شفقت اللہ مشتاق
زمین زاد ہونے کے ناطے مجھ پر لازم ہے کہ میرے پاؤں زمین پر لگیں اور نظر آسمان پر ہو۔ ویسے بھی نگاہ بلند میر کارواں کے رخت سفر کا اہم جزو ہے۔ اجزائے ترکیبی کی بنیاد پر ہی کوالٹی کا انحصار ہوتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہم زمین پر ہی رہیں ورنہ زمین کے اندر تو بالآخر ہم نے جانا ہی ہے اور بہتر ہے کہ جانے سے پہلے زمین کا قرض اتار دیا جائے۔ یقینا قرض اتار کے بندہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے نہیں تو انسان کو زمین اپنے اوپر بوجھ محسوس کرتی ہے۔ کاش ہم اپنا قرض اتار کر اس کیفیت کو محسوس کرلیتے لیکن آخری خبریں آنے تک ہمیں اس بات کا شدت سے احساس نہیں ہوا۔ ہوش کے ناخن لینے سے پچھتاوے سے بچا جا سکتا ہے بصورت دیگر گرنے کا خطرہ ہوتا ہے اور پتے جب گرنے لگتے ہیں تو پیڑ کب سہارا دیتے ہیں۔ حضرت ؓ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ زمین پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں آپ نے جواب میں فرمایا زمین پر بیٹھنے والے کو گرنے کا خوف نہیں ہوتا۔ لہٰذا زمین پر رہ کر ہی خوف کو دل سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہوا میں اڑنے والوں کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے بہرحال روحانی پرواز کو استثنیٰ حاصل ہے۔
اللہ تعالی نے ہماری ایک غلطی کے نتیجے میں ہمیں زمین پر اتار دیا اور پھر زمین پر ہمیں اپنا خلیفہ بنا کر بااختیار بنا دیا۔ اختیارات کے استعمال کے لئے بھی پورا نظام وضع کردیا گیا۔ کائنات میں غور و فکر اور زمین پر اللہ کے فضل کی تلاش میں پھیل جانے کا حکم بھی دیا گیا۔ یوں اس دیے کی لَو میں ہم نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا تھے۔ لیکن افسوس اس سلسلے میں حقائق بڑے تلخ ہیں۔ ہم نے خلیفہ فی الارض کا کردار تو نہ ادا کیا البتہ کچھ اور بن کر زمین پر فساد برپا کردیا۔ کہیں توپوں نے دل کھول کے گولے برسائے اور اس خون آلود بارش میں ابن آدم ابن آدم کو خوب نہلاتا رہا۔ کہیں جنگی جہازوں نے زمین پر اس شدت سے مزائل داغے کہ زمین کی چیخ و پکار سے آسمان کی “چیکیں ” نکل گئیں اور کہیں انسان کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے ایٹم بموں نے آبادیوں کی آبادیاں برابر کر کے زمین کے احسانِ مسکن کو برابر کردیا۔ہائے زمین تُو نے ہمیں سنبھالا دیا اور ہم نے تیرے دامن میں کیا کیا گُل کھلائے۔ گُل اور گلِ زمین کی سب سے خوبصورت چیزیں ہیں اسی لئے مولانا روم فرماتے ہیں میں نے مٹی میں پھول کی خوشبو محسوس کر کے مٹی سے پوچھا پھول کی خوشبو تیری صفت ہی نہیں تو نے یہ خوشبو کہاں سے پائی تو مٹی نے جواب دیا کہ میں کچھ دیر پھول کی صحبت میں رہی ہوں اس لئے اس کی صفت سے متصفّ ہو گئی ہوں گویا گُل اورگلِ مل جانے سے چیزوں کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ اور سوچ کی ہیئت بدلنے سے ہی کسی قوم کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ زمین کو خوبصورت بنانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ اور یہ ذمہ داری جب بھی کسی نے نبھائی ہے تو اس کے چرچے زمین پر بھی دل کھول کر کئے گئے ہیں۔ اور آسمان نے بھی اس کی دل کھول کر گواہی دی۔
ٹوڈر مل ایک ہندو تھا لیکن اس نے زمین کی مینجمنٹ کے لئے کام کیا ہے۔ آج بھی ہندو پاک کی لینڈ مینجمنٹ کی تاریخ اس کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے اور وہ لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ کی پہچان بن گیا۔ اور پھر کالونیل ازم نے پٹواری اور تحصیلدار کو زمین کا انتظام و انصرام سونپ دیا۔ ظاہر ہے منتظمین کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور پھر اس اہمیت کے پیش نظر بھتیجے بھانجوں کو خرقہ مال پہنا کر یہ بھاری ذمہ داری سونپ دی گئی تاکہ کالونیل ازم کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ کالونیل ازم اور لینڈ مینجمنٹ دونوں کا ہمارے ہاں خاتمہ ہوگیا یک نہ شد دو شد۔ خیر بھلا ہو اس کا جس نے عزیزداری کا کلچر پیدا کیا تھا اسی نے بروقت پٹوار کلچر کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کرکے کمپیوٹر آپریٹر کو شرف مسیحائی بخشا۔ اور پھر ”شہباز کرے پرواز“ کہ لوگ خود ہی بھگتیں گے۔ جس کی زمین وہ جانے اور اس کا کام۔ ہم نے تو پٹوار کلچر کا خاتمہ کیاجس کا اجر جائیدادوں کے ملٹی پلائی ہونے سے ہمیں مل چکا ہے۔ بقیہ کام آنے والے جانے اور ان کا کام جانے۔ کاش ہم ٹیکنالوجی کا استعمال جان جاتے تو آج لوگ اپنے حقوق کے لئے در در دھکے نہ کھاتے پھرتے۔
ٹوڈر مل کا بنایا ہوا زمین کا نظام شیر شاہ سوری اور جلال الدین اکبر اور دیگر مغل بادشاہوں کے ادوار سے ہوتا ہوا انگریزوں کے دور میں اس شکل میں آگیا جو کہ مروجہ شکل ہے۔ اس میں رجسٹر حقداران زمین، رجسٹر انتقالات، رجسٹر گرداوری، روزنامچہ واقعاتی، روزنامچہ کارگزاری، روزنامچہ پڑتال، لال کتاب وغیرہ اہم دستاویزات ہیں۔ ارتقاء کے عمل کے پیش نظر رجسٹر حقداران زمین کی ہر چار سال بعد تجدید، بندوبست کا عمل اور کنسالیڈیشن لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ کا باقاعدہ حصہ تھے۔ انتقالات کی شکل میں ملکیت کا تعین کیا جاتا تھا، گرداوری کی صورت میں قبضہ کا تعین کیا جاتا تھا۔ یہ ہر دو کام اپنی نوعیت کے بڑے ہی اہم کام تھے جو کہ پہلے پٹواری اورگرداور نے موقعہ پر جا کر کرنے ہوتے تھے اور اس کے بعد ریونیو افسر نے موقعہ پر جا کر نئے اندراجات کی جلسہ عام میں تصدیق کرنا ہوتی تھی۔ روزنامچہ واقعاتی روزمرہ کی ڈائری تھا اور اس کو پٹواری حلقہ ترتیب دیتا تھا۔ اس دستاویز میں اس پٹوار سرکل میں ہونے والے تمام واقعات کا اندراج کیا جاتا تھا۔ اس کو عدالت ہائے میں بطور شہادت بھی پیش کیا جاتا تھا۔ محکمہ مال کے افسروں کی کارکردگی کے جائزے کے لئے روزنامچہ کارگزاری اور روزنامچہ پڑتال کا وجود رکھا گیا زمینوں کی پیمائش اور حدبراری میں سہ حدے،جریب اور جھنڈیوں کا بستہ پٹوار میں ہر وقت موجود ہوناضروری تھا۔ لال کتاب کی ایک اپنی اہمیت تھی۔ حکومت کی پالیسیوں اور نئے قوانین اور عدالت ہائے کے احکام کے اندراج کا بھی ایک خاص طریقہ اس سارے عمل کا حصہ تھا۔ تین چار چکوک/مواضعات کو ملا کر پٹوار سرکل اور تین چار پٹوار سرکل کو ملا کر قانونگوئی بنائی جاتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر انتظامی یونٹ ہیں اور پھر ریونیو سرکل، سب تحصیل، تحصیل اور ضلع انتظامی سیٹ اپ ہے۔ چوکیدار، لمبڑدار، پٹواری، گرداور،نائب تحصیلدار، تحصیلدار، اسسٹنٹ کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اس ساری کہانی کے اہم کردار ہیں اور ان سارے کرداروں کی نگرانی کے لئے کمشنر اور بورڈ آف ریونیو کا انتظامی و عدالتی سیٹ اپ ہے۔ تاکہ لوگوں کے زمین کے متعلقہ حقوق کا نظام اپ سٹ نہ ہو۔ بلاشبہ کسی بھی نظام کی کامیابی کا انحصار اس کی باصلاحیت افرادی قوت پر ہوتا ہے اسی لئے میرٹ کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس نظام کو ”اقربا پروری“ کے جذبے سے نہ صرف سرشار کیا گیا بلکہ سیاسی رنگ میں اس طرح رنگ دیا گیا کہ اس کا اپنا رنگ رِنگ روڈ کی شکل اختیار کرگیا۔ اوپر سے کمال مہربانی کرکے تحصیل لیول پر کمپیوٹر سنٹر بنا کر ریکارڈ کو یوں محفوظ کیا گیا کہ کسی کوکھیوٹ نہیں مل رہی، کوئی اپنے نام کی تلاش میں اے ڈی ایل آر اور تحصیلدار کے دفتروں کے دھکے کھا رہا ہے اور باقی ساری قوم لائن میں لگ کر اپنی باری کا تین بجے تک انتظار کرتی ہے اور تین بجے لنک کمزور ہو جاتا ہے کل پھر پورے کا پورا ٹبر دوبارہ تحصیل ہیڈکواٹر پہنچے گا۔ کالونیل ازم کی باقیات ختم اور کاشتکاروں کے دھکوں میں اضافے۔ یہ تو بھلا ہو بابر حیات تارڑ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کا جس نے حالات کی نزاکت کو محسوس کیا اور ایک جامع پالیسی بنائی جس میں بدلتے حالات اور جدید تقاضوں کے تحت ایک اصلاحات کا پروگرام ہے۔ پٹوار سرکل لیول پر دیہی مرکز مال بنا دیئے گئے ہیں. بلاشبہ یہ بھی ایک تجربہ ہے لیکن یہ ٹوڈر مل کے لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ کا ہی تسلسل ہے جس میں کمپیوٹر لٹریٹ پٹواری کام کریں گے اور یہ لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ بمعہ جملہ مذکورہ دستاویزات آئی ٹی سسٹم پر منتقل کردیا گیا ہے اور اس کا بنیادی یونٹ پٹوار سرکل ہی ہوگا اور کسی بھی شخص کو ریونیو ریکارڈ کے سلسلے میں تحصیل ہیڈکوارٹر جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یقینا اداروں کو بدلتے حالات کے تحت اصلاحات متعارف کروانا چاہییں بصورت دیگر عوام کااداروں پر اعتماد اُٹھ جاتا ہے اور ادارے اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭
