کے لئے میں حاضر ہوں۔موجودہ کیس میں لڑکے مالی مجبوری کے باعث بھتہ نہیں لے رہے کیونکہ ملزمان کے باپ کا بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔مالدار گھرانوں کے بچے بھی پیسوں کی ہوس میں مبتلا ہیں اور لوٹ مارشروع کی گئی ہے ایسے لڑکے سٹریٹ گینگز کی طرح چلتے ہیں۔زیادہ افسوسناک امر یہ ہے صلح صفائی کی کوشش ہو رہی ہے اگر صلح صفائی ہو گئی تو کیا کل کو یہی لڑکے دوبارہ یہی حرکت نہیں کریں گے۔ایسے ملزمان کو معاف نہیں کرنا چاہئے ورنہ ان کا حوصلہ بڑھ جائے گا بااثر ملزم کبھی باز نہیں آئے گا۔گھریلوملازمہ اقصی کو جس طرح لوہے کے راڈ سے چھلنی کیا گیا آخر اب تک پولیس نے پٹواری کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی الٹا پولیس ازخود ملزم کو کہہ دیتی ہے آپ کے خلاف کیس ہے آپ جا کر ضمانت کرا لیں پولیس پیسے بھی لے لیتی ہے۔ایسے واقعات پر ملزمان کو ضمانت کا راستہ دکھانے کے بجائے قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔بچی کو جسمانی تشدد بنانے کا کیا جواز ہے اس کی کوئی تو سزا ہونی چاہئے لیکن پٹواری ضمانت لے کر گھوم رہا ہے وہ اور اسی کی بیوی بچی کے گھر جا کر دھمکیاں دے رہے ہیں۔معصوم بچی پر تو الزام ہی چوری کا لگا یا جاتا ہے ایسا ہوا تھا تو پٹواری کی بیوی کو تشدد کا حق کس نے دیا۔آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ایسے معاملات پر صلح صفائی بھی جرم ہے۔ظالم اور مظلوم کو ایک ترازو میں نہیں تولا جا سکتا انصاف کے بغیر صلح ہونے سے ظالم باز نہیں آئے گا پھر یہی حرکت کرے گا۔ہمارے ہاں عدالتی نظام ایسا ہے پیسے لگائیں تو سو راستے نکل آتے ہیں۔جب تک سزا نہیں ملے گی ظلم نہیں رکے گا۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain