شفقت حسین
اگر میں یہ کہوں کہ دنیا کے نقشے پر قائم57سے زائد مسلمان ممالک کے سربراہان نے روشِ ادراک پر چلنے کی استعداد کاکبھی مظاہرہ ہی نہیں کیا‘ اگر میں یہ کہوں کہ امت مسلمہ کے اکابرین میں (اس میں پاکستانی قیادت بھی شامل ہے) کبھی صحنِ حقیقت میں جھانکنے کاجذبہ اورداعیہ بھی شائد ہی دیکھنے میں آیا ہوتو کیایہ ایک مبرہن اورکھلی‘ واضح اور دوٹوک حقیقت نہیں اور کیا یہ ایک جوہری طورپر کڑوا سچ نہیں۔ یقینا میں نے دکھی دل کے ساتھ ہی یہ لکھا ہے ورنہ امریکہ اور اس کے حواری ممالک جس قدر چاہیں دنیا پر مسلمانوں کو اقلیت ظاہر کریں لیکن یہ ایک سفید جھوٹ تو ہو سکتاہے۔ سچ میں اس کی رمق بھی موجود نہیں بالکل اسی طرح جیسے ہمارے اکابرین میں امہ کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے اوراسے دنیا کا امام بنانے کے حوالے سے رتی برابر بھی رمق موجود نہیں۔ اس وقت دنیا کی آبادی اگر سات ساڑھے سات ارب نہ بھی ہوتو بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق امت مسلمہ تعداد میں ڈیڑھ سے پونے دو ارب ہے۔صرف40/45کروڑ مسلمان تو بھارت میں بستے ہیں جبکہ پاکستان کی20/22کروڑ کی آبادی میں کم از کم اٹھارہ سے بیس کروڑ عددی اعتبا ر سے مسلمان ہیں۔آدھا ارب آبادی تو یہ ہوگئی۔ سعودی عرب‘ ملائیشیا‘ بھارت‘ افغانستان اور دیگر مسلمان ممالک کے عوام کیامل ملا کر میرے اوپر بیان کردہ محتاط اندازے کو سچا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں۔
اسلام دشمن عناصر تو کبھی بھی ہمیں اکثریت میں ظاہر نہیں کریں گے لیکن اس حوالے سے ہم نے بھی شاذونادر ہی اس جانب توجہ دی ہو لیکن ایک بات جوہم بڑے طمطراق کے ساتھ کہنے کے عادی ہمیشہ سے رہے ہیں بلکہ یہ گردان سُن سُن کر ہمارے کان پک نہیں گئے بلکہ زخمی ہو چکے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر اس نے پوری امہ کہ تگنی کا ناچ نچایا ہے سچی بات ہے کہ ہمارے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔ اگر میں صرف اپنے وطن عزیز کی بات کروں تو ماشاء اللہ‘یہ ایک جوہری طاقت ہے۔ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے یہ دنیا کا خوبصورت ملک ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز خطہ ارضی ہے۔ اس کی نوجوان کیا‘ جوان کیابلکہ بوڑھی سمجھی جانے والی نسل میں بھی خدائے لم پزل نے پوٹینشل کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ یہ ایک ایگروبیسڈ کنٹری ہونے کے اعتبار سے بھی خوشگوار حیرت کاباعث ملک ہے لیکن بدقسمتی کہیے کہ قائد کے بعد ہمارے حصے میں بصیرت افروز سیاسی قیادت کی بجائے تلچھٹ آئی جس نے نہ دوستوں کی پہچان میں تدبر اختیار کیااور نہ ہی دشمنوں کو پہنچانتے وقت کسی محدب عدسے کا استعمال کیا۔ قریب قریب یہی حالت اور کیفیت امہ کے دیگر مسلمان ممالک کی ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ مسلمان عوام کی محبوب ترین‘ مکرم ومحترم ہستی آنحضرت محمدؐ(نعوذ باللہ من ذالک)کی اہانت کا مسئلہ ہو‘ افغانستان عراق‘ ایران‘ لیبیا‘شام‘پاکستان حتیٰ کہ سعودی عرب ہی کیوں نہ ہو ہم ماسوائے مذمتی قراردادوں کے کبھی آگے نہیں بڑھے۔ اس کے باوجود بھی بنیاد پرست اور دہشت گرد ہونے کا سرٹیفکیٹ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا جاتاہے۔ نہ کسی او آئی سی کے کان پر جوں رینگتی ہے اور نہ ہی پانچ چھ سال قبل چار درجن سے زائد ممالک پر مشتمل پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں تشکیل پانے والی اسلامی فوج نے کسی جارحیت پسند ملک کو شٹ اپ کال دی ہے کہ Enough is Enoughاب گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ نیز امت مسلمہ کو ہر حوالے سے رگیدنے اور دیوار کے ساتھ لگانے کا سلسلہ فی الفور بند کیاجائے لیکن جس نے ہمیں تگنی کا ناچ نچایاہے اس کی پشت پر توہروقت امریکی طاقت کھڑی نظر آتی ہے جبکہ مسلمان ممالک اپنے اپنے داخلی انتشار اور اختیار کردہ برخودغلط پالیسیوں کی وجہ سے بڑی سمجھی جانے والی طاقتوں کے شر کاشکار بھی ہوتے ہیں۔ تشدد اور دباؤ کابھی سامنا کرتے ہیں اور ٹیررسٹ بھی دنیا کی نظروں میں انہیں ہی بننا پڑتاہے۔ بلکہ یہاں تک کہ اغیار تو ہماری پیش کردہ قربانیوں کوبھی خندہئ استہزا سے لیتے ہیں۔ کیا دنیا کو معلوم نہیں کہ ہم79ء میں افغانستان پر روسی یلغار کے وقت امریکہ بہادر کو اپنا کندھا اور تعاون پیش نہ کرتے تو روس کی طاقت کو منتشر کرنا اور اسے توڑنا امریکہ کے لئے آسان نہ ہوتا۔ زیادہ دور نہ جائیں کارگل کے واقعے کے وقت ہمارے وقت کے وزیراعظم کرکٹ کھیلتے کھیلتے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ امریکہ کے قومی دن کے موقع پر امریکی خوشنودی کے حصول کے لئے امریکہ چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح9/11کے واقعے کے ظہور کے بعد بھی امریکی جنگ کا ایندھن ہم ہی بنے لیکن جس طرح ماضی میں ہمارے تابعداری اور قربانیوں کے باوصف نہ صرف پرسیلر ترمیم کے ذریعے پابندیوں کاعذاب ہم نے جھیلا‘ نہ صرفF/16طیاروں کی تمام قیمت کی ادائیگی کے باوجود بھی نہ رقم کی واپسی نہ طیاروں کی فراہمی بلکہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سرخ جھنڈی دکھا دی گئی لیکن ہماراحرف شکایت تک زبان پر نہ لانا کیا ہماری مداہنت اور کمزوری ظاہر کرنا نہیں تھا وجہ اس کی جو بھی ہو لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے جیساکہ میں نے اوپر بیان کرتے وقت عرض کیاہے کہ ہم نہ دوستوں کوپہچان سکے اور نہ دشمنوں کو بلکہ ہمیشہ ہمیں اپنے لئے ناپسندیدہ ممالک کی چھتری تلے بیٹھے رہنا پسند کیاجبکہ اس کی دلی ہمدردیاں اورسچی دوستی ہمارے ازلی اور ابدی مخالف اوردشمن بھارت کے ساتھ رہیں لیکن جو ممالک دوست اور دشمن کی پہچان کی صفت سے متّصف ہوتے ہیں وہ نہ صرف معجزے برپا کرتے ہیں بلکہ اپنی طاقت اورمعیشت کا لوہا بھی منواتے ہیں۔
چین ہی کو دیکھ لیں جو نہ صرف ہمارے بعد آزاد ہوا بلکہ ایک وقت تھا جب دنیا چین کوایک سست الوجود قوم کے نام سے پکارا کرتی تھی‘ جسے لوگ افیونی کہا کرتے تھے لیکن محض اپنی آزادی کے70/72سالوں بعد ہی اس نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکہ جیسی سپرپاور اس کی مقروض ہے۔ ٹیکنالوجی میں اس نے حیران کن حد تک ترقی کی ہے اس ملک کے صدر شی جن پنگ نے اپنی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی100سالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جس جرأت کے اظہار کا مظاہرہ کیا ہے کیا یہ دنیا بھرکی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کے روز انہوں نے عالمی طاقتوں کوپیغام دیتے ہوئے کمال جرأت سے کہہ دیاکہ خبردار ”ہم سے ٹکرانے والوں کوچینی عوام پاش پاش کردیں گے“۔ انہوں نے کھل کردھمکی دے دی ہے کہ چین کو اب کوئی ڈرا دھمکانہیں سکتاکیونکہ وہ دور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہے اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی جرأت کی تو ہم اس کے سرکو دیوارِ چین کے ساتھ ٹکرا کر چکنا چور کردیں گے۔ ویل ڈن شی جن پنگ‘ زندہ باد چینی قوم‘لیکن اس مرحلے پر ہم ادھرکچھ دنوں سے وزیراعظم عمران خان کے امریکہ کو اڈے فراہم نہ کرنے کے عزم اور ارادے کو بھی خیرمستوراورنیک فال قرار دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح پاک فوج کے سربراہ اسی طرح کے جذبات ظاہر کرچکے ہیں اور جمعرات کے روز پاک فوج کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی افغان تنازعے میں پاک سرزمین کے استعمال نہ ہونے کاعندیہ دے چکے ہیں لائق تحسین رویہ ہے مگر امت مسلمہ کے مجموعی روئیے او آئی سی کے کردار اورچاردرجن پرمشتمل اسلامی فوج کی خاموشی اورعرصے سے رکھا ہوا چُپ کا رکھا ہواروزہ سمجھ سے بالاترہے۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭