قسط نمبر 39
شاہ پور جی نے مجھ سے ”گنگاجمنا“ کی کہانی سنی اور اسے زبردست قرار دیا…. انہیں اس کہانی کے جاندار ہونے میں کوئی شک نہ تھا لیکن میرے بھائی ناصر نے محسوس کیا کہ میرے لئے یہ ایک بہتر آئیڈیا نہ تھا کہ میں قانون کی حمایت سے مجرم ایک شخص کا کردار ادا کروں اس کا اصرار تھا کہ عوام مجھے ڈاکوﺅں کے ساتھ شامل ہونے کے حوالے سے پسند نہیں کرے گی اور ان کی قانون شکنی میں پناہ لیتے ہوئے پسند نہیں کرے گی اور ظالم زمیندار کے پاس واپس جاتے ہوئے جو اپنی ہی بہن کے زیورات چوری کرتا ہے اور چوری کا جرم گنگا کی غریب اور ایماندار ماں پر عائد کرتا ہے (میں گنگا کا کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا اور ناصر جمنا کا کردار ادا کررہا تھا…. پولیس کا ایک سپاہی)…. ناصر موضوع پر مضبوط نکتہ ہائے نظر کا حامل تھا اور اس نے مجھے اس بابت غور کرنے اور سوچ بچار کرنے کا مشورہ دیا….
میں نے اس کے بارے میں سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے اپنا کام جاری رکھنا چاہئے کیونکہ شاہ پور جی فلم کی کامیابی کے حوالے سے پر اعتماد تھے….
میں نے اسکرپٹ میں اس بھائی کے درمیان بنیادی اختلاف پر جس قدر زیادہ کام کیا جس نے ملک کے قانون کی بالادستی قائم رکھنی تھی اور وہ بھائی جو قانون سے راہ فرار اختیار کرتا ہے…. جو امیر اور طاقتور کی حمایت کرتا ہے اور غیرمنصفانہ انداز سے غریبوں اور بے سہارا لوگوں پر الزام لگاتا ہے…. میں اسی قدر زیادہ محسوس کرتا تھا کہ میرے لئے وہ وقت آن پہنچا تھا کہ ایک ایسی فلم بناﺅں جو دیہی انڈیا کے لوگوں کے کچھ نازک مسائل کو اجاگر کرے جنہوں نے غیرملکی تسلط سے آزادی کے بعد بہت کم حصہ پایا تھا….
میں نے شاہ پور جی کو بتایا کہ میرا ارادہ تھا کہ میں شمالی انڈیا کے اندرونی حصوں کا دورہ کرنا چاہتا تھا…. بالخصوص پہلے اترپردیش اور مدھیاپردیش میں اور تب میں تمام تر اندرون مہاراشٹر کا سفر طے کرنا چاہتا تھا۔
میں اس ہوا میں سانس لینا چاہتا تھا جس میں کردار گنگا اور جمنا پروان چڑھے تھے اور ان لوگوں کے دکھ درد اور تکالیف سے آشنا ہونا چاہتا تھا جو دھرتی کا سینہ چیر کر اناج اگاتے تھے اور ان کی محنت کا معاوضہ بے رحم زمینداروں کی جیبوں میں چلا جاتا تھا۔
حال ہی میں…. جب ہم اتفاقیہ گپ شپ میں مصروف تھے…. امیتابھ بچن نے میرے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ الٰہ آباد میں بطور ایک طالب علم اس نے ”گنگاجمنا“ بار بار دیکھی تھی یہ سمجھنے کے لیے کہ ایک پٹھان کیسے اس قدر آسانی کے ساتھ یوپی کے ایک گنوار دیہاتی کا کردار ادا کر رہا تھا اور اس قدر آسانی اور سہولت کے ساتھ بولی بول رہا تھا۔
جب میں ”گنگاجمنا“ کہانی اور اسکرین پلے تحریر کر رہا تھا…. میرا بھائی…. ناصر جس کی فلمی دنیا میں واپسی کے لئے یہ فلم بنائی جا رہی تھی…. اس نے مجھے بتایا کہ میں ایک غلطی کر رہا تھا…. جیسا کہ پہلے تذکرہ کیا جا چکا ہے…. وہ محسوس کرتا تھا کہ لوگ مجھے ایک ڈاکو، لٹیرے اور قانون شکن کے طور پر دیکھنا پسند نہیں کریں گے…. میں نے اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا اور میں نے کوئی بھی ایسی تبدیلی کرنے کا فیصلہ نہ کیا جس کا مشورہ مجھے میرے دوستوں اور بہی خواہوں نے دیا تھا اور میں نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا…. صاف ظاہر ہے فلم نے شاندار ردعمل کا مظاہرہ کیا اور میں نے بے حد تعریف سمیٹی۔
درست عکاسی کی بھی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے….
جب ”گنگاجمنا“ چیکو سلواکیا…. بوسٹن اور قاہرہ میں نمائش کیلئے پیش کی گئی…. مجھے فلمی نقادوں نے گھیر لیا…. جنہوں نے فلم کو سراہا اور میری اداکاری ان کے تجسس کو ابھار رہی ہے…. وہ یہ جاننے کے حوالے سے تجسس کا شکار تھے کہ اس فلم کے حوالے سے کس قدر تحقیق کی گئی کیونکہ ”گنگا جمنا“ جیسی فلم ان کے ممالک میں بے تحاشا مطالعہ اور غوروخوض کے بعد بنائی جاتی…. میں نے انہیں بتایا کہ میں نے سکرپٹ…. کرداروں…. بھوج پری بولی اور کہانی کے منطقی انجام وغیرہ پر کس قدر کام کیا تھا…. اس فلم کی ایک اور خوبی اس کی موسیقی تھی جو نوشاد میاں نے دی تھی جن کی اس فلم کی فلمی دھنیں آج بھی مقبول عام ہیں….
”گنگاجمنا“ کی کامیابی نے لکھاریوں کو بے حد متاثر کیا اور وہ ان خطوط پر سوچنے لگے کہ ہیرو کو منفی کردار بھی دینا چاہئے…. میں نے پہلے بھی ”ہیرو مخالف“ کردار ادا کئے تھے…. مثال کے طور پر…. میں محبوب خان کی فلم ”امر“ (1954ئ) میں جو کردار ادا کر چکا تھا وہ ایک شرمناک حرکت کا مرتکب ہونے کا کردار تھا اور ایک روایتی ہیرو کا کردار ہرگز نہ تھا…. ضیا سرحدی کی فلم ”فٹ پاتھ“ میں میں نے جو کردار ادا کیا تھا وہ ایک بلیک مارکیٹنگ کرنے والے کا کردار تھا…. تاہم وہ فلمیں اس قدر کامیاب نہ تھیں جس قدر ”گنگاجمنا“ تھی۔
(جاری ہے)