تازہ تر ین

انصاف ہوتا نظر نہ آیا تو کمیشن۔۔۔

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی) پاکستان کی عدالتِ عظمی نے پانامہ لیکس کے مقدمے میں وزیرِ اعظم سے تین سوالات پر وضاحت طلب کرتے ہوئے سماعت سات دسمبر تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔یہ تین سوالات پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے درخواستوں کی سماعت کے دوران پیش کیے جانے والے دلائل میں اٹھائے تھے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں عدالت عظمی کے پانچ رکنی بنچ نے منگل کو جب اس معاملے کی سماعت کی تو بنچ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف پر تین الزامات ہیں۔ پہلا یہ وہ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر لندن میں خریدے گئے فلیٹس سے فائدہ حاصل کرتے رہے۔ دوسرا الزام یہ کہ وزیرِ اعظم کے بچوں نے لندن میں جو فلیٹس خریدے ا±س کے پیچھے دراصل نواز شریف تھے اور تیسرا الزام ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریروں کے دوران سچ سے کام نہیں لیا گیا لہٰذا وہ آئین کی آرٹیکل 62/63 کی زد میں آسکتے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں وضاحت ضروری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے کی سماعت کے دوران واضح کیا ہے کہ اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ کمیشن کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہونگے تو کمیشن ضرور بنائینگے ¾ تمام آپشن کھلے رکھے ہیں۔ نیب ¾ایف بی آر اور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا ¾ اداروں نے کوئی کام نہیں کرنا تو بند کر دیں۔ عدالت میں پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل مکمل کر لئے گئے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے بچوں نے پاناما کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کر نے کی درخواست دائر کر دی۔ منگل کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے پانامالیکس کی تحقیقات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی ۔سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ نے کہا کہ 556 آف شور کمپنیاں ہیں ،صرف وزیر اعظم کا حساب نہیں ہونا ¾معاملہ انکوئری کمیشن کے سپرد کیا جائے جس پر چیف جسٹس نے جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا ہے کہ کمیشن تشکیل دیا جائے ہم نے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں۔ اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ کمیشن کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوں گے تو ضرور کمیشن بنائیں گے ¾نیب ¾ایف بی آر اور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا ¾ جب ہم نے دیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا۔ ادارے قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں ¾ اگر انہیں کوئی کام نہیں کرنا تو ان کو بند کر دیں۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں مو¿قف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں سعودیہ مل کی فروخت کی تاریخ نہیں دی گئی ¾ لندن فلیٹس سعودی مل بیچ کر خریدے یا دبئی مل بیچ کر،بیان میں واضح تضاد ہے۔ نوازشریف نے کہا ہے کہ لندن فلیٹ جدہ اور دبئی ملوں کی فروخت سے لئے ¾33 ملین درہم میں دبئی اسٹیل مل فروخت ہوئی اور یہ قیمت وزیر اعظم نے بتائی۔ حسین نوازنے کہا ہے کہ لندن فلیٹ قطرمیں سرمایہ کاری کے بدلے حاصل ہوئے ¾وزیر اعظم نے مسلسل ٹیکس چوری کی ہے، 2014 اور 2015 میں حسین نواز نے اپنے ابوجی کو 74 کروڑ کے تحفے دیئے ¾ان تحفوں پر وزیر اعظم نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیرکفالت ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ویلتھ ٹیکس 2011 میں مریم نواز کے اپنے والد کے زیر کفالت ہونے کے ثبوت بتائیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اس کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں مریم صفدر کو 3 کروڑ 17 لاکھ اور حسین نواز کو 2 کروڑ کے تحفے والد نے دیئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز چودھری شوگر مل کی شیئر ہولڈر ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہو سکتا ہے کہ مریم نواز کی آمدن کا ذریعہ چودھری شوگر مل ہو۔ نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز نے جاتی امرا میں اپنے والد کے ساتھ رہنے کا اعتراف کیا ¾مریم نواز کے مطابق وہ کسی پراپرٹی کی مالک نہیں ¾انہوں نے کوئی یوٹیلیٹی بل جمع نہیں کرائے ¾ 2011 سے 2012 کے دوران مریم نواز کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ¾مریم نواز نے والد سے 3 سال میں مجموعی طور پر 8 کروڑ روپے وصول کیے ¾انہوں نے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ روپے کا قرض لیا ¾مریم نواز کے شیئرز اور زرعی اراضی بھی ہے ¾کمپنیوں کے ٹرسٹ ڈیڈکی کوئی حیثیت نہیں، قانون کے مطابق مریم نواز ان کی مالک ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بی ایم ڈبلیو گاڑی تو پہلے سے استعمال شدہ تھی ¾گاڑی کی مالیت میں ایک کروڑ 96 لاکھ کا اضافہ کیسے ہوگیا؟جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بل جمع کرانا گھر کے مردوں کا کام ہوتا ہے ¾کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مریم والد کے زیر کفالت ہیں ¾زیر کفالت ہونے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے ¾ ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ملک کے قانون میں زیر کفالت کی کیا تعریف کی گئی ہے ¾ ہم بھی تلاش کر رہے ہیں آپ بھی تلاش کریں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ جناب میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بخاری صاحب آپ عمر بتا دیں پھر کچھ نہیں کہوں گا ¾نعیم بخاری نے کہا کہ میری عمر 68 سال سے زیادہ ہے ¾عدالت میرے ساتھ مذاق نہ کرے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پھر آپ تسبیح پکڑیں، گھر چلے جائیں اور اللہ اللہ کریں۔اپنے دلائل میں نعیم بخاری نے کہا کہ نومبر1999 میں حسن نوازنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فلیٹس میں کرائے پر رہتا ہوں، فلیٹس کا کرایہ پاکستان سے آتا ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کرایہ پاکستان سے ضرور آتا ہے لیکن وہ بزنس سے آتا ہے یہ بات ہم نے نوٹ کی ہے ¾قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ لندن کی جائیداد ان کی تھی سوال ہے کہ کیا حسن نواز کا بیان قطری شہزادے کے خط سے مطابقت رکھتا ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ کرایہ کاروبار سے ادا کرنے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں 1999 میں حسن نواز طالب علم تھا تو 2 سال بعد فلیگ شپ کمپنی کی رقم کہاں سے آئی ¾کرایہ دادا ابو کے شروع کردہ کاروبار سے آتا ہے یہ حسن نواز مان چکے ہیں،حسین نواز نے کہا کہ حسن نواز کو کاروبار کے پیسے اس نے دیئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا میاں شریف خود کاروبار سنبھالتے تھے، ہوسکتا ہے کہ میاں شریف بچوں اور پوتوں کی دیکھ بھال کرتے ہوں جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ تمام بیانات کوملا کر پڑھیں کہ پیسہ دبئی سے قطر پھر سعودی عرب اور پھر لندن گیا جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوومبر کمپنی کے نام سے بھی ایک آف شور کمپنی ہے ¾اس کو جو کمپنی فنڈ فراہم کرتی ہے وہ دبئی میں ہے، کوومبر کو یہ رقم دبئی میں کہاں سے آتی ہے وہ سوال وکیل دفاع سے پوچھیں گے۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف کے گوشواروں کے مطابق مریم نواز2011میں ان کے زیرکفالت تھیں ¾پہلے نواز شریف نے مریم کو 3 پھر 5کروڑ تحفے میں دیئے، پاناما لیکس کی دستاویز ڈاو¿ن لوڈ کی گئی ہیں، جنوری 1999 میں فلیٹس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں میاں شریف،شہبازشریف، حمزہ شہباز، شمیم اختر، صبیحہ اختر اور مریم نواز شامل تھے، 1999 میں لندن کی ایک عدالت نے فیصلہ بھی جاری کیا تھا ¾وزیراعظم کے بیانات میں تضادہے اس وجہ سے وہ صادق اورامین نہیں رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آپ سے بہت سے سوال کرنے ہیں بخاری صاحب، آپ جس دور کی بات کر رہے ہیں اس وقت وفاق مشرف کو ظاہر کرتا تھا کیا مفادعامہ کے تحت درخواست میں صادق اورامین کامعاملہ سن سکتے ہیں۔ اس حوالے سے قانون کے مطابق فورم موجود ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو پہلے سزا ہوئی پھر وہ نااہل ہوئے۔نعیم بخاری کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل شروع کئے اور کہاکہ ان کا کیس شارٹ، سوئٹ اور اسمارٹ ہے ¾ہم پاناما لیکس پر ٹی اوآر کمیٹی، الیکشن کمیشن اور دیگر فورم پر بھی گئے لیکن فائدہ نہیں ہوا ¾ قائمہ کمیٹی میں ایف بی آر نے اراکین پارلیمنٹ کی توہین کی، دودھ کی رکھوالی پر بلوں کو نہیں بٹھا سکتے ¾عام آدمی ہوں میرا وکیل میرا رب ہے ¾ میرا ایمان ہے کہ عدالت کو کیس کا علم ہے اور اللہ تعالی نے آپ سے فیصلہ لینا ہے ¾میں جدہ اور دبئی کی جائیداد کی تفصیلات میں نہیں جاو¿ں گا۔ نوازشریف کے کاغذات نامزدگی پر ماہر قانون دان موجود ہیں ¾یہ کہنا درست نہیں کہ کاغذات نامزدگی میں زیر کفالت ہونے کاخانہ نہیں تھا ¾زیر کفالت میں 2افراد کا نام درج ہے ¾ ایک زیر کفالت اہلیہ اور دوسری بیٹی ہیں۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہاکہ علم نہیں کہ 12ملین درہم کتنے برکت والے ہیں جو 1989سے لے کر آج تک ختم نہیں ہو رہے ¾ انہیں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ آف شور کمپنیاں نواز شریف کی ہیں، مریم نواززیرکفالت ہیں توآف شورکمپنیاں ظاہرکر دینا چاہئے تھیں نیلس اورنیسکول کوگوشواروں میں ظاہر کرنا چاہئے تھا ¾ میں کوومبر کمپنی کی ٹرسٹ ڈیڈ میں شریف خاندان کی پھرتیاں دکھانا چاہتا ہوں کہ جس دن مریم نواز کے دستخط ہوئے اس دن اس کی تصدیق بھی ہوگئی،دونوں تاریخوں پر دستخط ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے، مریم نواز نے 2 تاریخ کو دستخط کئے لیکن نوٹری پبلک سے ٹرسٹ ڈیڈزکی تصدیق نہیں ہوئی۔ درحقیقت دونوں ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہیں ان پر وزارت خارجہ کی تصدیقی مہر نہیں، 4 تاریخ تک جدہ سے لندن تک یہ ڈیڈ قطری جہاز کے علاوہ نہیں پہنچ سکتی۔ شیخ رشید کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انکم ٹیکس کا خانہ بھرا نہیں گیا تھا تو اس کا جائزہ لینا کس کا کام ہے ¾ ٹیکس گوشوارے غلط بھرے گئے تو اس کا فیصلہ مفادعامہ کے تحت کیا سپریم کورٹ کرے گی یا پھر فیصلے متعلقہ فورم پر اپیل کی جانی چاہئے¾ کیا انصاف کی خاطر قانون کو روندتے چلے جائیں جس پر شیخ رشید نے کہا کہ تاریخ میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں لیکن جمہوریت کو مضبوط کرنے کا آخری موقع ہے۔ وقفے کے بعد جب کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔ انہوںنے کہاکہ 1992 میں مریم نواز کی شادی کے بعد وہ وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں۔ سلمان اسلم بٹ نے کہاکہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت صرف بیگم کلثوم نواز زیر کفالت تھیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پیسہ کہاں سے آیا یہ آپ نے ثابت کرنا ہے سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مریم نواز کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے کوئی اور کالم موجود نہیں تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی مخصوص کالم نہیں تھا تو نام لکھنے کی کیا ضرورت تھی ¾اگر نام لکھنا ضروری تھا تو کسی اور کالم میں لکھ دیتے۔ عدالت نے تین سوالات اٹھائے وزیر اعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں ؟زیر کفالت کے معاملہ کی وضاحت کی جائے اور وزیر اعظم کی تقریروں میں سچ بتایاگیا ہے یا نہیں ؟بعد ازاں پوچھے گئے تینوں سوالوں کا جواب مانگتے ہوئے کیس کی سماعت (آج) بدھ تک کےلئے ملتوی کر دی، سماعت شروع ہونے پر سلمان اسلم بٹ اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسین، حسن اور مریم نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی گئی ہے جس میں مو¿قف اختیار کیا گیا ہے کہ پاناما کیس انتہائی اہم نوعیت کا معاملہ ہے ¾اس کی وجہ سے ریاست کے مختلف اداروں کا کام متاثر ہو رہاہے ¾تاثر دیا جارہا ہے کہ وزیر اعظم اوران کے اہل خانہ کی جانب سے تاریخیں لی جارہی ہیں ¾حقیقت میں تاریخیں درخواست گزاروں کی جانب سے مانگی جارہی ہیں ¾اس لیے پاناما کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کی جائے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain